"FBC" (space) message & send to 7575

بارز کے الیکشن اور اصلاحات

ہر سال جنوری فروری کے مہینوں میں پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اپنے عہدے داران کے انتخاب کے لئے الیکشن منعقد کراتی ہیں۔ اس عرصے میں عدالتی در و دیوار اور چیمبرز کو متعلقہ بارز کے امیدواروں کی جہازی سائز تصاویر اور پوسٹرز سے سجایا جاتا ہے۔ ہر عدالت کے احاطے، راستے اور بار روم میں وکلاء کی ٹولیاں بڑے ادب و احترام سے اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کی درخواست کرتی نظر آتی ہیں۔ امیدوار پاکٹ کارڈز اور کوٹ بیجز تقسیم کرتے، بار ریفارمز کے بھولے ہوئے وعدے اور بار لیڈرشپ کے نئے مقاصد دہراتے نظر آتے ہیں۔ پھر بھرپور حمایت کے لئے پارٹیاں چلتی ہیں جہاں پُر جوش تقاریر کا سلسلہ چلتا ہے جن میں وکلاء تحریک کے دوران دی گئی لا زوال قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ کئی ایک امیدواروں کی حمایت یا مخالفت میں پیغامات وصول کئے جاتے ہیں۔ پھر منتخب نمائندے حقیقی پاور بروکر بن کر مبینہ طور پر اپنی سیاسی کامیابی کے ثمرات سمیٹتے ہیں‘ مگر سالہا سال سے جاری الیکشن کا یہ جنون بار کلچر میں حقیقی ریفارمز لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ وکلاء کی تعلیم کے سلسلے میں کوئی واضح اقدام نہیں کیا جا سکا، وکلاء کی رجسٹریشن کے لئے سٹینڈرڈز تشکیل دینے میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ نوجوان وکلاء کے لئے کسی قسم کی کیریئر کونسلنگ کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ عدلیہ کے وقار میں اضافے کے لئے کوئی پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ ہرتالوں کے کلچر پر نظر ثانی نہیں ہو سکی۔
اب جب کہ بار الیکشن کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے‘ چلیں وکلاء کے ادارے میں اصلاحات لانے کی غرض سے بار کلچر اور پریکٹس کا ایک ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے نظام عدل میں اصلاحات لانے کے لئے بارز میں اصلاحات لانا ناگزیر ہے۔ ایک وکیل کی حیثیت سے میں بڑی عاجزی اور حوصلے سے یہ بات قبول کرتا ہوں کہ وکلاء نے بطور افراد اور بارز نے بطور ادارہ پاکستان کے نظام انصاف کے زوال میں کردار ادا کیا۔ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وکلاء یہ طے کرتے ہیں کہ کون سے مقدمات ہماری عدالتوں میں پیش ہوں گے، ان میں کس طرح کی بحث ہو گی اور وہ کس رفتار اور انداز سے نمٹائے جائیں گے۔ ہم اپنے مؤکلین کو مشورہ دیتے ہیں کہ کون سا مقدمہ فائدہ مند ہو گا اور کون سا بے سود۔ قانون اور پروسیجر کے ضمن میں ہم عدالت کی معاونت کرتے ہیں، سائلین اور معاشرے کے درمیان ہم ہی اپنے نظامِ عدل کا چہرہ اور آئینہ ہیں لہٰذا خیرات کی طرح اصلاحات کا آغاز بھی اپنے گھر سے ہونا چاہئے۔
سب سے پہلے پوری دیانت داری سے یہ اعتراف کریں کہ یہ ہماری وکلاء برادری کا طرز عمل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے جو ہمارے ملک میں عدل کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
کتنی ہی مرتبہ مقدمات محض اس بنا پر ملتوی ہو جاتے ہیں کہ ایک فریق کا وکیل عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہے۔ اور اگر پیش ہو بھی جائے تو ہر روز ہر عدالت میں کتنی مرتبہ ہمیں اس طرح کے آرڈر سے واسطہ پڑتا ہے کہ ''وکیل کو جواب پیش کرنے کے لئے اضافی وقت درکار ہے۔‘‘ فلاں تاریخ تک مقدمہ ملتوی کیا جاتا ہے۔ تو کیا ہم بار روم میں بیٹھ کر چائے کی چسکی لگاتے ہوئے قانون سازوں یا ججوں پر الزام تراشی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اتنے زیادہ زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے اقدامات کیوں نہیںکئے ہیں۔
صدقے خیرات کی طرح اصلاح کا آغاز بھی گھر سے ہی ہونا چاہئے۔ پروفیشنل ازم اور مقدمے کی تیاری کے معیار پر کیا کہا جائے؟ کیا ہمارے بعض ساتھی روزانہ پروفیشنل ازم کے اصول پامال نہیں کرتے‘ جو ہمیں اس طرح کے احکامات میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے ''وکیل صاحب کو مقدمے کی تیاری کے لئے مزید وقت درکار ہے‘‘ کیا عدالتی معاون کی حیثیت سے یہ اپنی ذمہ داریوں کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا اس طرح ہم اپنے مؤکل کے اعتماد کو مجروح کرنے کے مرتکب نہیں ہوتے؟ کیا یہ قانون کی روح اور عدل کے ان اعلیٰ آدرشوں سے زیادتی نہیں‘ جن کے تحفط اور دفاع کا ہر وکیل نے غیر علانیہ حلف اٹھا رکھا ہے؟ 
اب ہم ہڑتالی کلچر کی بات کرتے ہیں۔ وکلاء تحریک سے لا تعداد فوائد حاصل کرنے کے علاوہ ہمیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے عدالتوں میں ہنگامہ آرائی یا بائیکاٹ کا تکلیف دہ ورثہ بھی ملا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہماری کمیونٹی کے لوگوں نے پولیس اہلکاروں اور میڈیا کے ارکان کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ ججوں کی عدالتوں پر حملے ہوئے۔ ہم نے سیشن جج لاہور کو اپنے دفتر میں کام کرنے سے روک دیا تھا اور انہیں جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ عدالت عظمیٰ کے احاطے میں ہنگامہ آرائی کی گئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے دفتر پر سنگ باری کی گئی اور ان کی عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا گیا (حتیٰ کہ توہین عدالت کے کئی نوٹس ایشو ہونے کے باوجود پیش نہیں ہوئے) ہم نے دہشت گردی کے واقعات اور میڈیا سکینڈلز کے ردِ عمل میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ جب ایک ٹریفک وارڈن نے بعض وکلاء کے ساتھ بد سلوکی کی تو ہم نے ہڑتال کر دی۔ جب ایک کرپٹ بزنس ٹائیکون نے ایک شاہ خرچ بیٹے پر کرپشن کے الزامات عائد کئے تو ہم نے عدالتوں کے دروازے بند کر دیئے تھے۔
صدقے خیرات کی طرح اصلاح بھی گھر سے شروع ہوتی ہے۔ جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اسے دوبارہ بوتل میں کیسے بند کیا جائے۔ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر جتنی بھی بحث ہوتی ہے‘سب سے پہلے وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں پیشہ ورانہ ذمہ داری اور اخلاقیات کے دائرہ کار سے باہر نکل کر کام کر رہے ہیں۔ آئندہ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو اسی مرکزی ایشو پر فوکس کرنا چاہئے کیونکہ جب تک ہم ان عدالتی عہدے داروں میں آئین پسندی کا جذبہ بیدار کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے‘ ہمیں کسی قسم کی آئینی پاسداری کے اپنی قومی اقدار بننے کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہم جو سیاہ کوٹ زیب تن کرتے ہیں‘ یہ وہی یونیفارم ہے جو کبھی قائد اعظم محمد علی جناحؒ پہنا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم پروفیشنل ازم کی بے داغ اور تابندہ روایات کے وارث اور امین ہیں۔ ہم ان عظیم شخصیات کے زیر سایہ زندگی گزارتے ہیں‘ جنہوں نے قانون اور آئین وضع کر کے ہمارے ناتواں کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ یہ ایک ایسا پروفیشن اور نظریہ ہے جو ایک دن اس ملک کے تاریک گوشوں کو قانون کی روشنی سے منور کر دے گا۔ ہم ان لوگوں کی آواز بنیں گے جو بولنے سے قاصر ہیں۔ ان لوگوں کی طاقت بنیں گے جو کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ہم کمزوروں کی سر پرستی کریں گے، اور اس سرزمین سے مایوس لوگوںکے لئے امید کی روشنی بنیں گے۔
ہم اس فکر اور آئیڈیلز کے علم بردار ہیں کہ مجبور اور مغلوب عوام ایک مرتبہ پھر اس زمین کے وارث بنیں گے۔
آنے والے بار الیکشن میں ہم سب کا یہی نعرہ ہونا چاہئے۔ ہم وکلاء کو ان امیدواروں کو ووٹ دینا چاہئے جو ہماری بارز کے سابقہ کلچر کے محافظ بننے کے بجائے ان آدرشوں کے امین ثابت ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں