"FBC" (space) message & send to 7575

عمران خان سے محبت اور نفرت کا رشتہ

سیاست بھی لوگوں کو نرالے انداز میں نظریاتی کیمپوں میں تقسیم کر تی ہے۔ یہاں ہم ''نظریاتی‘‘ کو رعایتِ لفظی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ کسی مقبول سیاسی لیڈر کے ساتھ لوگوں کی محبت اور نفرت کی مختلف جہتوں کو بیان کیا جا سکے۔ اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جمہوریت کے موجودہ تناظر میں عمران خان سے زیادہ طاقتور سیاسی محرک شاید ہی کوئی اور ہو۔
کپتان کے خلاف اور حق میں اتنے شدید اور فوری رد عمل کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک وہ ہیں‘ جو اس سے شدید نفرت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ آخر ان دونوں میں اتنا تفاوت کیوں ہے؟ کپتان کے حوالے سے با شعور لوگوں میں اتفاق رائے کیوں مفقود ہے؟ اور جس سماج میں کپتان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے اس کے لیے یہ بات کیا معنی رکھتی ہے؟
چلیں اس عقدے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ایسے لوگوں کی چار اقسام ہیں جو عمران خان سے پیار کرتے ہیں‘ اسے سپورٹ کرتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جو اس کی طلسماتی شخصیت اور ورلڈ کپ فتح کی کہانی سے مسحور ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو رجائیت پسند ہیں (یا ابھی وہ اتنے کم عمر ہیں کہ قنوطی ہو ہی نہیں سکتے) وہ کرپشن اور نا اہلیت کے سمندر میں کپتان کو امید کے ایک جزیرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ جو سیاست کے موسمی پرندے ہیں اور انہیں کپتان کے برسر اقتدار آنے سے مالی فوائد ملنے کی توقع ہے۔ چوتھے وہ جنہیں آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں سے نفرت ہے اور ان بد عنوان لیڈروں کے خلاف عمران خان کے جارحانہ ایجنڈے کی وجہ سے اس پر فریفتہ ہیں۔
اسی طرح عمران خان کو نا پسند کرنے والوں کو بھی چار گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول‘ وہ جو آصف علی زرداری اور نواز شریف کے سیاسی حامی اور اتحادی ہیں۔ دوم‘ وہ جو سول ملٹری عدم توازن کی وجہ سے ہر اس شے سے نفرت کرتے ہیں جنہیں فوج کی حمایت حاصل ہو۔ سوم‘ وہ جو پیدائشی طور پر قنوطیت پسند ہیں اور ان کی گفتگو کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے ''یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔‘‘ چہارم‘ ٹوئٹر پر براجمان ایک فوج ظفر موج جو سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں کی توقع سے کہیں زیادہ چالاک اور سمارٹ ہیں اور اپنے بارے میں یہ غلط تاثر رکھتے ہیں کہ 'بہت مستند ہے ان کا فرمایا ہوا‘۔ 
کپتان کے مخالفین کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا اپنا تعلق زرداری یا نواز شریف ٹولے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک بہتر پاکستان کی خاطر اس شخص سے آخر کیا بحث کی جائے‘ جس کا اپنا دامن کرپشن سے لتھڑا ہوا ہو؟ اس شخص کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے‘ جو اس قحط زدہ قوم پر سالہا سال سے مسلط 'سٹیٹس کو‘ کا پروردہ ہو۔ ہم تو صرف یہی امید کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہئے کہ کسی ایسے لیڈر کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار ہو جائیں‘ جو عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر اپنے خزانوں کا منہ کھولنے پر یقین رکھتا ہو۔ (ضروری نہیں کہ وہ لیڈر عمران خان ہی ہو۔)
چلیں اب ان دائمی قنوطیوں کی بات کرتے ہیں جو اس امر پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قوم اور اس کے عوام کی زبوں حالی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگ آپ کو ان پوش ڈرائنگ رومز میں ملیں گے جو ہمارے اربن لینڈ سکیپ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت ریٹائرڈ زندگی گزارتی ہے (مثلاً جن کی ترجمانی روئیداد خان کرتے ہیں) یہ گروپ اس ملک میں پائی جانے والی ہر خامی کو دیکھ کر روزِ حشر کی منظر کشی شروع کر دیتا ہے۔ اکثر ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں کبھی بہتری نہیں آ سکتی اور ساتھ ہی اپنے دورِ عروج کی کوئی کہانی سنانا شروع کر دیں گے کہ کس طرح میں نے اس ملک میں انقلاب لانے کی بھرپور کوشش کی تھی‘ مگر بری طرح ناکام ہو گیا تھا۔ اور چونکہ میں ناکام ہو گیا تھا تو کوئی دوسرا کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ اور وہ بھی ایک کرکٹر جسے حکومت کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے اور جو احتساب کے راستے سے اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر سوار ہو کر آیا ہو۔ یہ ملک اس طرح ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
دلیل کی حد تک سب سے زیادہ سنجیدہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو عمران خان کے اس وجہ سے مخالف ہیں کہ وہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے۔ ان کی توجیح یہ ہے کہ کپتان کا وردی والوں کے ساتھ معاملہ طے پا چکا ہے‘ اور اسے اسٹیبلشمنٹ مخالف عناصر کو ٹارگٹ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کپتان کی تقریروں کے ذریعے قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے‘ اور حب الوطنی کی آڑ میں مخالفین کو ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے۔
درست، اس دلیل میں میرٹ نظر آتا ہے۔ ہم یقینا ایسی حکومت نہیں چاہتے جو غیر جمہوری قوتوں کی آلہ کار ہو؛ تاہم کیا کپتان کی اس بنا پر مخالفت کرنا درست عمل ہو گا کہ فوج اور عدلیہ اس کی سپورٹ کر رہی ہیں۔ کیا کسی سیاسی چوائس کے لیے یہی واحد معیار ہونا چاہئے؟ کیا صرف خاکی حمایت سے ہی کسی فرد کی مخالفت جائز ہو جاتی ہے؟ کیا ہمیں پہلے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ معیشت، صنعت، سوشل سیکٹر ریفارمز اور خارجہ امور کے حوالے سے کپتان کے پاس کیا کیا منصوبے ہیں؟ اگر وہ زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں کے مقابلے میں ایک بہتر متبادل ہے تو کیا وہ محض اس لئے ہمارے قہر و غضب کا سزاوار ہے کہ وہ ریاست کے مقتدر حلقوں کے ساتھ ڈیڈ لاک جیسی صورت حال پیدا نہیں کرتا۔ بالفاظ دیگر اگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح کر لیتا تو کیا یہ لوگ اس کی سیاسی حمایت ترک کر دیتے؟ کیا زرداری ایسے لوگوں کو اس لئے زیادہ اچھا لگتا ہے کہ اس نے ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی؟ اگر عمران خان اچانک اٹھ کر آرمی چیف یا چیف جسٹس کو کشتی لڑنے کا چیلنج دے دیں تو اس سے وہ اچھا حکمران بننے کے اہل ہو جائے گا۔
آخر میں ٹوئٹر پر مصروف عمل فوج ظفر موج کی بات کر لیتے ہیں‘ جو خود کو دوسروں سے زیادہ چالاک اور ذہین (یا پکے پاکستانی) سمجھتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر سوشل میڈیا کے لوگ جنہیں یہ خوش فہمی ہے کہ وہ پورے پاکستان کے لئے مشعل بردار ی کر رہے ہیں۔ ان سب کے لئے یہ خبر ہے کہ ہماری آبادی کا آدھا حصہ جو اپنی بنیادی ضروریات کے لئے حکومتی امداد کا محتاج ہے وہ کسی سوشل میڈیا بریگیڈ کو نہیں جانتا۔ انہیں پینے کا صاف پانی چاہئے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پانی مہیا کرنے والی سرکار اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے یا اسٹیبلشمنٹ نواز ہے۔ انہیں صحت، تعلیم اور روزگار کی ضرورت ہے نہ کہ یہ جاننے کی کہ کیا نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ایئرکنڈیشنر ملا ہے یا نہیں۔ وہ ٹوئٹر ٹرینڈز کو فالو کرتے ہیں نہ اپنے مخالفین کو لتاڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے جہادیوں کو اس بات کا ادراک ہو جانا چاہئے کہ وہ اتنے اہم نہیں ہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں اور ہماری رائے بھی اتنی نتیجہ خیز نہیں ہوتی جتنا ہم خیال کرتے ہیں۔
ممکن ہے عمران خان ہمارے ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل نہ نکال سکیں۔ ہو سکتا ہے وہ نواز شریف اور آصف زرداری سے بہتر ثابت نہ ہو سکیں۔ ممکن ہے کہ وہ محض اسٹیبلشمنٹ کا ایک بے جان سا آلہ کار ثابت ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان ابھی کچھ عرصہ اور سماجی برائیوں کے گرداب میں پھنسا رہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سب کو عمران خان پر طعن و تنقید کے نشتر چلانے چاہئیں اور دوبارہ اسے کبھی ووٹ نہیں دینا چاہئے۔
مگر اس وقت تک ہمیں حوصلہ کر کے اس حکومت کو ایک موقع دینا چاہئے۔ نئے پاکستان پر سنگ باری سے پہلے ہمیں ایک لمحے کے لئے توقف ضرور کرنا چاہئے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں