"FBC" (space) message & send to 7575

ففتھ جنریشن جنگ

گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے بی بی سی کے معروف پروگرام ہارڈ ٹاک کو انٹرویو دیا تو اس پر ہونے والے تبصرے قومی اور بین الاقوامی میڈیا اورخصوصاً سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔قارئین کی یادداشت کے لئے یہ بتانا مناسب ہوگا کہ یہ وہی ٹاک شو ہے‘ جس میں چند مہینے پہلے حمید ہارون صاحب بھی آئے تھے اور بڑے بھدے انداز میں شریف خاندان کا دفاع کرتے رہے۔1999ء میں اسی شو میں حسن نواز بھی آئے تھے اور اپنے خاندان کی ناجائز دولت او ر بیرون ملک آف شور کمپنیوں کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔حسب ِتوقع اسد عمر نے نہایت پر اعتماد طریقے سے تمام سوالات کے جواب دیئے ‘جو عموماً ہمارے ڈرپوک سیاست دانوں کا خاصا نہیں رہا‘تاہم اسد عمر کے اصل انٹرویو کی بجائے اس کا وہ حصہ میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بن گیا جسے ایڈیٹ کر دیا گیا تھا‘خصوصاً جب شو کے میزبان Stephen Sackurنے بلوچستان میں بیرونی مداخلت اور دہشت گردی کے بارے میں سوال پوچھا‘ مزید یہ کہ اس کے پس پردہ کون ہو سکتا ہے تو اسد عمر نے جواب دیا کہ ہاں بیرونی مداخلت تو ہو رہی ہے اور اس کے پس پردہ بلا شبہ بھارت ہے۔ پاکستان نے بلوچستان سے ایک بھارتی مداخلت کار کوگرفتار بھی کیا ہے‘ اس کا نام کل بھوشن یا دیو ہے اور وہ اس وقت پاکستان کی قید میں ہے‘پھر انہوں نے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کی دیگر تفصیلات بیان کیں‘تاہم جب یہ انٹرویوبی بی سی پر نشرہوا تو اس میں سے کلبھوشن یا دیو ‘بلوچستان میں اس کی تخریبی سرگرمیوں اور اس کے اعترافِ جرم کو ایڈیٹ کر دیا گیا۔لگتا ہے کہ پروگرام کا میزبان اور اس کی پوری ٹیم ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت کام کررہی تھی‘ جس نے پاکستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کو سنسر شپ کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔
جب پاکستان نے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بدنیتی پر مبنی اس سنسر شپ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تو ٹاک شو والے ایک مشکل میں پھنس گئے‘ جب کوئی اور بہانہ یا جواز نہ مل سکا تو اس بدنیتی کا سارا ملبہ بعض تکنیکی مجبوریوں پر ڈال دیا گیا ۔ہارڈ ٹاک ٹیم نے اپنے ٹویئٹ میں کہا کہ چونکہ انٹرویو طویل تھا ‘اس لئے پروگرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر اسے ایڈیٹ کرنا پڑا۔ اس کا اصرار تھا کہ یہ کسی قسم کے سنسرشپ کا نتیجہ نہیں تھااور ایسا تاثر کسی انجانی کنفیوژن کی وجہ سے پیدا ہوا ہوگا۔
کیا کمال ہوشیاری کا مظاہرہ ہے ۔ انٹرویو کی طوالت کم کرنے کیلئے اس میں سے صرف وہی 24سیکنڈ حذف کئے گئے جن میں کلبھوشن کا نام لیا گیا تھا۔بات سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔اس طرح کا بھونڈا جواز شاید پروگرام کے میزبان یا نریندرمودی جیسے لوگوں کے نزدیک ایک بڑا کارنامہ ہو‘ مگر ہمیں یا باقی دنیا کو اس طرح بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو گہری نظریاتی محاذآرائی کے ایجنڈے اور بیانیے(ففتھ جنریشن وار) میں منقسم ہے۔ہم انفارمیشن کے عہد میں زندگی گزار رہے ہیں‘ جس میں (ٹینکوں اور فوجیوں کی مدد سے محفوظ کردہ )جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ غیر مرئی سرحدیںاہم ہوتی ہیں۔یہاں جنگ اور سیاست ‘جنگجوئوں اور سویلین‘گورننس اور حیلہ سازی کے مابین تمیز مشکل ہو گئی ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں صرف بم اور گولی ہی جنگی ہتھیار نہیں رہے۔ اس کے بجائے اقتصادی پابندیوں ‘بین الاقوامی ناکہ بندی اور معاشی لٹیروں جیسے جدید ہتھیاروں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے ایک بھی گولی چلائے بغیرسرد جنگ جیت لی تھی۔یہ سچ ہے‘مگر کیا گولیاں ہی وہ واحد ہتھیار تھیں‘ جو امریکہ نے سرد جنگ میں استعمال کی تھیں؟کیا درحقیقت سوویت یونین امریکہ نواز قوتوں کی مدد کے بغیر محض اپنے بوجھ تلے دب کر ہی تباہ ہو گیا تھا؟ بلاشبہ نہیں۔امریکہ نے سوویت یونین کو توڑنے کے لئے اقتصادی پابندیوں سے لے کر یوکرائن کے انقلابیوں کو اکسانے تک ہر حربہ استعمال کیا تھا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب کوئی ملک اس طرح کی ''سافٹ وار‘میں ملوث نہیں ہے؟تو کیا ففتھ جنریشن وار کی بات محض عسکری قوتوں کی جانب سے لگایا جانے والا ایک نعرہ ہے‘ تاکہ عوام کو سویلین حکومتوں کے حوالے سے شکوک و شبہات میں ملوث کیا جائے؟ یا کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان اور دنیا بھرکے عوام جنگ کی اس نئی قسم میں ملوث ہو گئے ہیں؟ یہ سوچنا محض سادہ لوحی ہوگی کہ سوویت یونین ‘ارجنٹائن اور مشرق وسطیٰ میں ففتھ جنریشن وار کا مزہ چکھنے کے بعد دنیا نے معیشت اور بیانئے کی اس جنگ کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘لہٰذاہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ (جانے یا انجانے میں )پاکستان میں جاری اس جنگ کے کھلاڑی کون ہیں؟اس سوال کا جواب دینا مشکل ہوگا ‘کیونکہ اس جنگ میں آپ کا دشمن وردی اور ہتھیار کے بغیر لڑتا ہے۔دوسرے الفاظ میںپاکستا ن کو زیادہ نقصان کس نے پہنچایا ہے ؟بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں نے یا ان عالمی قرضوں نے‘ جنہیں ہم ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے؟پاکستان لانگ رینج میزائل سے مضبوط ہوگا یا مٹھی بھر لوگوں کے بیرون ملک اکائونٹس میں جمع لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے سے؟پاکستان کا زیادہ نقصان آصف زرداری کی گورننس سے ہوا یا کارگل آپریشن سے؟ پاکستان کو زیادہ نقصان دشمن کی مسلط کرد ہ کسی جنگ یا مہم جوئی سے ہوا ہے یا ان چند مخصوص لیڈروں کی وجہ سے ‘ جن کی پالیسیوںکے نتیجے میں ہمیں آبی وسائل کی قلت ‘گرتی ہوئی کرنسی‘بے حساب قرضوں‘دیوالیہ پن کے شکار سرکاری اداروں‘آبادی میں بے تحاشا اضافے اور غذائی قلت کی شکار نئی نسل جیسے بحرانوں کی وجہ سے ہواہے؟ہم یہ الزام نہیںلگا رہے کہ ہمارے یہ لیڈر دشمن کے اشاروں پر کام کر رہے تھے اور انہوں نے ایک بڑے قومی ایجنڈے سے صرف نظر کرکے ساری توجہ ذاتی امارت کے حصول پر ہی مرکوز کئے رکھی؟
کیا نواز شریف ‘مریم نواز اور آصف زرداری جیسے لوگ پاکستان کے خلاف جاری اس ففتھ جنریشن جنگ میں حصہ بننا پسند کرتے ہیں؟ شاید نہیں‘مگر کیا ذاتی عزائم اور دولت کے حصول کیلئے ان کی اندھا دھند کوششوں نے ان کے بارے میں یہ شکوک و شبہات پیدا نہیں کر دیئے کہ وہ اس جنگ کو شروع کرنے والی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟بے شک ۔سرکاری تخمینوں کے مطابق ( جیسا کہ اسحٰق ڈار نے خود دعویٰ کیا تھا ) پاکستان نے گزشتہ دس برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنا مالی نقصان نہیں اٹھایا جتنا اس نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے مالی نقصان برداشت کیا ہے؛اگرچہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو کامیابی سے ہم کنار ہورہے ہیں‘ مگر کیا ہم اپنے خلاف جاری ففتھ جنریشن جنگ ہار نہیں رہے؟
کیا نواز شریف کی کلبھوشن یادیو کے معاملے پر معنی خیز خاموشی سے(اس کی خود ساختہ وجہ کچھ بھی ہو)پاکستان کے خلاف بین الاقوامی بیانئے کو ایک طرح سے خاموش حمایت نہیں ملی؟چلیں ہم ڈان لیکس کے قضیے کو نظر انداز بھی کر دیں تو کیا ممبئی حملوں پر نواز شریف کے مؤقف کو ففتھ جنریشن جنگ کے علاوہ کوئی اور جوازکہاجا سکتا ہے‘(حالانکہ ان کے اپنے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے ان سے بالکل برعکس مؤقف اختیار کیا تھا)۔کیا اس سے پاکستان کے مؤقف کو نقصان اور دشمن کے مؤقف کو تقویت نہیں ملی تھی اور اس سے پاکستان کو ایک 'بدمعاش‘ ریاست قرار دینے کے بین الاقوامی بیانئے کی توثیق نہیں ہوئی؟نریندر مودی یا اشرف غنی کی کسی ممکنہ تقریر سے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچ سکتا تھا ‘کیانواز شریف کے اس مؤقف سے پاکستان کے بیانئے کو کہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا؟حقیقت جو بھی ہے ہمیں اسے قبول کرنا چاہئے۔کچھ اور نہیں تو کم از کم اس سے نبرد آزما تو ہو سکیں۔ہارڈ ٹاک میں اسد عمر کے انٹرویو کو سنسر کرکے ہمیںیہ بھرپور اور تازہ ترین احساس دلایا گیا ہے کہ ہم آج کل انفارمیشن یا بیانئے کی جنگ کے عہد میں جی رہے ہیں۔اور ہمیں آنے والے کئی برسوں تک اس چیلنج کا سامنا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں