"FBC" (space) message & send to 7575

صحت عامہ کا مسئلہ

گزشتہ سوموار کو نو ماہ کی معصوم بچی نشوہ علی کراچی کے دارالصحت ہسپتال میں ڈاکٹروں کی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ کر زندگی کی بازی ہار گئی۔ وہ اتنی کم عمر تھی کہ اپنی اذیت کا اظہار کرنے سے بھی قاصر تھی مگر اس پر جو گزری وہ ہمارے مردہ قومی ضمیر کو مستقل طور پر جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔
بلاشبہ اس کا شمار ان بچیوں میں ہو گا جنہیں زندہ دفن کر دیا گیا۔ اور یقینا ہمیں بحیثیت قوم اس بات کا جواب دینا ہو گا کہ اسے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا۔
نشوہ پہلی بچی نہیں ہے جو ہمارے تباہ حال ہیلتھ کیئر نظام کے ظلم کا شکار ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی موت کے ذمہ داران اس بوسیدہ نظامِ عدل کی گرفت سے بچ نکلنے والے پہلے لوگ ہوں گے۔ نہ ہی اس کے والدین وہ پہلے ماں باپ ہیں جو آسمانوں کی طرف منہ کر کے اس نظام کے خلاف کسی خدائی عذاب کے لئے فریاد کناں ہیں جسے ان کی بے انتہا اذیت کا کوئی ادراک ہے نہ پروا۔
نشوہ کیس سے متعلق روایتی باتیں کرنا بے سود ہے۔ چند سیاسی لیڈروں کے رسمی بیانات سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا‘ جنہوں نے اس کے خاندان کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ نشوہ کی موت کے ذمہ داران کو حقیقی روح کے مطابق انصاف کے کٹہرے میںکھڑا کیا جائے گا۔ ایسی بنیادی اصلاحات کا تصور بھی بے مقصد ثابت ہو گا جو ہمارے تباہ حال نظامِ صحت سے علاج کی خواہش مند نشوہ جیسی ان گنت بچیوں کی سلامتی کو یقینی بنا سکیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صحت کے نظام کی کوالٹی اور اس تک رسائی کے اعتبار سے پاکستان کا دنیا بھر میں 122واں نمبر ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کئی کم ترقی یافتہ ممالک مثلاً لیتھوانیا (73) لیبیا (96) اور ٹونگو (116) سے بھی پیچھے ہے۔ ملک بھر میں سینکڑوں گھوسٹ ہسپتال ہیں۔ ہمارے بہترین اور روشن دماغ ڈاکٹر بہتر مشاہرے پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ہزاروں مریض ہسپتالوںکی راہداریوں میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ادویات کی کمیابی کا عذاب ان کی زبوں حالی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان صحت عامہ کے پروگرام پر اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.5 فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد صحت عامہ پر خرچ کرتے ہیں۔ نجی شعبہ جو نسبتاً مہنگا ہے (اور پاکستانی عوام کی اکثریت کی دسترس سے باہر ہے) ملک میں صحت کی سہولیات کی فراہمی پر کم از کم تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔
کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہیلتھ بجٹ کا 80 فیصد صرف پندرہ فیصد آبادی کی سپیشلائزڈ کیئر سروسز پر خرچ ہوتا ہے جبکہ 80 فیصد آبادی کی پرائمری ہیلتھ کیئر سروسز پر بجٹ کا صرف پندرہ فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر کا 80 فیصد خرچ اپنی جیب سے ادا کیا جاتا ہے اور 75 فیصد مریض نجی ہسپتالوں سے علاج کراتے ہیں۔ صرف تین انفراسٹرکچر پروجیکٹس کے بجٹ کے مقابلے میں صحت کا کل بجٹ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے کل بجٹ میں سے صحت کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ صرف ایئرلائن سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی سے بھی کم ہے۔
ہمارے صحت عامہ کے نظام کی موجودہ حالت زار محض مناسب فنڈ کی عدم فراہمی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ اس شعبے کو آئینی طور پر نظر انداز کیا جانا ہے۔ اسے ہم اس امر کے ادراک سے شروع کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کی اصلاحات دو مختلف شعبہ جات کی اصلاحات میں تقسیم ہو جاتی ہیں اول: ریگولیشن آف پرائیویٹ ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوشنز۔ دوم: سرکاری ہیلتھ کیئر سسٹم کی ری سٹرکچرنگ۔ پرائیویٹ ہیلتھ کیئر کو ایک طرف پی ایم ڈی سی جیسے وفاقی ادارے ریگولیٹ کرتے ہیں (جو ڈاکٹروں کی ایکسپرٹیز کو سرٹیفائی کرتی ہے) اور دوسری جانب پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن جیسے صوبائی ادارے صوبائی سطح پر ریگولیٹ کرتے ہیں؛ تاہم اس ریگولیشن میں بعض خامیاں رہ جاتی ہیں اور ہیلتھ کیئر کے نجی اداروں کی نگرانی کا کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔
سرکاری ہیلتھ کیئر سیکٹر کے آپریشن اور ریگولیشن کے میکانزم کی جانچ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے متعلقہ آئینی دائرہ کار کا تجزیہ کر لیا جائے۔ اگر آئینی تناظر میں دیکھا جائے تو آرٹیکل70(4) کی روشنی میں جب اسے آرٹیکل 142 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ (آئین کے فورتھ شیڈول) میں شامل آئٹمز کے حوالے سے فیڈرل لیجسلیچر کو مکمل قانونی اتھارٹی ہے؛ چنانچہ صرف فیڈرل گورنمنٹ کو ہی ایسی وزارتیں اور سیکٹرز بنانے کا اختیار ہے‘ جن کا فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں ذکر ہے۔ اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد باقی تمام آئٹمز متعلقہ صوبائی اسمبلی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ آرٹیکل 142(c) کی روشنی میں بجا طور پر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں پبلک ہیلتھ کا کوئی ذکر نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک صوبائی سبجیکٹ ہے۔
اس آئینی دائرہ کار‘ جس کے مطابق پبلک ہیلتھ خالصتاً ایک صوبائی سبجیکٹ ہے‘ کے ڈانڈے پاکستان کے پہلے دساتیر 1956ء‘ 1962ء سے بھی جا ملتے ہیں؛ تاہم ہماری تاریخ میں صحت کی وفاقی وزارت موجود رہی ہے اس وقت بھی منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروس (ریگولیشن اینڈ کوارڈینیشن) قائم ہے اور صوبوں نے بھی اس مسئلے پر صوبائی خود مختاری کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
اس مبہم آئینی دائرہ کار میں کہیں موجود وفاقی ہیلتھ کیئر آپریٹس یعنی مسابقتی صوبائی خود مختاری کی وجہ سے پبلک ہیلتھ کیئر پر ہمارا قومی فوکس ہماری سردمہری کے ہاتھوں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہیلتھ کیئر کے درجنوں معاہدوں اور کنونشنز پر دستخط کرنے کے بعد بھی پاکستان اپنے شہریوں کو مناسب ہیلتھ کیئر فراہم کرنے میں بہت پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک کئی بیماریاں (جیسے پولیو) موجود ہیں جن کا دنیا بھر میں قلع قمع کر دیا گیا ہے۔
ہماری آبادی اور ہمارے ہیلتھ بجٹ میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی۔ ہمارے سرکاری ڈاکٹرز بیرون ملک بہتر مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہماری سرحدوں پر مہنگی سمگلڈ ادویات کی آمد پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
صحت عامہ کے بے پناہ مسائل میں گھری پاکستانی قوم صحت مند اقوام میں اپنا جائز مقام بنانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس قسم کی افسوسناک صورتحال میں ہمیںجان لینا چاہئے کہ ہمارے سرکاری شعبے کے ہیلتھ کیئر میں پایا جانے والا خلا ہمارے نامور صلاحیتوں کے حامل افراد کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے‘ جن کی کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ صحت عامہ کی خدمات میں شریک ہوں مگر انہوں نے سخت محنت اور اخلاقی عزم کے ساتھ یہ معجزاتی کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ صحت عامہ کے معاملات میں ہمارے ریاستی ادارے اس طرح کی بے رخی اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ صحت عامہ کے مسئلے کو ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے اور منشور میں مرکزی اہمیت کیوں حاصل نہیں ہے؟ نشوہ علی جیسے المناک واقعات کو میڈیا میں عارضی کوریج کے بعد فراموش کیوں کر دیا جاتا ہے؟ بیماریوں میں مبتلا شہریوں کی اذیت اور تکالیف کو ہمارے سیاسی اور قومی بیانیے میں مناسب جگہ کیوں نہیں ملتی؟
اس جیسے تمام سوالات کا جواب بہت آسان ہے۔ ایک صحت مند شخص، خاتون یا بچے کو کسی سیاسی مہم میں نعرے یا سیاسی کارنامے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ میٹرو بس کی طرح سڑکوں پر ان کے بڑے بڑے اشتہارات نہیں لگائے جا سکتے۔ صحت عامہ کے نمائشی اظہار کے سلسلے میں ارباب اقتدار کے لئے کوئی افتتاحی تقریب منعقد نہیں کی جا سکتی۔ اسے غیر ملکی مہمانوں کے سامنے ترقی کے اشتہار کے طور پر نہیں پیش کیا جا سکتا۔ یہ ہماری نظر آنے والی ترقی کے روایتی تقاضے بھی پورے نہیں کرتی؛ چنانچہ فطری طور پر یہ ہماری روایتی سیاست میں اولین ترجیح کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ پاکستان بھر میں صحت عامہ کا مسئلہ اس وقت تک درپیش رہے گا جب تک ہم محض افتتاحی تختیاں نصب کرنے کے بجائے عوام کی حقیقی فلاح و بہبود کو اپنی پہلی سیاسی ترجیح نہیں بنا لیتے۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ یہ سب کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تو ایک اصول پسند شہری کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی سیاسی قوت، عوامی بیانیے اور اگر ضروری ہو تو سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے انہیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں