"FBC" (space) message & send to 7575

احتساب سے فرار

جب پانامہ لیکس سیکنڈل نے دنیا میں ایک طوفان برپا کیا‘ تو اس نے پاکستانی سیاست کی بنیادیں بھی ہلا کر رکھ دیں۔ملک بھر میں تنقید ہو رہی تھی کہ صرف مخصوص افراد کا احتساب ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حواریوں کی جانب سے یہ دعوے کئے گئے کہ آئی سی آئی جے کے انکشافات اور اور اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی طرف سے ہونے والی کارروائی ایک بڑی سازش کا حصہ ہیں‘ جس کا مقصد صرف شریف فیملی کو ٹارگٹ کرنا ہے‘یعنی یہ غیر مرئی قوتوں کی وضع کردہ سکیم کا حصہ ہے‘ جس کا مقصد پاکستان میں حکومت کی تبدیلی ہے‘نیز یہ کہا گیا کہ احتساب کا نعرہ محض ایک شوشہ ہے ‘جس کا مقصدشریف فیملی کو نشانہ بنانا ہے‘ جو کہ مقتدر حلقوں کی منظور نظر نہیں رہیں۔
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مالیاتی احتساب کا یہ سلسلہ مسلم لیگ (ن) سے پیپلز پارٹی ‘پاکستان تحریک انصاف اور سٹیٹس کو کے دیگر ستونوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔کسی کو امید نہ تھی کہ جہانگیر ترین تا حیات نااہل ہو جائیں گے‘کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ حسین لوائی اور انور مجید جیسے طاقتور لوگ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں؛اگرپچھلے دو سال کے واقعات کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے ‘تو پتا چلے گا کہ ہمارے ملک میں احتساب کے نظام کو از سر نو استوار کرنے کا سہرہ صرف نیب یا ایف آئی اے کے سر ہی نہیں باندھا جا سکتا۔ آخر یہ ادارے کئی عشروں تک خاموش تماشائی بن کر قومی خزانے کو لٹتا اور ارباب اقتدار کی تجوریوں کو بھرتا دیکھتے رہے۔نیب کے سابق چیئرمین قمر الزمان چودھری اور ایف آئی اے کے کئی سربراہان کی نظروں کے سامنے اس لٹی ہوئی قومی دولت کے بل بوتے پر سیاسی وڈیرے پروان چڑھتے رہے‘ مگر ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔یہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی زیر قیادت سپریم کورٹ آف پاکستان تھی‘ جس نے اس مسئلے کی طرف دھیان دیاتو نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے بھی خواب خرگوش سے بیدار ہو کو انگڑائیاں لینے لگے۔گزشتہ دو برسوں میں رفتہ رفتہ یہ ادراک پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ کوئی فرد‘ سیاسی جماعت یاوڈیرا قانون کی پہنچ سے دور نہیں۔
2018ء کے الیکشن سے قبل اس احتسابی تحریک کے ناقدین نے (جو زیادہ تر نواز شریف کے حامی تھے)''مخصوص احتساب‘‘کا بیانیہ قائم کرنے میں بڑی پھرتی دکھائی۔ان کا استدلال یہ تھا کہ پانامہ لیکس میں تو سینکڑوں پاکستانیوں کے نام تھے ‘مگر تحقیقات صرف شریف فیملی کے خلاف ہی کیوں ہوئیں ؟نواز شریف کی بے گناہی کی بات کرنے کی بجائے وہ یہ پوچھتے تھے کہ آصف علی زرداری کو پوچھ گچھ کے لئے کیوں طلب نہیں کیا جاتا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ آصف زرداری کی دولت بھی یقینا ایمانداری سے کمائی ہوئی نہیں۔آخر سپریم کورٹ آف پاکستان کی توجہ ان کی طرف کیوں نہیں جاتی ؟ان کے خیال میں عدالت جانب داری کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔ان کا موقف تھا کہ معزز عدلیہ نواز شریف مخالف مقتدرحلقوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے‘مگر الیکشن کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں‘ تو یہ بیانیہ یکسر غلط ثابت ہوا ہے۔اپنے ''اندھے احتساب ‘‘کے موقف پر عمل کرتے ہوئے معزز عدالت اور دیگر ریاستی اداروں کی توجہ اب سندھ پر مبذول ہے۔سندھ کا حقیقی حکمران انور مجید اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ان کے بیٹوں جن کے اشارئہ ابرو سے صوبائی وزیر بنتے تھے اور بیورو کریسی کی تقرریاں ہوتی تھیں‘کے ساتھ بھی عام مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔پی پی پی کے منظور نظر افراد کے ملکیتی بینکوں سے آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں کے نام پر کھولے گئے جعلی اکائونٹس سامنے آرہے ہیں۔تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ان اکائونٹس کی مدد سے اربوں روپے کی لوٹ مار کی گئی ہے۔اب شرجیل میمن اینڈ کمپنی کو آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کے نجی ہسپتالوں میں وی آئی پی پروٹوکول بھی حاصل نہیں ۔اپنے والد کی بے پناہ دولت اور اثر ورسوخ کے باوجود شاہ رخ جتوئی کو ڈیتھ سیل منتقل کر دیا گیا ہے۔اس کی شہد کی بوتلیں اور دیگر خوبصورت کھلونے ضبط کر لئے گئے ہیں۔اس مجرم کو یہ سب سہولتیں فراہم کرنے والے جیل انتظامیہ کے اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ فریال تالپور اورآصف علی زرداری کو آزادانہ نقل و حرکت کے لئے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرانا پڑی۔
نثار مورائی زیر حراست ہے اور منظور کاکا فرار ہے۔یہ تو ابتدا ہے پیارے ۔''ہاف فرائی ‘‘ اور ''فل فرائی ‘‘کا مطلب جاننے کے لئے عزیر بلوچ اور دیگر افراد کی باری تو ابھی باقی ہے۔
احتساب کا یہ ناگزیر سلسلہ ایک طرف پورے سندھ تک پھیل چکا‘ تو دوسری طرف زرداری اور شریف برادران کی قربت کی باتیں بھی سننے میںآ رہی ہیں۔اوپر سے نیوز میڈیا ‘جس پر اس سیاسی چپقلش کو بڑھاوا دینے کا جنون سوارہے‘ اسے موجودہ حکومت کے لئے حقیقی خطرہ بنانے کی کوشش میںمصروف ہے‘ جو در حقیقت پاکستانی اداروںکے لئے ایک برا شگون ہے۔ہم پہلے سیاسی پہلو پر بات کرلیتے ہیں۔بفرض محال فضل الرحمن‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو ایک سیاسی میز پر بٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ‘پارلیمنٹ میں ان کے ارکان کی تعداد میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے ‘پھر بھی موجودہ حکومت کے گرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔بات صرف تعداد میں اضافے کی نہیں ۔چلیں‘ ہم ایک انتہائی صورتحال بھی فرض کر لیتے ہیں کہ حکومت گر بھی جاتی ہے ‘تو بھی اپوزیشن جماعتوں کے پاس اتنا مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ حکومت تشکیل دے سکیں۔ ایسا ہو بھی جائے‘ تو بھی ان کی احتسابی چیخوں میں کمی نہیں آئے گی۔
چلیں ہم اسی مفرضے کو آگے بڑھاتے ہیں؛اگر اپوزیشن جماعتیں مل کرحکومت گرانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ معزز سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پیچھے ہٹ جائے گی ؟کیا نیب بھی د وبارہ سے خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے گا؟کیا ایف آئی اے اور ہماری ماتحت عدالتیں بھی چپ سادھ لیں گی ؟کیا پاکستان کے عوام جنہیں زبر دست آزاد میڈیا کی اعانت حاصل ہے‘ اچانک سے سندھ میں ہونے والی قتل و غارت‘چائنا کٹنگ ‘ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ‘آف شور کمپنیوں اور ماڈل ٹائون میں ہونے والے قتل عام کو فراموش کر دیںگے ؟اگر مولانا فضل الرحمن‘ پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے تعاون سے حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں‘ تو کیا ہوگا؟کیا اس سے احتساب کا عمل رک جائے گا؟کیا نئی حکومت پاکستان میں منی لانڈرنگ کو جائز اور قانونی قرار دے دے گی؟کیا وہ شاہ زیب خان کے قتل کو جائز قرار دے دے گی؟کیا وہ ہمارے نظامِ عدل کے پورے ڈھانچے کو مسمار کر دے گی؟ بلاشبہ یہ سب کچھ ناممکن ہے۔جاری احتسابی عمل کے دھارے کو واپس موڑنا ممکن نہیں ہے۔پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے منظور نظر افراد اس احتساب کی زد میں آئیں گے‘ کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ غار سے باہر نکل آتے ہیں ‘فیلڈ کراس کر لیتے ہیں اور آ گ بھی دیکھ لیتے ہیں‘ تو پھر ذہن نشین کر لیں کہ غار میں واپسی نا ممکن ہوجاتی ہے۔ 
یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ وہ کون سا محرک ہے‘ جو ان اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر جمع ہونے پر مجبور کررہا ہے ؟کیا یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی مخالفت ہے ؟کیا یہ پی ٹی آئی حکومت کی بعض پالیسیوں سے نظریاتی اختلاف ہے؟کیا یہ کسی عوام دوست حکومتی ماڈل کے قیام کی خواہش کے تابع ہو رہا ہے؟یا محض سٹیٹس کو کے حامی عناصر اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کی خاطر ساری تگ ودو کر رہے ہیں ؟کیا یہ احتساب کے عمل سے راہ فرار کے طلب گار ہیں یا عوام کی لوٹی ہوئی دولت سمیٹ کر اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف پرواز کرنا چاہتے ہیں؟ 
محض آصف علی زرداری یا نواز شریف پر ہی (سیاسی اتحاد کے امکان سمیت)ان سب اقدامات کا الزام نہیں دھرا جا سکتا کہ وہ یہ سب کچھ اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے اور احتساب کی گرفت سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں۔ یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ اس کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کریں۔ ہم سب کو اس فریب سے باہر نکلنا ہوگا کہ یہ ممکنہ اتحاد خود کو قانونی سزائوں سے بچانے کی ایک کوشش ہے ۔اب ہمیں اسے محض ایک سیاسی چپقلش نہیں کہنا چاہئے‘بلکہ اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ یہ اس دم توڑتے ہوئے سٹیٹس کو ‘کی خود کو بچانے کی آخری کوشش ہے‘ جو جلد اپنے ہی بوجھ تلے دب کر کچلا جانے والا ہے۔ ہم اس فرق کو جس قدر جلد سمجھ لیں بہتر ہوگا‘ کیونکہ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس دھڑے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں