"FBC" (space) message & send to 7575

ہائی کورٹ کے علاقائی بنچ

اس ہفتے ہماری قوم نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہائی کورٹ کے اضافی بنچوں کے قیام کے لئے وکلاء کے ایسے احتجاجی مظاہروں کا نظارہ کیا‘ جن میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ‘سرکاری ملازمین سے ہاتھا پائی کی گئی اور عدالتی بائیکاٹ کیا گیا(جس کی وجہ سے سائلین کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا) خاص طور پر فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی قیادت میں وکلاء برادری یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ پنجاب کے دیگر اضلاع گوجرانوالہ ‘فیصل آباد ‘ سرگودھا‘ساہیوال اور ڈیرہ غازی خان میں لاہور ہائی کورٹ کے علاقائی بنچ بھی قائم کئے جائیں۔اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاجی وکلاء نے ڈپٹی کمشنر فیصل آباد سیف اللہ ڈوگر کے دفتر پر دھاوا بول دیا؛ حالانکہ وہ قانونی طور پر ہائی کورٹ کے نئے بنچ قائم کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔ 
ان حالات میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آئین کے تحت کسی صوبائی ہائی کورٹ کے اضافی بنچ کیسے قائم کیے جا سکتے ہیں۔یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟اس اختیار کو کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے؟کیا احتجاجی وکلاء کا مطالبہ میرٹ پر پورا اترتا ہے ؟یا یہ ملک میں جاری ''وکلاء گردی‘‘ کا ہی ایک تسلسل ہے ؟
قانونی طور پر آئین کا آرٹیکل 198(3)کہتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی لاہور میں قائم پرنسپل سیٹ کے علاوہ بہاولپور ‘ملتان اور راولپنڈی میں بھی ایک ایک بنچ قائم ہوں گے‘‘مزید برأں آرٹیکل 198(4)کہتا ہے کہ ہائی کورٹ کا دوسرا بنچ کسی ایسی جگہ قائم کیا جاسکتا ہے‘ جس کا تعین صوبے کے گورنر نے کابینہ کی ایڈوائس اور چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کیا ہو‘‘الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ'' مشاورت‘‘لازمی ہے۔
چنانچہ ہائی کورٹ کے علاقائی بنچوں کے قیام پرمؤثر کارروائی متعلقہ چیف جسٹس کی منظوری او رمشاورت کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔
گزشتہ کئی سال سے خصوصاً مشہور وکلاء تحریک کے بعد پاکستان بھر سے کئی ضلعی بار ایسوسی ایشنز آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہائی کورٹس کے علاقائی بنچوں کے قیام کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔متعلقہ ضلعی بارز کے احتجاج کے نتیجے میں اس مطالبے میں شدت سب سے زیادہ پنجاب میں دیکھنے میں آئی ہے۔
ان مطالبات (جن کا اظہار انتہائی غیر مہذب اندازمیں کیا گیا) کے نتیجے میں 2016ء میں اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن نے اس معاملے پر غور و خوض اور فیصلہ کرنے کے لئے فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔بعد میں جسٹس اعجاز الاحسن ترقی پا کر سپریم کورٹ کے جج بن گئے اور ان کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے اور یہ متنازعہ معاملہ ان کے پاس چلا گیا۔ان کی سربراہی میں پہلی مرتبہ لاہور ہائی کورٹ کے 47جج صاحبان نے تین دن کی متواتر سماعت کے بعد متعلقہ اضلاع میں علاقائی بنچوں کے قیام کے خلاف فیصلہ دیا۔
اس فیصلے کے بعد متعلقہ اضلاع میں کالے کوٹ والوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے(اس میں انہیں کسی حد تک پاکستان بار کونسل کی اشیر باد بھی حاصل تھی) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فل کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور اس کے بعد لاہور میں بھی اس سلسلے میںسینئر وکلاء کی طرف سے کوئی اجتماعی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی‘ ماسوائے وقتاً فوقتاً ہونے والے احتجاج کے جس کا ایک مشاہدہ آج کل پنجاب میںہم کر بھی رہے ہیں۔
ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے بعض ارکان ہائی کورٹ کے بنچوں کے قیام کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟کیا اس سے پنجاب بھر کے سائلین کو کوئی فائدہ ہوگا؟یا اس کا مقصد ضلعی عدالتوں کے بعض وکلاء کی ذاتی اجارہ داری کی راہ ہموار کرنا ہے؟کیا اس سے انصاف کی فراہمی میں کوئی مدد ملے گی ؟یا یہ محض ذاتی مفادات کی جنگ ہے؟بفرض محال اگر یہ بنچ قائم ہو بھی جاتے ہیں تو اس ایشو کا فیصلہ کرنے کا معیار کیا ہوگا؟آخر مخصوص اضلاع ہی میں کیوںعلاقائی بنچ قائم ہوں باقیوں میں کیوں نہیں ؟کیا اس طرح کے امور کو صرف بار کی سیاست کے رحم وکرم پر چھوڑدینا چاہئے؟یا اس میں عدلیہ کے وقار اور آزادی جیسے اہم پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟
بظاہرلاہورہائیکورٹ کے علاقائی بنچوں کے قیام کے مطالبے کے لئے یہ جواز فراہم کیے جاتے ہیں (۱) وکلاء اور ان کے موکلین کو دور دراز اضلاع سے طویل سفر کے بعد ہائیکورٹ پیش ہونا پڑتا ہے(۲)اس سے مقدمے کے اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے(۳)ضلعی عدالتوں کے وکلاء کو ہائی کورٹ کی سطح پر کوئی پیشہ ورانہ پہچان نہیں ملتی(۴)کیونکہ ضلعی اضلاع کے وکلاء کو ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے کا کم موقع ملتا ہے‘ اس لئے انہیں ہائی کورٹ کے جج بننے کے مواقع بھی کم ملتے ہیں(۵) جن اضلاع میںلاہور ہائیکورٹ کے بنچ نہیں ہیں‘ وہاں کے وکلاء کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
مذکورہ بالا جواز جو بظاہر معقول نظر آتے ہیں کا گہرا تجزیہ کرنے پر زیادہ قرین قیاس نہیں لگتے۔اول یہ کہ اگر امتیازی سلوک ہی علاقائی بنچوں کے اس مطالبے کا مرکزی جوازہے‘ تو پھریہ مطالبہ پانچ اضلاع تک ہی کیوں محدود ہو؟ بار کے ارکان سے پوچھا جانا چاہئے کہ پھر ہائی کورٹ کے بنچ ہرتحصیل کے لیول پر کیوں نہ قائم کیے جائیں؟اس سے بھی اچھا ہے کہ ہر ضلع کے چھوٹے قصبات میں بھی ایسے بنچ قائم ہونے چاہئیں۔لاہور ہائیکورٹ ماڈل ٹائون بنچ اور موچی گیٹ بنچ ؟یا سول کورٹ کمپلیکس میں بھی لاہور ہائی کورٹ کا ایک جج بٹھا دیا جائے؟جہاں تک دور دراز علاقوں سے سفر کرنے اور موکلین کے اخراجات میں اضافی بوجھ کا تعلق ہے تواس مطالبے میں ایک وزن موجود ہے۔اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہائی کورٹ تک پہنچنے میں موکلین خصوصاً غریب لوگوں کو سفر کی تکلیف اور اضافی اخراجات کا سامنا کرناپرتا ہے‘مگر جن پانچ اضلاع فیصل آباد ‘سرگودھا ‘ گوجرانوالہ ‘ساہیوال اور ڈی جی خان میں نئے بنچوں کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے انہیں دیکھ کر یہ موقف بھی کمزور پڑ جاتا ہے ۔ان میں سے کوئی ضلع بھی لاہور ہائی کورٹ کی پہلے سے قائم سیٹ سے ایک یا دو گھنٹے کی مسافت سے زیادہ دور واقع نہیں۔گوجرانوالہ سے کوئی وکیل یا موکل لاہور کے اندرواقع دور دراز علاقے کی بہ نسبت جلدی اور کم سفر خرچ سے لاہور ہائی کورٹ پہنچ جاتا ہے۔کیا آج کی جدید سفری اور مواصلاتی سہولیات کی موجودگی میں لاہور ہائی کورٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟
اب اس نقطے پر آتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ سے دور ہونے کی وجہ سے ضلعی عدالتوں کے وکلاء کو پیشہ ورانہ طور پر پھلنے پھولنے کا کم موقع ملتا ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ماضی قریب میں پنجاب بھر کے وکلاء کو لاہور ہائی کورٹ کا جج نامزد کرنے کی بھرپور اجتماعی کوششیں کی گئی ہیں۔ بصورت دیگر جہاں تکوکلاء کو پھلنے پھولنے کے کم مواقع ملنے کا الزام ہے‘ تو اس کی ذمہ داری بذات خود وکلاء پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی لائسنس یافتہ وکیل پر ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے یا پیش ہونے پر کوئی پابندی نہیں اور کسی بھی پروفیشنل وکیل کے پاس فاصلے اور سفری سہولت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر ہائی کورٹ میں پیش نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں ‘جہاں تک پیشہ ورانہ ترقی کی بات ہے تو اس کا انحصار وکیل کے اپنے تحرک اور مقدمے کے بارے میں اس کے دلائل کی قوت پر ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا قسم کے مطالبات کے سامنے آنے میں اصل قصور بار کی سینئرقیادت خصوصاً لاہور کی لیڈر شپ کا ہے۔لاہور کے سینئر وکلا ء نے اس مطالبے کی مخالفت کے باوجود ایک مصلحت آمیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ایسے وکلابھی ہیں ‘جو اپنی نجی محفلوں میںاس مطالبے کی مخالفت کرتے ہیں ‘مگر عوامی سطح پراپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ 
منافقت کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے اور بار کی سینئر لیڈر شپ خصوصاً لاہور کی قیادت کو لاہور ہائی کورٹ کے فل کورٹ فیصلے کی کھل کر حمایت کرنی چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں