"FBC" (space) message & send to 7575

درندگی کا کلچر

سانحہ ساہیوال کے حقائق، زندہ بچ جانے والے پریشان حال بچوں کے ویڈیوز اور سی ٹی ڈی کے ہر لمحہ بدلتے ہوئے بیانات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ان کی تفصیلات دہرانا مناسب نہیں لگتا۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو عام شہری کی جان و مال کے تحفظ اور سلامتی کے ذمے دار ہیں (قانون نافذ کرنے والے ادارے) عوام ان سے خوف محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
کیا یہ کارروائی داعش کے دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے لیے کی گئی تھی؟ شاید جزوی طور پر ایسا ہی ہو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے ایک ایسے دہشت گرد نیٹ ورک کو ناکارہ بنا دیا گیا ہو جو کوئی بڑی پُر تشدد کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا؟ ممکن ہے۔ مگر کیا اس آپریشن کے بعد پاکستانی شہری خود کو زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں؟ بالکل نہیں۔ کیا اس نے ہماری زندگی سے خوف کا عنصر کم کر دیا ہے؟ یقینا نہیں۔ کیا اس کارروائی سے اس خیال کو تقویت نہیں ملی کہ پاکستانی شہریوں کو دو طرح کے تشدد سے تحفظ کی ضرورت ہے؟ اول عسکریت پسندوں سے‘ دوم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔
اگر تو یہ ریاستی آشیرباد سے رونما ہونے والا تشدد کا پہلا یا واحد واقعہ ہوتا‘ تو سی ٹی ڈی کو ایک حد تک رعایت دی جا سکتی تھی؛ تاہم رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل، پی ایم ایل (این) کے عہد حکومت میں ماڈل ٹائون میں ہونے والا قتل عام اور بے شمار جھوٹے پولیس مقابلے پاکستان میں درندگی کی کئی کہانیاں سناتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں (جنوری 2014ء سے مئی 2018ء تک) پولیس مقابلوں میں 3345 افراد مارے گئے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے مزید بتایا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے تک محدود نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کی گلو بٹ فیم پولیس تمام تر وحشت کے باوجود پیچھے ہے‘ ان چار برسوں میں پولیس مقابلوں میں عوام کے قتل عام میں سندھ پولیس سر فہرست ہے۔ پولیس کی اس درندگی کی وجوہات کیا ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ معصوم شہری پولیس فورس کو دہشت پھیلانے والا ادارہ سمجھتے ہیں جبکہ اس کا کام تو ہماری زندگی اور آزادی کے آئینی حقوق کا تحفظ ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ تمام صوبوں کی پولیس فورس (سوائے کے پی کے پولیس کے) اسی پرانے قانون کے تحت کام کر رہی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں آج بھی 1861ء کا پولیس ایکٹ نافذالعمل ہے؟ (جسے ہمارے نوآبادیاتی آقائوں نے مقامی عوام کو مغلوب رکھنے کے لیے متعارف کرایا تھا) ایسا کیوں ہے کہ پندرہ برس گزر جانے کے باوجود صوبہ پنجاب میں پولیس آرڈر 2002ء کو ابھی تک اس کی روح کے مطابق نافذ نہیں کیا جا سکا؟ ایسا کیوں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود پولیس آرڈر 2002ء کی رو سے شہری نگرانی کا میکانزم (پبلک سیفٹی کمیشن اور پولیس کمپلینٹ اتھارٹی) ابھی تک تشکیل نہیں دیا جا سکا؟ ایسا کیوں ہے کہ پرویز مشرف سے لے کر پی پی، مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت تک سب حکومتوں نے مسلسل ان قانونی اقدامات کو نافذ کرنے سے انکار کیا جس سے پولیس ایک ایسا آزاد ادارہ بن جاتی‘ جو اپنے سیاسی آقائوں کے بجائے عوام کی ذمہ داری سنبھالتا؟
اس بات سے قطع نظر کہ کوئی پاکستان کے امن اور انصاف کے نظام کو کیسے دیکھتا ہے‘ امن و امان کے تناظر سے انسداد دہشت گردی کے تناظر تک یا فوجداری انصاف کے نظام کے تناظر میں سویلین قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں خصوصاً پولیس کا کردار ہماری گفتگو کا محور ہو گا۔ چھوٹے چھوٹے گھریلو تنازعات سے لے کر مقامی جھگڑوں تک، عالمی شہرت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاری سے لے کر قومی سطح پر رونما ہونے والے المناک واقعات کی روک تھام تک پولیس اور معاشرے کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی برس سے امن و امان اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے بیک آواز ہو کر یہ کہا ہے کہ پاکستان میں پولیس کا موجودہ ڈھانچہ افسوسناک حد تک پس ماندہ اور غیر تربیت یافتہ ہے‘ جو عہدِ حاضر کے دہشت گردی کے خطرے سے لڑنے سے قاصر ہے۔ آزادی کے وقت ریاست پاکستان کو ملنے والی نوآبادیاتی دور کی پولیس کا ڈھانچہ ایسا تشکیل دیا گیا تھا کہ وہ صرف مقامی افراد کے اجتماعات کو کنٹرول کر سکے یا چوری، ڈاکہ زنی اور ذاتی تنازعات جیسے جرائم کی تفتیش کر سکے یا ملزمان کو گرفتار کر سکے۔ در حقیقت ہماری پولیس فورس نوآبادیاتی عہد میں ہجوم کنٹرول کرنے کے طریقہ کار پر اس قدر سختی سے کار فرما ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے جدید طریقوں پر توجہ دینے کے حوالے سے ادارہ جاتی جمود کی شکار نظر آتی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ساہیوال آپریشن کی منصوبہ بندی کس نے کی اور اس پر کب، کیسے اور کس نے عمل درآمد کیا، اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھے‘ اس کا کوئی جواز نہیں ہے؟ کوئی نہیں۔ پنجاب پولیس یا اس کی سی ٹی ڈی نے فائر پہلے کیے اور سوالات بعد میں پو چھے۔ حتیٰ کہ اگر سی ٹی ڈی کی مشتبہ ملزم کے دہشت گرد ہونے کی سٹوری کو مان بھی لیا جائے تو کیا کسی ایسے مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کرنے کے کوئی ایس او پیز نہیں تھے‘ جو ایک ہزار سی سی کی گاڑی پر قومی شاہراہ پر سفر کر رہا تھا۔ کیا یہ سب کچھ مقامی جوان کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ فائرنگ کب شروع کرنی ہے۔ اسلحہ استعمال کرنے کا اختیار کون دیتا ہے، اور کس طرح کے حالات میں اس اسلحے کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے؟ اس سے پہلے چھوٹے پیمانے کے اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ طاقت کے متناسب استعمال کا کیا ہوا؟ کیا یہ قانون کے نفاذ کا ایک عالمی مسلمہ اصول نہیں ہے کہ ریاست کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے طاقت کا کم سے کم استعمال کرتی ہے۔ کیا ساہیوال میں طاقت کا استعمال موقع پر درپیش خطرے سے کوئی مناسبت رکھتا تھا۔
سچ یہ ہے کہ پولیس کے پاس منہ چھپانے کے لیے کوئی بہانہ موجود نہیں ہے‘ حتیٰ کہ ایک غلط انٹیلی جنس کا جواز بھی نہیں ہے۔ یہ کوئی دفاع نہیں ہے کہ گاڑی میں کم از کم ایک دہشت گرد تو موجود تھا۔ اگر یہی دہشت گرد کسی ایسی عمارت میں چھپا ہوتا جس میں ہزاروں لوگ آباد ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا پولیس اپنے ہدف کے حصول کی خاطر پوری عمارت کو مسمار کر کے تمام مکینوںکو مار ڈالتی؟
سانحہ ساہیوال اور پولیس کی درندگی کے ایسے کئی دوسرے واقعات ہماری پولیس اور اس کے کلچر کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ایک ایسا کلچر‘ جو اکثر پولیس کے اقدامات کے نتائج سے قطعی لا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ پولیس کلچر کے اس بحران کا خاتمہ بیرونی مداخلت یا قانونی اقدامات کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ داخلی کلچر کے خاتمے کی ذمہ داری سب سے پہلے پولیس اور خاص طور پر محکمہ پولیس کے سینئر افسروں پر عائد ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں سویلین پولیس فورس کی طاقت اور قانونی حیثیت کے سوتے اس کی اخلاقی اتھارٹی سے پھوٹتے ہیں۔ عوام پولیس کے ڈائریکٹیوز پر عمل اپنی جان کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتے‘ بلکہ وہ کسی ٹریفک وارڈن یا کانسٹیبل کی بات کو قانون کے احترام کی وجہ سے سنتے ہیں یا ان کی یونیفارم کا احترام اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے وقار کی علامت ہے۔
بد قسمتی سے ریاست پاکستان میں محکمہ پولیس اپنی اخلاقی اتھارٹی سے مکمل طور پر محروم ہو چکا ہے۔ آج پاکستانی عوام عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کے ساتھ بھی حالت جنگ میں ہیں‘ کیونکہ اس کا طرز عمل بھی ویسا ہی ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف نا قابل برداشت بلکہ اتنا ہی ملامت آمیز بھی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ محکمہ پولیس کے با ضمیر اور فرض شناس افراد اپنے پروفیشن کے وعدے کو عملی جامہ پہنائیں اور اجتماعی سلامتی کے ہمدرد محافظ کے طور پر اپنی قوت کا درست ادراک کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں