"FBC" (space) message & send to 7575

دینی مدارس میں اصلاحات

پاکستان تحریک انصاف کا سو روزہ پلان بہت زبر دست ہے۔یہ گورننس‘معیشت ‘زراعت ‘ماحولیات ‘سوشل سیکٹر ریفارمز اور قومی سلامتی جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ توقع نہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘پھر بھی پی ٹی آئی کے لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اپنے اس پلان میں بیان کئے گئے‘ ان شعبوں کے بارے میں ایک واضح عزم اور لائحہ عمل کا مظاہرہ کرے‘ جن میں قوم کو درپیش دیرینہ سنگین امور بھی شامل ہیں۔
اس ریفارم ایجنڈے میں سر فہرست دینی مدارس میں اصلاحات لانے کا ہدف ہے کہ انہیں تعلیم کے قومی دھارے میں لایا جائے‘ تاہم ابھی تک یہ امر واضح نہیں ہو سکا کہ کپتان ان میں سے بعض مدارس اور ان کے طلبا کو نجی تعلیمی اداروں کے برابر کیسے لا سکیں گے؛اگر پاکستان بھر کے مدارس کو بھی مساوی وسائل فراہم کر دیئے جائیں اور مناسب نصابی اصلاحات بھی متعارف کروا دی جائیں ‘جو اپنی حد تک ناممکن نظر آتا ہے‘ پھر بھی پی ٹی آئی قدامت پسند اور بعض صورتوں میں متشدد ذہنیت کو کیسے تبدیل کرے گی؟ کیا کپتان کے پاس نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں مدارس کو عسکریت پسندی سے پاک کرنے کا بھی کوئی منصوبہ موجود ہے؟اس فرقہ وارانہ ذہنیت کا کیا بنے گا‘ جو ہمارے بعض مدارس کی پہچان بن چکی ہے۔ابھی تک ایسا کوئی پلان منظر عام پر نہیں آیا‘مگر پی ٹی آئی کے سو روزہ پلان کے تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ مدارس میں اصلاحات اور پاکستان میں مذہبی تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و تمحیص کا آغاز کیا جائے۔ اسلامی تہذیب کی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ایک وقت تھا جب عالم اسلام کے تعلیمی نظام میں مذہبی اور سائنسی ترقی کے حوالے سے مدارس کو ایک غیر متنازعہ مقام حاصل تھا۔اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ گیارھویں صدی کے اختتام پر دنیا بھر سے مسلمان ‘مسیحی ‘یہودی؛ حتیٰ کہ ملحد علماء بھی کئی مہینوں کے صحرائی سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے اصفحان کے مدرسے میں ابن سینا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے لئے آتے تھے۔وہ ابن سینا سے دین اور تصوف کے علاوہ ریاضی ‘طب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔اسی مدرسے کے احاطے میں پہلی مرتبہ اس وقت سرجری کی گئی تھی جب قدامت پسند مذہبی حلقوں نے اسے ممنوع قرار دے رکھا تھا۔یہیں پر رات کے وقت ستاروں کی روشنی میں ابن سینا اور اس کے شاگرد ہمارے نظام شمسی کے تمام معلوم سیاروں کی محوری حرکت کی پیمائش کرتے تھے۔انہوں نے مسلم تاریخ اور قرانی مفاہیم ومعانی پر پر مغز مقالے تصنیف کئے۔حصول علم کی اسی طلب کے ذریعے سے انہوں نے نہ صرف کائنات کے دبیز اسرار سے پردے اٹھائے‘ بلکہ علم و شعور کی اسی آب و تاب کی مدد سے بہت سے غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں داخل کرنے میں بھی کامیاب ٹھہرے۔ 
آج کے پاکستان میں ہم اسلامی تاریخ کے اس متاثر کن دور سے کافی آگے تک سفر طے کر چکے ہیں۔وزارت مذہبی امور کے مطابق ‘آج پاکستان میں بیس ہزار کے قریب دینی مدارس ہیں‘ جن میں بیس لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔یہ مدارس جو غیر سرکاری تنظیموںکے طور پر رجسٹرڈ ہیں ‘پانچ مرکزی بورڈز کی زیر نگرانی کام کرتے ہیں‘ جہاں بریلوی ‘دیو بندی ‘اہل حدیث‘اہل تشیع سمیت تمام اسلامی مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے۔عموماًان مدارس میں داخل ہونے والے طلباسے معمولی داخلہ فیس کے علاوہ کوئی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی؛چنانچہ دیہات میں بسنے والے اور کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کے لئے یہ مدرسے خصوصی کشش رکھتے ہیں‘ وگرنہ وہ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔
مدارس کا سلسلہ (بشمول ابن سینا کے عہدکے )جب سے شروع ہوا ہے‘ آج تک پاکستانی مدارس کا یہ عملی طریق رہا ہے کہ ان کے نظام تعلیم میںمذہبی تعلیمات کی تدریس ہی ان کا بنیادی مقصد رہا ہے‘ تاہم ماضی کی روشن روایت سے قطع تعلقی کے باعث (چند ایک کے سوا)پاکستانی مدارس کے نصاب سے مذہب کی تعلیم کے علاوہ دیگر مضامین خارج کئے جا چکے ہیں؛چونکہ مدارس کو مختلف مکاتب فکر سے مالی فنڈنگ ہوتی ہے اور وہی انہیںکنٹرول کرتے اور چلاتے ہیں اس لئے ان پر فرقہ وارانہ کلچر کی چھاپ بھی گہری ہو گئی ہے۔کسی بھی مدرسے میںپڑھایا جانے والا نصاب ہی اسلام کی معروضی تشریح بن گیا ہے‘ جو ان مرکزی بورڈز میں سے کسی ایک کے سیاسی اور مذہبی ایجنڈے کے عین مطابق ہوتا ہے‘ پھر یہی رنگ ان طلبا کو پڑھائی جانے والی تاریخ میں بھی نظر آتا ہے ۔ مزید یہ کہ ان مدارس میں پڑھائے جانے والے لٹریچر‘ یعنی ادب ‘سائنسی علوم؛ حتیٰ کہ انسانی حقوق کو بھی اسی محدود تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
سال ہا سال سے ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا پاکستان بھر کی مساجد میں امام اور خطیب کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں؛چنانچہ نماز جمعہ کے خطبے میں ہونے والی تقاریر کے ذریعے پھیلنے والے مذہبی نظریات ہماری عمومی تہذیب و ثقافت کے عکاس بن جاتے ہیں۔رفتہ رفتہ ہمارے اعتدال پسند حلقے جو بدقسمتی سے مذہبی تعلیم سے عاری ہوتے ہیں‘ اپنے مذہبی استحقاق کے ضمن میں اس فرقہ ورانہ مذہبی تقسیم کے ایجنڈے کے سامنے سر نگوں ہو گئے ہیں۔
ان گزارشات کے تناظر میں اب مدارس کے نصاب اور ساختیاتی ڈھانچے میں اصلاحات بہت ضروری ہو گئی ہیں۔اس حوالے سے 2001ء کے مشرف دور میں مدارس اصلاحات کے لئے کئی اقدامات کئے گئے تھے۔عالمی ڈونرز سے ملنے والے پانچ ارب ستر کروڑ روپے کی امداد مختلف پروجیکٹس کے لئے مختص کی گئی‘ تاکہ ہمارے مدرسہ کلچر میں جدت اور اعتدال پسندی لائی جا سکے۔پاکستان بھر کے نجی اور سرکاری سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کی طرح‘ ان مدارس کے نصاب کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا‘ جس کا ٹائٹل تھا: Pakistan Madrassahs Education (Establishment and Affiliation of Model Deeni Madaris)Board Ordinance 2001۔ اس سے کچھ دیر بعدVoluntary Registration and Regulation Ordinance 2002جاری کیا گیا‘ تاکہ پاکستان کے مدارس میںغیر ملکی طلبا کے داخلے کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جا سکے۔افسوس کہ ان اقدامات کو مدارس کی اکثریت نے بیک زبان مسترد کر دیا کہ علما کومذہبی تعلیم کے امور میں ریاست کی مداخلت قبول نہیں ہے ۔
پی ٹی آئی کی سو روزہ (اور اس کے بعد کی )حکمت عملی میں ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔عمران خان کی حکومت کو اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ جدت پسندی اور قدامت پسندی کے مابین جاری‘اس جدوجہدمیں اصلاحات لانے کے لئے بے اثرقوانین کااجرا یا کمزور پروگراموں میں مالی فنڈز کا ضیاع کافی نہیں ہوگا۔
ریاست کی محض چندمخصوص مدارس کی سرپرستی کی پالیسی سے شدت پسندی کے تدارک میں کامیابی نہیں مل سکتی۔مدرسہ اصلاحات کی پالیسی وضع کرتے وقت ہمیں ابن سینا کی '' علمی انقلاب ‘‘ کی مشعل سے روشنی مستعار لینا ہوگی اور اسے بروئے کار لانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو علم اور امن کے اس جہاد میں سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ہر ایک کو زبانی اور عملی طور پر تشدد اور فرقہ ورانہ تقسیم کے ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ہم میں سے ہر ایک کو نہ صرف جدید علوم‘ بلکہ اسلامی تعلیمات کے زیور سے آراستہ ہونا ہوگا‘ تاکہ دیگر باتوں کے بجائے سچائی اور امن و آشتی کی تبلیغ کی جا سکے۔ہمیں اپنے اندر علمی تشنگی کے اس لافانی جذبے کو سمونا ہوگا‘ جو ہمارے دین کی اساس ہے‘ جس کا پہلا حکم ہی ''اقرا‘‘ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں