"FBC" (space) message & send to 7575

ہم نے چہرے پہچان لئے ہیں!

سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو پیش کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ شاید کسی سیاستدان کی منی لانڈرنگ کی ایک ایسی لا زوال داستان ہے جس کی عصر حاضر سے مثال دینا ممکن نہیں۔ کسی ناول کی تیز رفتار کہانی کی طرح جے آئی ٹی رپورٹ آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کے دولت کے انبار لگانے کی سر چکرا دینے والی داستان بیان کرتی ہے جس میں پاکستان اور بیرون ملک منی لانڈرنگ کے لئے جعلی بینک اکائونٹس اور کمپنیوں کا کمال ہوشیاری سے استعمال کیا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ نواز شریف حکومت کے دور میں ایف آئی اے کراچی کے اینٹی کرپشن سرکل نے سورس رپورٹ کی بنیاد پر 06.10.2015 کو انکوائری نمبر 70/2015 کا آغاز کیا تھا‘ جس کے مطابق مبینہ طور پر سمٹ بینک کی دو برانچوں کے چار جعلی اکائونٹس میں ایسی انٹر بینک اور انٹرا بینک ٹرانزیکشنز کی گئیں جو بظاہر اکائونٹس ہولڈرز کی ظاہری حالت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ 
07.12.17 کو ایف آئی اے کو 29 مشتبہ اکائونٹس پر مشتمل ایک STR رپورٹ موصول ہوئی جو سمٹ بینک کے سولہ، سندھ بینک کے آٹھ اور یو بی ایل کے پانچ اکائونٹس سے متعلق تھی۔ مبینہ طور پر ان بینک اکائونٹس کے ذریعے پینتیس ارب روپے کا لین دین ہوا‘ جسے منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا گیا۔ 26.01.18 کو ایف آئی اے نے ایک اور انکوائری شروع کی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ ان اکائونٹس کے ذریعے اومنی گروپ، زرداری گروپ، پارتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ، عارف حبیب اور بہت سے ان کنٹریکٹرز اور بلڈرز نے ٹرانزیکشنز کی تھیں جنہوں نے سندھ کے کئی پروجیکٹس پر کام کیا تھا۔
اسی تحقیقات کے دوران 29.06.2018 کو انسانی حقوق کی ایک درخواست کے ذریعے یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے علم میں آیا؛ چنانچہ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی ایک جامع اور حتمی تحقیقات کے لئے اپنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی تاکہ ان جعلی اکائونٹس کی حقیقت، اس میں ملوث افراد کے نام اور اس سے متعلقہ تمام مواد اور شہادتیں جمع ہو جائیں‘ جن سے یقین ہو جائے کہ جرم کا ارتکاب ہوا ہے اور پھر متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
اپنے وسیع تر TOR کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جے آئی ٹی نے 885 افرادکو سمن کیا اور 924 افراد اور کمپنیوں کے 11500 بینک اکائونٹس کے ہمراہ 767 افراد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ جے آئی ٹی کی تفتیش سے یہ پتہ چلا کہ پہلا جعلی اکائونٹ جنوری 2010ء میں کھولا گیا تھا اور اگلے چند برسوں میں اومنی گروپ نے گیارہ جعلی کمپنیوں کے اکائونٹس کھولے جن کا کوئی کاروبار تھا نہ کوئی اثاثے تھے‘ مگر ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ ان میں سے تین کمپنیاں اومنی گروپ کے ملازمین کے نام پر کھولی گئیں‘ جن میں آفس بوائے، ہائوس وائف اور کمپیوٹر ٹیکنیشین، فالودے والا اور رکشے والا شامل تھے۔ ایک سینیٹری ورکر تھا جو 2014ء میں انتقال کر چکا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے جعلی اکائونٹس اومنی گروپ کا چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود (مفرور) اور اکائونٹنٹ عارف خان چلا رہے تھے‘ جن میں 42.30 ارب روپے کا لین دین ہوا تھا۔ اہم بات یہ کہ دو برانچ منیجرز کی شہادت کے مطابق یہ اکائونٹس کسی تصدیق کے بغیر سمٹ بینک کے صدر کی ہدایات پر (بحوالہ حسین لوائی) کھولے گئے تھے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ان اکائونٹس کی رقوم کو نواب شاہ میں ''Z House‘‘ کی تعمیر کے لئے استعمال کیا گیا۔ کھوسکی شوگر مل کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ اومنی گروپ کے اکائونٹس سے اربوں روپے کی ادائیگیاں فریال تالپور اور ''بڑے صاحب‘‘ کو کی گئیں جن کو آگے مزید ذیلی کھاتوں ZH,BH یعنی زرداری ہائوس، بلاول ہائوس اور ابو بکر فارمز میں تقسیم کیا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس کمال ہوشیاری سے آصف زرداری اور اومنی گروپ نے ان اکائونٹس کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کیا۔ اس رپورٹ میں Modus Operendi کے عنوان سے Three Classical Stages of Money Laundering بیان کی گئی ہیں کہ کس طرح اصل اکائونٹس میں جمع ہونے سے پہلے ان جعلی اکائونٹس میں چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کرائی گئیں‘ پھر نکالی گئیں اور پھر ایک اکائونٹ میں اکٹھی کر دی گئیں۔ اسے مالیاتی زبان میں layering کہتے ہیں‘ جس کے لئے 13,809 جعلی اکائونٹس میں 14.92 ارب روپے کا ہیر پھیر کیا گیا۔ آخری مرحلے پر اس کالے دھن کو رئیل اسٹیٹ اور فرضی جوائنٹ وینچرز سے ملنے والے بظاہر جائز منافع (مگر وہ بھی جعلی) میں شامل کر دیا گیا تاکہ اسے سفید دھن کے طور پر دکھایا جا سکے۔
تاہم جے آئی ٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس تہہ در تہہ جعلی اکائونٹس کے جال کو ڈی کوڈ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تاکہ اس کی شروع سے آخر تک منی ٹریل ثابت کی جا سکے۔ 
اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بے شک یہ سارا گورکھ دھندہ آصف زرداری اور اومنی گروپ کے گرد پھیلا ہوا ہے‘ مگر انور مجید فیملی کے افراد اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ وہ ملکی قانون سے بالا تر نہیں ہیں۔ تحقیقات کے دوران مسز نازلی مجید نے جے آئی ٹی کے ایک ممبر کو دھمکی دی ''ٹھیک ہے میں نے تمہارے چہرے دیکھ لئے ہیں‘‘ (ذہن میں محفوظ کر لئے ہیں)
کوئی اور معاشرہ یا اور زمانہ ہوتا تو سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر جے آئی ٹی رپورٹ کے انکشافات سن کر شرمندہ ہو جاتے سوائے پیپلز پارٹی کے‘ سوائے آصف علی زرداری کے اور یقینا سوائے ان کے کاسہ لیسوں کے۔ پچھلے کئی روز سے پی پی کے بیسیوں رہنما جمہوریت کی آڑ میں آصف زرداری کی ذاتی دولت (اور کرپشن) کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ قمر زمان کائرہ جیسے نسبتاً دیانت دار سمجھے جانے والے لیڈر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر آصف علی زرداری کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ اسے ایک سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اسے ایک جانب دارانہ رپورٹ کہتے ہیں‘ جس میں آصف زرداری کا موقف شامل نہیں ہے‘ حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ آصف زرداری کا دستخط شدہ بیان اس رپورٹ کا حصہ ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ اسے سیاسی انتقام کا بیانیہ بنا کر آصف زرداری کو پاکستان کا نیلسن مینڈیلا بنا کر پیش کیا جائے۔
مگر جیسے ہی کیمرے ہٹتے ہیں اور روشنیاں بجھتی ہیں تو وہ آصف زرداری پر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں‘ اور یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی کی آصف زرداری سے جان چھوٹ جائے اور ماضی کی پیپلز پارٹی پھر سے زندہ ہو جائے۔
غالب امکان ہے کہ شروع ہونے والا سال آصف زرداری اور سندھ میں ان کی سیاست کے لئے فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ جیسے جیسے پاکستان کے ریاستی ادارے ایک طویل خواب غفلت سے بیدار ہوں گے ہمیں انتظار رہے گا کہ سندھ میں چائنا کٹنگ، زمینوں پر قبضے، ٹارگٹ کلنگ اور عزیر بلوچ پر بننے والی جے آئی ٹی سے منسلک معاملات کے فیصلے بھی ہوں گے۔
وہ دن گزر گئے جب آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو یہ کہہ کر ڈرا لیتے تھے کہ ''میں نے تمہارے چہرے دیکھ لئے ہیں۔‘‘ آصف زرداری، نواز شریف اور ان کے طبلہ نوازوں کے لئے مناسب ہو گا کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ وقت آ گیا ہے کہ وہ قطری خط اور انور مجید کی بزنس ایمپائر کے فریب سے باہر نکل کر اپنے اعمال کے نتائج کا سامنا کریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ جان لیں کہ ہم نے ان کے چہرے پہچان لئے ہیں اور ہم انہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں