"FBC" (space) message & send to 7575

FIR …’ جھوٹی‘ اطلاع کی رپورٹ

گزشتہ ہفتے آبادی کنٹرول پرمنعقدہ سمپوزیم میں اپنی تقریر میں جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے وہاں موجود وزیر اعظم پاکستان سے کہا کہ پاکستان کا قانونی نظام‘ جس کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان کا لیگل سسٹم کام کرتا ہے‘ اب متروک ہو چکا ہے اور پارلیمنٹ کے ذریعے اس کی تجدید کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس صاحب نے خصوصاً پاکستان کریمنل پروسیجر کوڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ 1898ء میں وضع کیا گیا تھا‘ہمارا سول پروسیجر کوڈ 1908ء میں پہلی مرتبہ ڈرافٹ کیا گیا تھا‘پاکستان پینل کوڈ1860ء میں بنایا گیا تھا اور ہمارے کنٹریکٹ ایکٹ کا ڈرافٹ1872ء میں تیار کیا گیا تھا۔فاضل چیف جسٹس صاحب نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ پارلیمنٹ کو نئی قانونی دستاویز تیار کرنی چاہئے ‘جو نہ صرف ہمارے لیگل فریم ورک کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کردے‘ بلکہ اس امر کوبھی یقینی بنادے کہ ہر شہری کو فوری انصاف دستیاب ہوسکے۔فاضل چیف جسٹس صاحب کی تقریر‘ قانونی ترامیم کی غرض سے ان سینکڑوں سفارشات سے مزین تھی‘ جنہیں لا اینڈ جسٹس کمیشن نے کئی سال کی محنت شاقہ سے تیار کیا تھااور جن پر آنے والی جمہوری حکومتوں نے کوئی قانون سازی نہیں کی ۔ہمارے اگلے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنے حالیہ فیصلوں اور کمنٹس میں ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم کو چلانے والے قوانین میں پائی جانے والی متعدد خامیوں کی نشاندہی کی ہے ‘جن پر ہماری پارلیمنٹ نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ جہاں ہمارے قوانین کے قدیم اوردقیانوسی سانچے میں بڑی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے‘ وہیںہمارا سب سے اہم مسئلہ کریمنل جسٹس سسٹم سے متعلق ہے۔دہشت گردی اور سنگین جرائم کے ضمن میں سزا نہ ہونے کی مسلسل شکایات آ رہی ہیں۔نظام قانون کی ان خرابیوں کو دور کرنے کی بجائے پاکستان میں ان مسائل کے عارضی حل کو ترجیح دی گئی ‘مثلاً:اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام۔
ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات پر بحث کرنے سے پہلے مشتبہ ملزموں پر مقدمہ چلانے کے حوالے سے دو اہم امور کا ادراک بہت ضروری ہے (1)مبینہ طور پر ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں مشتبہ ملزمان کو پکڑنے ‘ حراست میں رکھنے اور ان سے تفتیش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں(2) جب ان مشتبہ دہشت گردوں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو ناکافی ثبوت یا نامناسب تفتیش کی وجہ سے وہ سزا سے بچ جاتے ہیں۔پہلا مسئلہ ‘یعنی مشتبہ ملزموں کی گرفتاری ‘حراست اور تفتیش کا معاملہ زیادہ تر آپریشنل نوعیت کا ہوتا ہے‘ جس کا تعلق قانونی موشگافیوں سے کم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ مہارت سے زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ‘ مشتبہ جرائم پیشہ افراد پر مقدمہ چلاکر انہیں قرار واقعی سزا دلانا ہے اور یہ کام براہ راست قانونی اصلاحات کے ساتھ ان کی تشریح اور نفاذ کے دائرہ کار میں آتا ہے‘لہٰذا اس حد تک تو کام فوری طور پر بیک جنبش قلم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں نئے کریمنل جسٹس سسٹم سے متعلق قانونی شقوں اور پروسیجر کے صحیح دائرہ کار پر غور و خوض اور بحث کا سلسلہ جاری رہے گا‘ وہیں استغاثے کی کارروائی کا ایک پہلو ہماری فوری توجہ کا متقاضی ہے اور وہ ہے ایف آئی آر‘ یعنی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کا تقدس اور حرمت۔
ایک پس منظر کے طور پر یہ بتانا مناسب ہوگا کہ ایف آئی آر کا تصوراتی مطلب کسی قابلِ دست اندازی جرم کے وقوعہ کے بارے میں متعلقہ ریاستی ایجنسی کو اولین اطلاع دینا ہے‘ تاکہ اس پر ضابطے کی کارروائی او ر تفتیش شروع کی جا سکے۔کریمنل پروسیجر کوڈ 1898ء کی دفعہ 154کے مینڈیٹ کے مطابق‘ ایسی ایف آئی آر یا پہلی اطلاع متعلقہ پولیس اتھارٹیز کو تحریری طور پر جس پر شکایت کنندہ کے دستخط بھی ثبت ہوں دی جانی ضروری ہے۔ ہر ایف آئی آر اس اطلاع پر مبنی ہوتی ہے کہ متعلقہ وقوعہ کہاں ہوا ‘مشتبہ ملزمان کی شناخت یا حلیہ کیسا تھا اور اس مبینہ جرم کے ارتکاب میں مشتبہ ملزم کا کیا مخصوص کردار تھا؟ تاریخی طور پر عہد غلامی میں متعارف کرائی گئی ایف آئی آر فوجداری جرائم کے مقدمات میں کسی اہم اورمقدس حیثیت کی حامل نہیں ہوتی تھی۔اعلیٰ عدالتوں کے متعددفیصلوں کے مطابق ایف آئی آر کا بنیادی مقصد کسی قابلِ دست اندازی جرم کے بارے میں پولیس کو اطلاع فراہم کرنا ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر کے مرحلے پر کسی جرم کے ارتکاب کے بارے میں تمام تفصیلات فراہم کی جائیں۔
اس ضمن میں کئی سینئر پولیس اہلکااور سینئر وکلا اس طرح کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب کسی ثبوت یا تفصیل کے بغیر محض دو یا تین سطورپر مشتمل ایک مختصر ایف آئی آر قتل کے مقدمے میں کسی ملزم کو سزا دلانے کیلئے کافی ہوسکتی تھی‘تاہم وقت گزرنے کے ساتھ معروف وکلائے صفائی نے ایف آئی آر کے مواد اور اس کی حرمت کو بہت زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی۔ ٹرائل کورٹ سے جاری ہونے والے فیصلے سے جسے اعلیٰ عدالتوں نے بھی برقرار رکھا ‘ اس امر کو تقویت ملی کہ کسی واقعے کے بارے میں تفصیلات اور ملزم کی شناخت اور وقوعے میں اس کے کردار کو بھی ایف آئی آر کا حصہ بنایا جائے‘ تاکہ مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔جیسے جیسے شہادت کے معیار میں بہتری آتی گئی ٹرائل کورٹس نے بھی استغاثے سے تقاضا کرنا شروع کر دیا کہ وہ اپنے مقدمے کو قانونِ شہادت اور اسلامی احکامات کی روشنی میں ثابت کرے اور قتل جیسے جرائم میں چشم دید گواہی پیش کی جائے۔اس طرح یہ لازم ہوگیا کہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو بھی سزا دلانے کیلئے چشم دید شہادت پیش کی جائے۔اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ایف آئی آر میں چشم دید شہادتیں خود سے ڈالی جانے لگیں۔(حتیٰ کہ جب وقوعہ کسی نے بھی نہ دیکھا ہو)چنانچہ ریورس انجینئرنگ کے ذریعے استغاثہ اور پولیس شکایت کنندہ کی مدد سے ایسی ایف آئی آر بنانے پر مجبور ہو گئے جن میں جھوٹی چشم دید شہادتیں بھی شامل ہوں‘ کیونکہ ان کے بغیر سزا ہی نہیں دی جا سکتی تھی اور اس طرح اکثر جھوٹی شہادتوں میں وکیل صفائی کیلئے آسان ہو گیا کہ وہ ان خود ساختہ چشم دید شہادتوں کی خامیوں کو تلاش کرے ؛چنانچہ ان خود ساختہ شہادتوں کی وجہ سے ملزمان کو سزا دینے کے امکانات کم ہوتے گئے اور مقدمے کے عبوری مرحلے پر ہی ملزمان کی بڑی تعداد کو ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں۔پاکستان بھر میں قتل جیسے جرم کی ایف آئی آر کے سرسری مطالعے سے ہی اس کی یکسانیت ثابت ہو جاتی ہے‘ جس میں ملزمان مقتول پر فائرنگ کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کے ہمراہ اسے للکارا مارتے ہیں اور اس سارے وقوعے کے چشم دید گواہ وہاں کھڑے تماشائی ہو تے ہیں‘جو زیادہ تر مقتول یا شکایت کنندہ کے عزیزواقارب ہی ہوتے ہیں۔ایک ہی طرح کے روایتی حالات میں استغاثہ ہو یا مدعا علیہ ‘ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں اور کردار سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور اس کھیل میں سب کچھ سچائی کی بجائے تادیبی ضوابط کے تحت ہو رہا ہوتا ہے؛چنانچہ استغاثے کے پورے نظام کو باہم بر سر پیکار دو آئیڈیاز نے یر غمال بنا رکھا ہے (1)ایسی ایف آئی آر کا اندراج جو سزایابی کے عدالتی معیار کو مطمئن کرنے والی کافی شہادتوں اور ثبوتوں پر مبنی ہو۔(2)خامیوں اور کمزوریوں سے بھرپور ایک خود ساختہ اورجھوٹی ایف آئی آر جو استغاثے کو کمزور کرکے وکیل صفائی کا کام آسان کر دے۔
جب دہشت گردی کے جرائم میں اس طرح کی ایف آئی آر درج کی گئی ہو تو اس سے ٹھوس نتائج کا حصول تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کے تحریر کردہ بعض فیصلوںسمیت سپریم کورٹ کے کئی حالیہ فیصلوں سے کسی استغاثے کی کارروائی میں ایف آئی آر کی اہمیت کم ہوتی نظر آئی ہے‘تاہم عمومی طور پر کسی بھی مقدمے میں ایف آئی آر کو ابھی تک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ہمارے کریمنل جوڈیشل سسٹم پر نظر ثانی کیلئے ہونے والی کسی بھی بحث میں اس کے سٹینڈرڈز ‘ پروسیجرز اور اس کے عملی نفاذ کیلئے ضروری ہے کہ ایف آئی آر کو حاصل عدالتی حرمت اور تقدس پر ایک دفعہ پھر سے غور کیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قتل ‘آبروریزی اور دہشت گردی کے جرائم میں اکثر چشم دید شہادتیں میسر نہیں ہوتیں۔عہد حاضر میں جرائم کے ارتکاب میں بھی جدید اور نت نئے طریقے استعمال ہونے لگے ہیں ‘جن کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے؛چنانچہ متعلقہ قانون کے عدالتی نفاذ میں بھی ایک بنیادی اور عملی تبدیلی لانا ضروری ہو گیا ہے۔اس سلسلے میں پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں ایف آئی آر کو حاصل حرمت اور اہمیت پر نظر ثانی کی جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں