"FBC" (space) message & send to 7575

کامیابیوں پر اتنی خاموشی !

گزشتہ چند ماہ سے داخلی اور علاقائی سیاست کے حوالے سے پاکستان ایک آزمائشی دور سے گزر رہا ہے۔ چھ ماہ قبل جب پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدا آئی تھی تو اس وقت پاکستان کو سنگین داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہماری معیشت زبوں حالی کی شکار ہے۔ ہمارے پاس بیرونی قرضے ادا کرنے کی سکت بھی نہیں تھی۔ آئی ایم ایف کا ایک اور پیکیج ہمارے سروں پر سوار تھا‘ جس کے بعد ہمارے داخلی معاشی انفراسٹرکچر میں مزید بد حالی کے امکانات پیدا ہو جاتے۔ ہم ادارہ جاتی بحران میں گھرے ہوئے تھے اور سیاسی جماعتیں باہمی چپقلش کا شکار تھیں۔
پانامہ کیس کے بعد پی ایم ایل این نے عدالت عظمیٰ، فوج اور دیگر ریاستی اداروں مثلاً نیب کے خلاف ایک کھلی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ پی پی پی بھی اپنے بیانات اور نعرے بازی میں پیچھے نہ رہی‘ خصوصاً جب جے آئی ٹی اس کی قیادت کے خلاف جعلی بینک اکائونٹس کی تفتیش کے بعد نا قابل تردید ثبوت عوام کے سامنے لے آئی۔ پارلیمنٹ میں روزانہ ہنگامے اور واک آئوٹ جاری ہیں۔ بہت سوں نے تو دن گننا شروع کر رکھے تھے کہ حکومت اور کتنے دن چلتی ہے۔
عالمی محاذ پر بھارت کا جنگ کا بیانیہ عروج پر تھا۔ ہمارے اپنے سیاست اور میڈیا کے بعض جغادریوں کے بیانات کی مدد سے بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا کیس بنا رکھا تھا۔ سابق حکومت کی سیاسی نا اہلی (یا ساز باز سے) پاکستان عالمی سطح پر بھارتی بیانیے کا سامنا کرنے سے گریز کر رہا تھا۔ اس مسئلے پر سابق حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ چار سال تک ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی مقرر نہ کیا گیا (یہ منصب میاں نواز شریف کے اپنے پاس تھا)۔ اسی عدم دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمے کی سماعت کے موقع پر پاکستان اپنا جج بھی نامزد نہ کر سکا۔ یہیں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کسی عالمی فورم پر کلبھوشن یادیو کا ذکر نہیں کیا‘ اور کئی مرتبہ تو انہوں نے بھارت سے متعلق امور پر ایسے بیانات دیئے جن سے سرحد پار دہشت گردی سے متعلق پاکستان کے موقف کو الٹا نقصان پہنچا اور بھارتی موقف کو تقویت ملی۔ 
ہماری جانب سے بہتر سفارت کاری کے فقدان کی وجہ سے امریکہ بھارتی موقف کی ہم نوائی کرنے لگا‘ اور صدر ٹرمپ پاکستان کو امریکہ کا حریف قرار دینے لگے۔ اس وقت یمن کے مسئلے پر سعودی حکومت بھی پاکستان سے نالاں تھی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی نریندر مودی کی زبان بول رہے تھے اور ساتھ ہی ایک پشتون تحریک کی حمایت کر رہے تھے۔
ان حقائق کے تناظر میں دیکھتے ہوئے پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور سوشل میڈیا‘ دونوں عمران خان کی حکومت کو ایک نا کام حکومت قرار دینے پر تلے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ عمران خان صاحب داخلی اور خارجہ محاذوں پر بری طرح پٹ چکے ہیں۔
ان نا ممکنات اور مشکلات کے دور میں گھرے عمران خان نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران بازی ہی پلٹ کر رکھ دی۔ سچی بات یہ ہے کہ حالات میں بہتری کا یہ عمل چند ماہ پہلے اس وقت شروع ہوا جب ایک سنجیدہ مزاج وزیر خارجہ نے عسکری قیادت کے تعاون سے وزیر اعظم کے خطے کے بعض دوست ممالک کے دوروں کا بندوبست کیا۔ سعودی عرب اور یو اے ای کے دو دو اور ملائیشیا کے ایک دورے سے ملنے والے معاشی فوائد کی وجہ سے پاکستان کے لئے اپنے اقتصادی معاملات میں بہتری لانے‘ اور آئی ایم ایف کے ساتھ زیادہ تعمیری انداز میں بات کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ مگر پلوامہ حملے اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کر دینے کے بیانیے سے ہماری سفارت کاری کا حقیقی امتحان شروع ہو گیا؛ تاہم بھارت کی طرف سے اس بڑھتے ہوئے دبائو میں عمران خان صاحب کی حکومت نے‘ جسے پس پردہ عسکری ڈپلومیسی کی اعانت بھی حاصل تھی‘ نہ صرف سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کی میزبانی کی‘ بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک (چین) نے جنگی ماحول کو ہوا دینے اور پاکستان کو سفارتی میدان میں تنہا کرنے کی بھارتی کوششوں کو یکسر نا کام بنا دیا۔ اب تو امریکہ بھی کھل کر بھارت کے ساتھ نہیں ہے‘ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں ہماری بہتر کارکردگی اور اس سلسلے میں بھارتی وکیل کی طرف سے میاں نواز شریف کے بیان کو استعمال کرنے کی بات کو کسی اور موقع کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
ان واقعات اور پاکستان کے داخلی اور علاقائی موقف میں بہتری کے نتیجے میں بعض جھوٹے تصورات کو بری طرح شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اول یہ کہ اس دیرینہ پروپیگنڈے کا پول کھل گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دراصل نواز شریف کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ذاتی تعلقات کے مرہون منت ہیں۔ پرنس محمد بن سلمان نے اپنے دورۂ پاکستان میں نواز شریف کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ انہوں نے روایتی طور پر نواز شریف اور اپوزیشن کے بارے میں پوچھا تک نہیں۔ بلکہ لگتا ہے کہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
دوم یہ کہ اگر ہماری حکومت سنجیدگی سے اپنا مقدمہ پیش کرے تو عالمی برادری پاکستان کا موقف اور بیانیہ سننے کے لئے کھلے دل سے تیار ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت چند ہفتوں میں یہ سب کچھ کر سکتی ہے تو پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں اس ضمن میں کیو ں کچھ نہ کر سکیں۔
سوم یہ کہ جب تک ہم اپنی کامیاب سفارتی کوششوں سے اس کا سامنا کرتے رہیں گے (جن کا ماضی میں شدید فقدان نظر آتا تھا) بھارت اپنی تمام تر معاشی قوت اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا نہیں کر سکتا۔
چہارم یہ کہ ہماری داخلی سیاست کے معاملات (نواز شریف کو ملنے والی سزا، شہباز شریف کی رہائی، سندھ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور علیم خان کی گرفتاری) میں جنوبی ایشیا کی گریٹ گیم کے کسی کھلاڑی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
عمران خان کی حالیہ کامیابیوں پر اپوزیشن سیاسی جماعتیں اور ان کے متعلقہ ٹویٹر بریگیڈز اپنا غصہ چھپانے کی مضحکہ خیز کوششیں کر رہے ہیں۔ قومی اہمیت کے حامل امور پر وہ زیادہ تر خاموش ہی رہے ہیں۔ وہ ان معاملات پر اپنے ماضی کے ریکارڈ کا دفاع کر سکتے ہیں نہ ہی ان میں عمران خان کی موجودہ کارکردگی کی تحسین کرنے کا حوصلہ ہے۔ اس پر اتنی خاموشی (جس کا اظہار بھارت کے بارے میں سوال پر مریم نواز کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل دینے سے انکار کی صورت میں بخوبی نظر آتا ہے) عمران خان کی کامیابیوں کا کھلا اعلان اور اعتراف ہے۔ کم از کم اس وقت تو ایسا ہی ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ان نتیجہ خیز واقعات کے دوران ہی ہمیں ٹویٹر پر نفرت پھیلانے والے مخصوص ٹولے کی مضحکہ خیز حرکتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ حسین حقانی جیسے لوگوں نے بھارتی ٹی وی چینلز پر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا جاری رکھا۔ عمران خان اور (اسٹیبلشمنٹ) سے نفرت کی آگ میں وہ اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ وقت کی نزاکت کا ادراک کرنے سے بھی قاصر رہے۔ 
ہمارے بعض صحافیوں (اگر آپ انہیں صحافی کہہ سکیں) کا رویہ تو اور بھی مضحکہ خیز تھا جب انہوں نے اپنا غصہ اتارنے کے لئے ان طنزیہ ویڈیوز کا سہارا لیا جن میں صدر مملکت کو پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ تقریر کرنے کے لئے کہا جا رہا تھا۔ اگر عمران خان اور اس کی حکومت پر تنقید کا یہی معیار رہ گیا ہے تو اسے مایوسی کی انتہا کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ 
ایک طویل عرصے کے بعد لگ رہا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر درست سمت میں پیش قدمی کر رہا ہے۔ ہم خطے میں امن کے فروغ کے پیغامات کی مدد سے اپنی ریاست کے خلاف بھارت اور افغانستان کے بیانیے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور اس لمحے کسی کو بھی اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی کے ایوان میں یا سوشل میڈیا اکائونٹس پر کی جانے والی احمقانہ حرکتوں کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔
یہی ہے نیا پاکستان۔ نفرت کے پیغامبر تو نفرت ہی پھیلا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں