"FBC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی نا قابلِ یقین کہانی

عمران خان نے 22ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وزیر اعظم عمران خان (وہ کہہ رہا ہوں جو خواب معلوم ہوتا ہے) نے ہماری سر زمین کا سب سے بڑا عہدہ سنبھال لیا ہے‘ اور اب انہیں بہر صورت 'نیا پاکستان‘ کی تعمیر کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ تقریبات مکمل ہو چکی ہیں‘ ضابطے کی کارروائیاں (حلف اور گارڈ آف آنر) پوری ہو چکی ہیں۔ پندرہ رکنی کابینہ اور پانچ مشیروں کے ناموں اور محکموں کی ابتدائی فہرست بھی سامنے آ چکی ہے‘ اور کابینہ آج حلف اٹھائے گی۔ اب اصل کام شروع ہوتا ہے‘ انتخابی مہم کے دوران کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کا‘ اور پچھلے 22 سال کی سیاسی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کا۔ مگر 'نیا پاکستان‘ کی تعمیر کا عمل شروع ہونے سے قبل‘ آئیں کپتان کی نا قابل یقین کہانی پر کچھ دیر کے لیے غور کریں۔ یہ بے مثال عزم‘ استقلال اور امید کی کہانی ہے۔ 
کوئی عمران خان کو پسند کرتا ہے یا اس کی سیاست سے اتفاق کرتا ہے‘ یہ اس عزم اور یقین کی کہانی کو تسلیم کرنے کے لیے غیر متعلقہ ہے‘ جس کے نتیجے میں عمران خان کو ریاست کے سب سے بڑے عہدے کے لیے منتخب کئے جانے کا کام سر انجام پایا۔ 16 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کی شروعات کے ساتھ خان نے 1971ء میں ایج بیسٹن ٹیسٹ میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کے لیے پہلا میچ کھیلا۔ وہ اس وقت کے باؤلرز میں سب سے تیز یا ہنر مند نہیں تھا۔ دراصل یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اسے پاکستانی ٹیم میں بیٹنگ آل رائونڈر کے طور پر شامل کیا گیا تھا‘ مگر بعد ازاں وہ دنیا کا بہترین باؤلر بن گیا۔ کھیل کے زخموں سے بھرا ہوا اس کا کیریئر 70ء کی دہائی کے آخر میں ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا‘ مگر خان نے زخموں کو اس کے عالمی سطح کا مانا ہوا کرکٹر بننے کے خواب پر حاوی نہ ہونے دیا۔ وہ کس طرح؟ صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر۔ کرکٹ میں اس کے کئی سال کے رفقائے کار کہتے ہیں کہ فٹنس اور باؤلنگ کے ہنر کے لیے محنت میں کوئی بھی عمران خان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ سرفراز نواز سے‘ جو کہ عمران کے ایک مخالف رہے ہیں‘ جب خان کے ڈسپلن اور فٹنس کی عادت کے بارے پوچھا گیا تو سرفراز کے یہ الفاظ بڑے مشہور ہوئے کہ 'کوئی گھوڑا بھی اتنا نہیں بھاگ سکتا تھا جتنا کہ عمران خان‘۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں فتح صرف ٹیم کے ٹیلنٹ اور سکِل کی وجہ سے نہ تھی‘ دراصل 92ء ورلڈ کپ ٹیم کا ہر کھلاڑی مانتا ہے کہ یہ عمران خان کی نا قابل تسخیر قوت ارادی اور قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے پاکستانی کرکٹ کو کھیل کے بامِ عروج پر پہنچنے میں مدد کی۔
خدمتِ خلق میں شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بھی یکساں ناقابل یقین ہیں۔ کوئی بھی یقین نہیں کرتا تھا کہ عمران خان عوامی عطیات کی مدد سے یہ ادارے مکمل کر سکے گا۔ یقیناً کوئی یہ بھی تصور نہ کر سکتا تھا کہ خان ان اداروں کو چیرٹی کے طور پر جاری رکھ پائے گا۔ ان کاموں کے لیے اسے تضحیک بلکہ ہتک کا نشانہ بھی بنایا گیا‘ مگر کپتان کے استقلال اور قوت ارادی نے وسائل کی‘ جب اور جہاں ضرورت پڑی‘ کمی کے خلا کو پُر کیا۔ 
مگر کپتان کے سفر میں سب سے ناقابل یقین فتوحات سیاست کے میدان میں ہیں۔ 1996ء میں جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو عمران کا مذاق اڑایا گیا۔ برسوں سیاسی پنڈت یہی کہتے رہے کہ عمران خان سیاستدان ہی نہیں۔ اس کے پاس وہ سب کچھ نہیں جو پاکستان میں سیاست کے لیے درکار ہے۔ وہ خود کو اتنا نہیں جھکا سکتا کہ سیاست کی غلام گردشوں میں سے گزر سکے۔ اسے سیاست میں اپنا اُلو سیدھا کرنے کے گُر نہیں آتے۔ وہ دعویٰ کیا کرتے کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ اصغر خان بن سکتے ہیں‘ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اور یہ نظریے درست ثابت ہوئے جب 1997ء کے انتخابات میں پارٹی تمام سیٹیں ہار گئی‘ جبکہ 2002ء کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ (عمران خان کی اپنی) ہی جیتی جا سکی۔ خان صاحب کے پاس شکست تسلیم کرنے اور بد دل ہو کر بیٹھ جانے کی ہر وجہ موجود تھی۔ 'دانش مند اور کہنہ مشق‘ سیاسی پنڈتوں نے انہیں رک جانے کا مشورہ دیا۔ حالات سے سمجھوتہ کر لینے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کا مشورہ۔ بہت سوں نے تو ان کی سیاسی موت کی کہانیاں بھی لکھ رکھی تھیں۔ وہ ان کے تصورات کا مذاق اڑاتے اور ہنستے کہ یہ ملکی سیاست کریں گے۔ مگر خان‘ پُر عزم کپتان امید سے سرشار رہا کہ ان کا وقت آئے گا‘ باوجود اس کے کہ ایسا فرض کر لینے کی بظاہر کوئی منطقی دلیل بھی موجود نہ تھی۔
2008 ء کے انتخابات کا کپتان نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا (قبل از انتخابات دھاندلی اور بے قاعدگیوں کو بنیاد بنا کر)۔ بلکہ کپتان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی نامزدگی کی درخواست بھی پھاڑ ڈالی۔ یوں 2008ء کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔ سیاسی قیافہ شناسوں نے اسے پی ٹی آئی کے انجام سے تعبیر کیا‘ کہ الیکشن کا بائیکاٹ کرکے وہ اپنے سیاسی دھڑے کے مزید ارکان سے محروم ہونے والا ہے۔ لوگوں نے انہیں سیاست چھوڑنے کی ترغیب دی کہ وہ کل وقتی توجہ فلاحی کاموں پر مرکوز کر سکیں‘ جہاں انہیں کچھ کامیابی حاصل ہو چکی تھی۔ یہ اچھا مشورہ تھا۔ کپتان کے لیے سیاست سے کنارہ کش ہونے کی ہر وجہ موجود تھی۔ ہر لحاظ سے ان کی سیاست کے دن گزر چکے تھے۔ ان کا پیغام ناکام ہو چکا تھا اور اسی طرح وہ خود بھی‘ لیکن بعض ناقابلِ تشریح وجوہ کی بنا پر کپتان نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔
اور پھر 2011ء میں اکتوبر کے مہینے کی ایک رات کپتان نے اپنے (غیر منطقی) استقلال کے لیے عوامی جواب ملاحظہ کیا‘ جبکہ ہم سب نے ایک معجزہ رونما ہوتے دیکھا۔ کپتان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا۔ حسب معمول سیاسی پنڈت قیاس آرائی کر رہے تھے کہ یہ چھوٹا اور بے معنی ہو گا۔ حکمران سیاسی جماعت نے اسے ایک دم توڑتی سیاسی جماعت کی آخری ہچکی قرار دے کر نظر انداز کیا۔ مینار پاکستان کی طرف نظریں جمائے اور سانس روکے ہر ایک اسی کا انتظار کر رہا تھا کہ دیکھیں اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا۔ کیا یہ دن عمران خان کے وعدوں کے خاتمے کا باعث بنتا ہے یا ایک نئی سیاسی قوت جنم لیتی ہے۔ اور پھر یوں ہوا کہ: لوگ دسیوں‘ بیسیوں اور سینکڑوں کی تعداد میں گروہ در گروہ آنا شروع ہوئے‘ گدھا گاڑیوں پر اور لینڈ کروزروں پر‘ خوبصورت گھروں اور کھلے میدانوں سے‘ کچھ ننگے پاؤں اور کچھ پراڈا کے کپڑوں میں ملبوس‘ یہاں تک کہ لوگوں کا بڑھتا ہوا ہجوم 'سونامی‘ بن گیا۔ انہوں نے صبر سے انتظار کیا اور صرف ایک عمران خان کے خیال میں گھنٹوں ناچتے رہے۔ وہاں سٹیج پر شاہ محمود قریشی نہ تھے‘ نہ جہانگیر ترین یا علیم خان ہی تھے۔ اصل میں یہ 'سونامی‘ اس نظریے کی ضد میں جمع ہوا تھا‘ جس کی یہ لوگ نمائندگی کرتے تھے۔ یہ لمحہ ہماری سیاسی تاریخ کے پردے میں سوراخ کے مترادف تھا‘ اور اس نے ایک نئی امید پیدا کی۔ کپتان کی پی ٹی آئی‘ 2013ء کے عام انتخابات نہ جیت سکی‘ مگر ایک قابل ذکر سیاسی قوت کے طور پر نمایاں ہو گئی۔ آنے والے سالوں میں کپتان اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے ہدف بنے رہے۔ یہ بھی چھوڑنے اور گھر جانے کی ایک وجہ ہو سکتی تھی۔ مگر یہ سب وہ کپتان نہیں کر سکتا تھا‘ جسے ہم جانتے ہیں۔ جو 1992ء کا ورلڈ کپ جیت کر لایا‘ کینسر ہسپتال تعمیر کیا‘ ایک سیاسی جماعت شروع کی اور اب ہمارے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہو چکا ہے۔ یہ ایک امید کا لمحہ ہے۔ آج‘ کپتان کا نیا پاکستان بنانے کا سب سے بڑا چیلنج شروع ہو جائے گا۔ مگر اس سے قبل کچھ وقت لے لئے‘ آئیں‘ ناقابل تسخیر کپتان کی ناقابل یقین کہانی کو تسلیم کرنے کے لیے کچھ دیر رک جائیں اور تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اس کے وعدوں کی تکمیل کے لیے اس پر اعتماد کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں