"FBC" (space) message & send to 7575

نئے پاکستان کا وعدہ

25 جولائی 2018ء سے پاکستان میں حکمرانی کا ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے۔ اسے کسی ایک سیاسی جماعت کی فتح کے طور پر دیکھنا، حق رائے دہی کے عمل کے ماحصل کو کم کرنے کے برابر ہو گا۔ 2018ء کے عام انتخابات کسی ایک شخص(عمران خان) یا کسی ایک سیاسی جماعت(پاکستان تحریک انصاف) کی فتح بھی نہیں، بلکہ یہ ان تمام لوگوں کی فتح ہے جو طویل ترین عرصے سے سٹیٹس کو کی اذیت میں مبتلا تھے۔ یہ دسیوں لاکھ بے چہرہ پاکستانیوں کی فتح ہے‘ جودو سیاسی جماعتوں یعنی دو خاندانوں کے ظالمانہ اقتدار کے ہاتھوں مجبور تھے۔ یہ ماڈل ٹاون کے قتل عام کے مظلوموں‘ قصور میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں‘ اے پی ایس پشاورکے شہدا اور سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی میں جان بحق ہونے والوں کی فتح تھی۔ یہ زینب کی فتح تھی۔ 
2018ء کے عام انتخابات کے تناظر میں مجھے تھامس جیفرسن کا لکھا ہوا امریکی اعلان ِآزادی کا ایک اہم پیرا یاد آ رہا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا: 'دانشمندی کا تقاضا ہے کہ عرصے سے قائم حکومتوں کو محض سطحی اور معمولی وجوہات کی بنا پر نہ بدلا جائے، اس قسم کے تجربات سے یہی سامنے آیا ہے کہ بنی نوع انسان زیادہ مصائب میں مبتلا ہوئی جبکہ برائی کی طاقتوں نے ان مصائب کو دو چندکیا۔ تاہم جب اذیتوں اور ناانصافیوں کا ایک سلسلہ ایک ظالمانہ نظام میں جکڑنے کا منصوبہ بنا لے تو یہ عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں، اور اپنے مستقبل کے تحفظ کیلئے نئے نگہبانوں کا تعین کریں‘‘۔ پاکستان کے عوام نے یہ حق اور ذمہ داری پوری کی ہے، اور ہمیں اس کیلئے انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ 
موجودہ معاملات کی بات کرتے ہیں: 2018ء کے انتخابات کا مینڈیٹ پاکستان تحریک انصاف کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس الیکشن میں اتنی سارے غیر معمولی واقعات کیوں سامنے آئے؟کیا یہ غیر معمولی واقعات ہمارے جمہوری جذبات میں کسی نئے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں؟ کیا عمران خان کی وکٹری سپیچ ایسے طرز حکمرانی کی نشاندہی کرتی ہے جو لوگوں کی جذبات کے عین مطابق ہو؟ خاص طور پر حکومت کے کون سے شعبوں کو پی ٹی آئی کی فوری توجہ درکار ہے؟ خان کے خواب کو عملی طور پر نافذ کرنا کتنا مشکل ہو گا؟ کیا عمران خان کے خواب کے وعدے خیبر پختونخوا‘ جہاں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے یا پنجاب‘ جہاں توقع کے مطابق پی ٹی آئی حکومت بنائے گی‘ تک محدود ہوں گے‘یا یہ ملک کے دوسرے حصوں تک بھی پھیلیں گے؟ خاص طور پر کیا پی ٹی آئی کا مینڈیٹ سندھ میں مؤثر ہو گا‘ جہاں حکمران سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی مخالف نعرے پر انتخابی مہم چلائی؟ 
کچھ انتخابی مشاہدات کے ساتھ شروع کرتے ہیں: انتخابی نتائج پر سرسری نظر سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عوام نے روایتی سیاسی اقتدار کے ستونوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی‘ شاہد خاقان عباسی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو ناکام بنا کر پچھلی تین دہائیوں کی بدنام سیاست کی بیخ کنی کر دی گئی ہے۔ سراج الحق اور اسفند یار ولی بھی اپنی نشستیں کھو چکے ہیں۔ فیصل آباد جیسے شہر‘ جہاں اب تک مسلم لیگ ن کے مختلف دھڑوں کے مابین مقابلہ تھا، نے بھی روایتی پنجابی سیاست کی علامتوں کو رد کر دیا ہے۔ رانا ثنا اللہ صوبائی نشست سے جبکہ طلال چوہدری اور عابد شیر علی قومی اسمبلی کی نشست سے ہار گئے ہیں۔ ایک پر تشدد ماضی کی یادگار ایم کیوایم اور پاک سر زمین پارٹی کے ارکان کو بھی عوام نے گرا دیا ہے۔ در حقیقت پی ٹی آئی کے بہت سے فصلی بٹیرے‘جنہوں نے مقبولیت کی لہر کو دیکھ کراس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی‘ جیسا کہ ساہیوال سے نوریز شکور اور ڈیرہ غازی خان سے ذوالفقار کھوسہ‘کو بھی نئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ملی۔
متعدد حوالوں سے 2018ء کے انتخابات' تبدیلی کا ووٹ‘ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ نئے چہروں کے لیے ووٹ تھا‘ اور اس پاکستان میں نیا کیا ہو گا‘ عمران خان نے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں اس کا خاکہ پیش کر دیا ہے۔خان کی تقریر‘ 2013 میں نواز شریف کی تقریر اور 2008ء میں زرداری کی پریس کانفرنس کے مقابلے میں کہیں زیادہ انکساری سے آراستہ تھی۔ اس تقریر میں خان نے ان چند معاملات کا ذکر کیا جن سے نئی حکومت فوری طور پر نمٹنا چاہتی ہے۔ خان کی اس تقریر کے محتاط تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے تین مختلف معاملات کی بات کی ہے‘ جس میں قومی پالیسی، خارجہ پالیسی اور انتخابی دھاندلی کے الزامات شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے مفصل تجزیے کی ضرورت ہے۔
اس آدھ گھنٹے کی تقریر میں‘ منکسر مزاج عمران خان نے زیادہ وقت قومی معاملات اور اپنی آنے والی حکومت کے ایجنڈا پر گفتگو کی۔ مدینہ کی عمرانی فلاحی ریاست کی مثال دے کر عمران خان نے واضح کیا کہ حکومت یقینی بنائے گی کہ قومی خزانے کا بیشتر حصہ کم آمدنی والے طبقے کے مفادات پر خرچ کیا جائے۔ عمران خان نے بعض حقائق کا خاص طور پر ذکر کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ ہماری آبادی کا 50 فیصد حصہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ ہمارے 45 فیصد بچے خوراک کی قلت سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں‘ اڑھائی کروڑ پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے اور دورانِ زچگی اموات اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں پاکستان سر فہرست ہے۔ ان حالات میں‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ' ہیومن ڈیویلپمنٹ‘ پر توجہ دیں گے۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ مالی احتساب کے ادارے اور عمل کو مزید مضبوط بنایا جائے گا(سیاسی انتقام میں ملوث ہوئے بغیر)۔ عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم ہائوس اور گورنرز ہائوسز جیسی سرکاری املاک کو کمرشل استعمال میں لایا جائے گا تاکہ قومی خزانے میں رقوم جمع ہو سکیں۔خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں۔امریکہ کے بارے میں انہوں نے خاص طور پر کہا کہ دو طرفہ تعلقات باہمی مفادات کے اصول پر مبنی ہوں گے۔انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مل کر بنائی تھیں‘اس کے باوجود ان تمام حلقوں میں جہاں دھاندلی کی شکایات ہیں‘ وہ انتخابی نتائج کھولنے اور از سر نو جائزہ لینے کے مطالبات کی حمایت کریں گے۔
وزیر اعظم منتخب کے یہ تمام تبصرے اور ایجنڈا خوش آئند ہے۔ ایسا ملک جہاں تاریخی طور پر اقتدار کو احتساب سے استثنیٰ کا جواز تصور کیا جاتا ہے‘ یہ ایجنڈا سبھی کے لیے روشن مستقبل کا پیمان ہے۔' سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کے لیے اس میں پریشانی ہی پریشانی ہے۔ اگر احتساب کے عمل کو حکومتی تائید بھی حاصل ہو جائے تو ہمیں بے مثال نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ 
انتخابی نتائج کے مطابق اس کے پورے امکانات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف مرکز‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت بنائے گی ‘جبکہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا اقتدار جاری رکھے گی۔ ان حالات میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے خان اور ان کی حکومت کو ممکنہ طور پر تین بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی‘ پنجاب کی افسر شاہی اور پی ٹی آئی میں 'سٹیٹس کو‘ کے حامی عناصر۔سندھ میں پیپلز پارٹی نے پچھلے دس برس کے دوران ہیومن ڈیویلپمنٹ ایجنڈا نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پنجاب میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے باقیات‘ بیوروکریسی کے ڈھانچے میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی اہم یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ایسے افراد شامل ہیں جو احتساب کے جاری عمل کا ہدف بننے والے ہیں (اگر اسے منطقی انجام تک پہنچایا گیا)۔ عمران خان اور ان کی جماعت ان سے کس طرح علیحدگی اختیار کرتی ہے‘ اسی سے ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی قسمت کا تعین ہو گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ در حقیقت یہ کام انتخابات جیتنے سے بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ معاملات ہی عمران خان اور ان کی پارٹی کی میراث کا تعین کریں گے۔ 
ابھی تو ہمیں عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے نیک تمنائیںکرنی چاہئیں‘ اور اسی سانس میں پاکستان کے لیے دعا بھی۔ ایک سادہ مگر سدا بہار دعا‘ جو ہماری تاریخ میں کروڑوں بار دہرائی گئی‘ مگر اس کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہ تھی: پاکستان زندہ باد! 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں