"FBC" (space) message & send to 7575

نیب، عدالتوں کے روبرو

گزشتہ چند ہفتوں سے قومی احتساب بیورو (نیب) تنازعات میں گھرا ہوا ہے (اپنی دو عشروں کی نشیب و فراز سے بھرپور تاریخ میں سب سے زیادہ)۔ اس متنازعہ حیثیت کے کچھ پہلوئوں سے مفر ممکن نہیں کیونکہ نیب ایک منقسم سیاسی ماحول میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ مگر دوسری جانب نیب کی حیثیت اس وقت متنازعہ ہوئی جب اس نے پہلے ایک بھدے انداز میں مبینہ ملزمان کے خلاف تحقیقات کیں‘ اور پھر اسی انداز میں ان پر مقدمہ بھی چلایا۔
ہم دو حالیہ واقعات کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں‘ جنہوں نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے اول: اسلام آباد ہائی کورٹ سے میاں نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت اور سزا معطلی کا فیصلہ۔ دوم: آشیانہ ہائوسنگ سیکنڈل میں شہباز شریف کی گرفتاری۔
نواز شریف کی ضمانت کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ‘ جسے جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا ہے‘ ایون فیلڈ کیس میں نیب کی تحقیقات اور استغاثے کے ضمن میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ خاص طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنے سے بعض افسوسناک حقائق سے پردہ اٹھتا ہے کہ نیب نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے شاید ہی الزامات کی تحقیقات کے لئے خود کوئی کوشش کی ہو‘ اس نے اپنا پورا مقدمہ ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر استوار کیا ہے۔
جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے واضح ہے کہ نیب نے نہ تو شریف خاندان کی حقیقی آمدن کا حوالہ دیا‘ نہ ہی ''اس آمدنی کے ذرائع بتائے ہیں اور نہ ان وسائل کی تفصیلات دی ہیں جن سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہو سکے اور پھر یہ الزام عائد کیا جا سکے کہ انہوں نے اپنی ''آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ‘‘ کے اثاثے بنائے ہیں۔ 
دراصل اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق نیب ''ثبوت کے طور پر کوئی ایسی دستاویز‘‘ پیش کرنے سے قاصر رہا‘ جس سے خریدتے وقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہو سکے۔ ان کمزور تحقیقات کے نتیجے میں سخت سزا کا امکان نیب کی قانونی ٹیم کے مقدمے کی پیروی نے ختم کر دیا۔ در حقیقت نیب نے NAB Ordinance کے سیکشن 14 کی ایک انوکھی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے‘ جو محض یہ کہہ کر (بارِ ثبوت ملزم کی طرف منتقل کر دیتا ہے) کہ چونکہ شریف خاندان نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت خود تسلیم کر لی ہے‘ لہٰذا اپنی مطلوبہ آمدنی کے ذرائع ثابت کرنا اب ان کی ذمہ داری ہو گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بھونڈی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اسفند یار ولی و دیگر بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان (پی ایل ڈی 2001ء ایس سی 607) میں پہلے ہی کہ چکی ہے کہ ''استغاثہ کو ابتدائی حقائق پیش کرنا ہوں گے‘ جس کے بعد بارِ ثبوت شفٹ ہو گا اور مدعا الیہ کو اس مفروضے کو باطل ثابت کرنا ہو گا‘‘۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں خاص طور پر حاکم علی زرداری بمقابلہ ریاست ( 2007ایم ایل ڈی901) کا حوالہ دیا کہ کس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے تفصیلی شرائط طے کر دی ہیں‘ جنہیں ملزم پر بارِ ثبوت شفٹ کرنے سے پہلے پورا کرنا ضروری ہو گا۔ ''یہ طے کیا گیا کہ استغاثے کے لئے چار بنیادی تقاضے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ اول: استغاثے کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کسی سرکاری عہدے پر فائز تھا۔ دوم: اس کے قبضے میں پائی جانے والی پراپرٹی کے مالی وسائل کی قیمت اور نوعیت کیا ہے۔ سوم: یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کے معلوم ذرائع آمدنی کیا تھے‘ یعنی مکمل تحقیقات کے بعد استغاثہ کے علم میں آئے ہوں۔ چہارم: یہ کہ یہ وسائل معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتے ہوں‘‘۔
نیب نے ان میں سے کوئی تقاضا بھی پورا نہیں کیا‘ الٹا یہ استدلال دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ اصول اور تقاضے متذکرہ کیس پر لاگو نہیں ہوتے اور یہ دلیل عدالت کو متاثر نہ کر سکی۔ 
حیران کن بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ درخواست گزاروں کو سیکشن 9(a)iv کے تحت اس الزام سے بری کر دیا گیا تھا (کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو کرپشن، بد دیانتی اور غیر قانونی ذرائع سے خریدا گیا ہے) نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ یہ فیصلہ کہ (ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدنے میں کوئی کرپٹ یا غیر قانونی ذرائع نہیں استعمال کئے گئے) اب حتمی شکل اختیار کر چکا ہے اور اسے اب اپیلٹ مرحلے دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔ 
سادہ ترین الفاظ میں نیب کی پراسیکیوشن نے (اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کر کے) یہ تسلیم کر لیا ہے کہ شریف خاندان نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میں کوئی کرپشن یا بد دیانتی نہیں کی ہے۔
اب نیب‘ جس نے ایون فیلڈ ریفرنس کی مناسب انداز میں تحقیقات نہیں کی‘ کرپشن کے الزامات میں بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکا‘ اور بارِ ثبوت کے ضمن میں سپریم کورٹ کی نظیر تسلیم کر کے بھاری ذمہ داری اپنے سر لے چکا ہے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کا جواز پیش کرے‘ اور ان کے خلاف الزامات کو ثابت کرے۔
ابتدائی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ شہباز شریف کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے غیر قانونی احکامات کے ذریعے ہائوسنگ سکیم کو پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی سے ایل ڈی اے کو منتقل کیا‘ پھر دوبارہ اسے پی ایل ڈی سی کو منتقل کیا‘ پھر پی ایل ڈی سی حکام کے تحفظات کے باوجود پیراگون کمپنی کو کنٹریکٹ دے کر پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ شروع کی اور لطیف سنز کو پہلے سے دیئے ہوئے کنٹریکٹ کو منسوخ کرنے کے غیر قانونی احکامات جاری کئے گئے۔ اس ضمن میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکومت کو فزیبلٹی سٹڈی کی مد میں پچیس کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا، نقصان کے ازالے کے طور پر کنٹریکٹر کو چالیس کروڑ روپے دینے پڑے۔ لاگت میں اضافے کی صورت میں چار ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا‘ اور بسم اللہ کنسٹرکشن (پیراگون) کو چودہ ارب روپے کا فائدہ دینے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
فی الحال یہ الزامات بڑے مارجنل لگتے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ نیب کے پاس اپنے ان دعووں کے کیا ثبوت ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ گواہ کون ہیں‘ اور ان الزامات کے لئے کون سے دستاویزی ثبوت ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ابھی تک اس امر کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی کہ فواد حسن فواد اور دوسرے لوگ اپنے سابق باس شہباز شریف کے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہم کس طرح یہ یقین کر لیں کہ نیب کے پاس مجاز عدالت کے روبرو ان الزامات کو کامیابی سے پراسیکیوٹ اور ثابت کرنے کی استعداد بھی موجود ہے۔ 
لمحۂ موجود میں ہمیں تو بس ایک بات کا یقینی علم ہے کہ نیب بذات خود اہم مقدمات (خصوصاً شریف خاندان کے خلاف) کے سلسلے میں عدالتوں کے روبرو سرزنش کا سامنا کر رہا ہے۔
ان مقدمات کا فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آتا ہے یا خلاف‘ یہ سیاسی لحاظ سے فی الحال کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان فیصلوں کا اثر نیب کی کارکردگی پر ہو گا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کے احتسابی عمل کے حوالے سے عوام کے اعتماد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔
احتساب کا نعرہ بہت پرکشش ہے۔ یہ دیکھ کر بھی بظاہر اطمینان ہوتا ہے کہ دولت مند اشرافیہ کس طرح احتساب کی دہلیز پر پیشیاں بھگت رہی ہے۔ لیکن اگر نیب اپنے تحقیقات اور پراسیکیوشن کے معیار پر توجہ مرکوز نہیں کرتا تو اس کے نتائج اس کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر ریفرنس میں لازمی سزا ہی ہو گی۔ اس طرح احتسابی عمل کی شہرت متاثر ہو گی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو نیب نے جس طرح کی کمزوری بلکہ نا اہلی کا مظاہرہ کیا ہے میرے خیال میں اس کی جواب طلبی ہونی چاہئے۔
سیاسی اور مالیاتی احتساب پاکستان کا قومی بیانیہ یا نعرہ بن چکا ہے۔ نیب کے ذریعے ہو یا نیب کے بغیر۔ نیب کی نااہلی کو اس امر کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس نیک مقصد اور مہم کو نقصان پہنچائے یا اسے آگے بڑھنے سے روکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں