"FBC" (space) message & send to 7575

امید کا دور

اس ہفتے پاکستان آزادی کی 71 ویں سالگرہ منارہا ہے۔ نئی پارلیمان کے ارکان اور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔وفاق اور صوبوں کی سطح پر نئی کابینہ تشکیل دی جائیں گی اور وعدوں اور مقاصد کی تکمیل کے لیے پرانے آزمائے ہوؤں کی جگہ نئے لوگ لیں گے‘ یعنی دو سیاسی جماعتوں (اسے دو سیاسی خاندان پڑھا جائے)کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گا۔اس امید وبیم کی کیفیت کو صحیح طرح بیان کرنے کا کوئی طریقہ نہیں‘ جو اس ہفتے ہمارے مجموعی قومی جذبات سے برآمد ہو رہے ہوں گے۔ ایک مضبوط‘ محفوظ‘ ترقی پسند اور کرپشن سے پاک ملک کی امید‘ جو غیر آزمودہ سیاسی شخصیت عمران خان نے قوم کے دلوں میں پیدا کی ہے اور ساتھ ہی یہ خوف بھی کہ اگر وہ ناکام ہو گیا‘ تو لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی‘سوائے اس کے کہ وہ 'مجھے کیوں نکالا‘ اور 'مسٹر 10 پرسنٹ‘ کے اسی داغدار حلقے میں واپس چلے جائیں۔لیکن یوم آزادی کے اس ہفتے کی مناسبت سے‘ کچھ وقت کے لیے آئیں اس لاچاری کی کیفیت کو ختم کریں اور غور کریں کہ کیونکر یہ پر امید رہنے کا وقت ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے نقاد‘ جو ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ 'یہ ملک ٹھیک نہیں ہوسکتا‘ ‘کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حقیقت پر تو غور کریں کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے ہٹ کر کوئی سیاسی جماعت حکومت بنانے جا رہی ہے۔ 1970ء سے ہمارے ملک کی مداخلتوں کی ماری ہوئی جمہوری تاریخ میں پہلی بار بھٹو/زرداری یا شریف خاندان سے ہٹ کر کوئی شخصیت اہم ترین عہدے پر فائز ہو رہی ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں ‘جو کہ کثرت رائے سے تشکیل پاتا ہے‘اس پیش رفت کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ کم ازکم یہ تو ہوا کہ نئے تصورات اور نقطہ ہائے نظر ہمارے پالیسی بیانیے میں راہ پائیں گے۔ آگے: ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہمارے پاس ایک ایسی سیاسی حکومت ہو گی جس کی طاقت کا سر چشمہ نہ پنجاب ہو گا(جیسا کہ مسلم لیگ ن کا تھا) اور نہ سندھ (جیسا کہ پیپلز پارٹی کا)‘بلکہ ایک سیاسی جماعت جس کی طاقت کا مرکزہ خیبر پختونخوا میں ہے‘ اب وفاق میں بھی حکومت کر رہی ہو گی اور فیصلہ سازی میں دو بڑے صوبوں کو خیبر پختونخوا کی سیاسی قوتوں کی جانب دیکھنا پڑے گا۔ ممکن ہے پشاور کو وہ اہمیت حاصل ہو جائے جو مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں لاہور کو حاصل تھی یا کراچی کوپیپلز پارٹی کے ادوار میں حاصل رہی۔
یہ بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ حکومت‘ ملک میں پہلی بار بد عنوانی کی بنیاد پر ایک وزیر اعظم کی نااہلی اور سزا کے فیصلے کے بعد قائم ہو رہی ہے‘ جو کہ اپنے دور اقتدار میں 'سٹیٹس کو‘ کی ایک بڑی علامت تھا۔ یہ بھی اہم ہے کہ یہ نااہلی اور سزا کسی ملٹری کورٹ یا مارشل لا کے دوران نہیں ہوئی ‘ بلکہ مروجہ آئینی طریقہ کار اورسول عدالتوں‘ جنہیں نیب‘ ایف آئی اے‘ایس ای سی پی اور ایس سی پی کی مدد حاصل تھی‘ کا فیصلہ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کا باعث بنا۔ نتیجتاً حالیہ یادداشت میں پہلی مرتبہ ہمارے حکمرانوں پر ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں اور کوئی بھی احتساب کی راہ سے بچ کر کسی چور دروازے سے نہیں نکل پائے گا۔ اگر نواز شری‘تمام تر اثر رسوخ اور طاقت ور آدمیوں کے باوجود‘ قانونی وسائل سے زیادہ دولت رکھنے پر پکڑا جا سکتا ہے‘تو یقینی طور پر اس کی جماعت کا ہر آدمی اسی اصول اور معیار پر پرکھا جائے گا۔
طویل تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ہمارے اداروں نے خود کو افراد سے بلند سطح پر رکھا ہے‘ وہ دن گئے جب سیاسی پارٹی کا لیڈر گرج سکتا تھا کہ 'نیب چیئرمین کی کیا مجال‘‘ قمر زمان کی نیب اور ظفر حجازی کی ایسی ای سی پی کے دن گئے۔ حیات نو سے سرفراز عدلیہ کی مدد سے یہ ادارے اب کسی خاندان یا فرد کے اشارے کے غلام نہیں۔ نیب کے نوٹس مسلم لیگ ن کے سابق وزرا‘پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور تحریک انصاف کے عہدیداروں کو یکساں طور پر بھیجے گئے ہیں۔ اوراقتدار حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف ہمارے قومی خزانے کی محافظ بن جائے گی‘ اور امکان ہے کہ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے اس کے کام اور شفافیت پر گہری نظر رکھیں گے۔یہ حقیقت بھی اتنی ہی اہم ہے کہ قدرت خلا (سیاسی خلا)کو پسند نہیں کرتی۔ جب ماضی کی بہت سی حکومتیں لوگوں کی بنیادی ضروریات جیسا کہ صاف پانی‘ خالص خوراک‘ ملاوٹ سے پاک دوائیں‘ معیاری صحت کی سہولیات اور کارآمد نظام تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہیں تو سپریم کورٹ جیسے اداروں نے اس نااہلی کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے مداخلت کی۔ مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کہ یہ عدالتوں کے نمٹانے کے کام نہیں۔ اب جب نئی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے‘ اس کے ارکان کو اس چیلنج کے لیے آگے بڑھنا ہو گا تاکہ اس خلا کو پر کیا جائے‘ جو کہ عشروں سے نظر انداز کئے گئے سوشل سیکٹر ریفارم ایجنڈا کے نتیجے میں موجود ہے۔
در پیش آبی بحران اور اس کے نتیجے میں ڈیموں کی تعمیر پر خصوصی توجہ اس ضمن میں تازہ ترین اور اہم ترین مثال ہے۔ چند ماہ پہلے تک جب سپریم کورٹ نے کٹاس راج کیس اور بھاشا اور مہمند ڈیم کا نوٹس لیا‘ ہماری حکومت کے قابل ذکر بیانیہ میں پانی کی بچت کے منصوبوں کا کہیں ذکر نہ تھا۔ پچھلے کئی سال کی حکومتیں پانی کو قومی اہمیت کا معاملہ بنانے میں ناکام ثابت ہوئیں‘اس وقت بھی نہیں جب تھر میں سو سے زائد بچے قحط سے ہلاک ہو گئے۔ 'مجھے کیوں نکالا‘ اور 'ووٹ کو عزت دو‘ کی سیاسی نعرہ بازی کرنے والوں کی جانب سے پچھلے دس سال کے دوران پانی کے بحران کے بارے کوئی سیاسی بیان یا کسی پالیسی کا اعلان نہ کیا گیا۔ حکومت کے عہدیدار‘ ہمارے ملک کے بڑے حصے میں قحط کے خطرات سے نمٹنے کے بجائے اقتدار میں رہنے کے منصوبہ سازی میں زیادہ مصروف دکھائی دیتے تھے۔ اس قسم کی کوتاہی کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے پاس اس ملک میں 'خود پرست‘ حکومتی ماڈل کے لیے مزید نہ وقت ہے اورنہ گنجائش۔ ہم میں‘ ہماری جمہوریت کے ان رکھوالوں کے لیے مزید برداشت نہیں رہی۔ آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔
ہمارے ملک کے لیے بظاہر ناقابل تسخیر چیلنجز کے باوجود‘ اس 14 اگست کو 'امید‘ کی خوشی منانے کا جواز موجود ہے۔ ہمارے ماضی کی 'سیلف سرونگ سیاست کے خاتمے کی خوشی منانے اور آنے والی حکومت سے امیدیں باندھ لینے کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرے گی‘ کا جواز ہے۔ اس لیے آئیں ہم اس ہفتے آزادی کی خوشیوں کو خوش آمدید کہیں‘ مگر دو وعدوں کے ساتھ‘ ایک یہ کہ ہم اپنے ماضی کا سیاسی ترکہ ایک طرف رکھتے ہوئے ‘ نئے جذبے اور امید کے ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں میں اپنا کردار ادا کریں گے‘ نمبر دو یہ کہ اگر پی ٹی آئی کی
حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ہم پہلے آدمی ہو گے جو (تھامس جیفرسن کے الفاظ میں) ''اس حکومت کو نکال باہر کرو‘ اور مستقبل کی سکیورٹی کے لیے نئے محافظ فراہم کرو‘‘۔ 
ہمارے ملک کے لیے بظاہر ناقابل تسخیر چیلنجز کے باوجود‘ اس 14 اگست کو 'امید‘ کی خوشی منانے کا جواز موجود ہے۔ ہمارے ماضی کی 'سیلف سرونگ سیاست کے خاتمے کی خوشی منانے اور آنے والی حکومت سے امیدیں باندھ لینے کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرے گی‘ کا جواز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں