"FBC" (space) message & send to 7575

دینی مدارس میں اصلاحات

گزشتہ پیر کے روز ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میںدہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے متعلق حتمی اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ان کی ساری گفتگو دو بنیادی عوامل کے گرد گھومتی رہی اول : پی ٹی ایم ‘دوم مدرسہ اصلاحات۔ میجر جنرل آصف غفور نے خاص طور پر پی ٹی ایم ‘اس کے بہی خواہوں اور سرحد پار دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کی شراکت پر کھل کر بات کی۔پھر انہوں نے مدارس میں اصلاحات اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے اپنے منصوبے پر بھی اظہارِ خیال کیا‘جن میں پاکستان بھر سے پچیس لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اس کے ملحقہ اداروں نے مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مدارس کے نصاب میں عصری علوم بھی شامل کئے جائیں گے نیز مدارس وزارتِ تعلیم کے ماتحت کام کریں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق؛ اس کام کا آغاز دو ارب روپے سے کیا جائے گا اور اس کے بعد اس پر سالانہ ایک ارب روپے خرچ ہوں گے۔
فوج کی طرف سے شروع کئے گئے اس اقدام کا گہرا تجزیہ اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ سویلین حکومت کی موجودگی میں فوج کواس اقدام کا اعلان کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟چونکہ مدرسہ ریفارمز پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کا واضح حصہ ہیںتو گزشتہ حکومتوں میں سے کسی نے بھی اس سمت کوئی ٹھوس پیش رفت کیوں نہیں کی؟اس مقصد کے حصول کے لئے اربابِ اقتدار کے ذہنوں میں کس قسم کا قانونی فریم ورک موجود ہے؟مدارس کا نیا نصاب مرتب اور نافذ کون کرے گا؟ کیا مذہبی حلقوں کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا گیا ہے؟کیا وہ اپنی موجودہ پوزیشن سے ہٹنے پر تیار ہو جائیں گے؟
اس مسئلے کی بہتر انداز میں تفہیم کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہم اپنی مذہبی و ثقافتی تاریخ کے تناظر میں مدارس کی اہمیت کا ادراک کر لیں۔اسلامی تہذیب کی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک وقت تھا جب ہمارا تعلیمی نظام یعنی مدارس‘ ہماری مذہبی اور سائنسی ترقی کے معروف مراکز تھے۔ہم گیارہویں صدی کے آغاز میں دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر سے مسلمان حتیٰ کہ یہودی ‘مسیحی اور لا دین بھی ہزاروں میل کی طویل اورپر خطر مسافت طے کر نے کے بعد اصفہان کے اس مشہور مدرسے میں آتے تھے ‘جہاں بو علی سینا اپنے شاگردوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا کرتے تھے۔وہ بو علی سینا سے مذہب اور تصوف کے ساتھ ساتھ علمِ ریاضی ‘طب اور علمِ فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔اسی عظیم اسلامی مدرسے میں اس وقت پہلی سرجری کی گئی تھی جب کئی حلقوں میں اسے ممنوع قرار دیا جا رہا تھا۔یہیں رہ کر بو علی سینا اور ان کے شاگردوں نے ستاروں کے عمیق مطالعے کی مدد سے نظامِ شمسی کے تمام معلوم سیاروں کی اپنے اپنے مدار میں حرکت معلوم کی تھی۔انہوں نے اسلامی تاریخ پر ایک سیر حاصل مقالہ بھی تحریر کیا اور ساتھ ہی قرآنی تعلیمات کے معانی اور مفاہیم کی تشریحات کیں۔علم کے اسی ذوق کی بدولت مسلمانوں نے نہ صرف کائنات کی پراسراریت پر چھائے ہوئے دبیز پردوں کو سرکایا‘بلکہ انہی علوم اور تعلیمات کی مدد سے بہت سے غیر مسلموںکو دائرہِ اسلام میںلانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ آج کے پاکستان میں ہم اس درخشندہ اسلامی تاریخ سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس وقت پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد تیس ہزار ہے‘ جن میں پچیس لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔یہ مدارس بنیادی طور پر غیر سرکاری اداروں کی طرز پر رجسٹرڈ ہیں اور ہر مدرسے کو ایک نہ ایک مرکزی بورڈ ریگولیٹ کرتا ہے یہ بورڈز پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ مدارس زیر تعلیم طلبا سے برائے نام داخلہ فیس کے سوا کوئی فیس نہیں لیتے؛چنانچہ شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والے غریب خاندانوں کے ان بچوں کے لئے یہ مدارس بہت کشش رکھتے ہیں جو بصورت دیگر اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔اسلامی تعلیمات کی ابتدائی روایات پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی مدارس میں رائج نظامِ تعلیم کا بنیادی مطمح نظر بھی دینی تعلیم کی ترویج ہے۔تاہم اپنے تابناک ماضی کی روایت کے برعکس(چند ایک کے استثنیٰ کے ساتھ ) پاکستانی مدارس کے نصاب تعلیم میں مذہبی مضامین کے سوا دیگر مضامین موجود نہیں ؛چونکہ ان مدارس کو مالی وسائل فراہم کرنے والے مخصوص مکاتب فکر ہی انہیں چلاتے اور ریگولیٹ کرتے ہیں اس لئے انہوں نے ہمارے سماج میں بھی تہذیبی اور مسلکی تقسیم کی لکیر کھینچ دی ہے۔ کسی بھی مدرسے میں پڑھایا جانے والا نصاب اسلام کی اسی طرح کی تشریحات کرتا ہے جو اس مدرسے کا الحاق کرنے والے مرکزی بورڈ کے سیاسی اور مذہبی ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہو۔ان میں زیر تعلیم طلبا کو جو اسلام یا تاریخ ِ پاکستان پڑھائی جاتی ہے ‘اس پر بھی مخصوص چھاپ ہوتی ہے ۔
سال ہا سال کی تعلیم کے بعد ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے گریجویٹس پاکستان بھر کی مساجد میں فرائض انجام دیتے ہیں اور جب یہی لوگ خطبات دیتے ہیں تو اپنے مخصوص تعلیمی تناظر میں ہی مذہبی تعلیمات کی ترویج کرسکتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ اعتدال پسند افراد مذہبی تعلیم حاصل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور وہ بھی مساجد کی حد تک اپنی مذہبی خود مختاری کو مسلکی مباحث کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں ۔اس تناظر میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ مدارس کے ڈھانچے اور نصاب میں بنیادی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔ اس حوالے سے 2001ء میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مدارس اصلاحات کے لئے بہت اہم اقدمات اٹھائے گئے تھے۔
عالمی ڈونرز کی جزوی اعانت سے مختلف پراجیکٹس کے لئے پانچ ارب ستر کروڑروپے مختص کئے گئے تھے ‘جس کا مقصد مدارس میں جدیدیت کا فروغ اور شدت پسندی کاکلچرختم کرنا تھا۔ ان مدارس کے نصاب کو پاکستان بھر میں قائم جدید تعلیم دینے والے اداروں کے قالب میں ڈھالنے کیلئے Pakistan Madrassa Education Establishment and Affiliation of ModrenDeeni Madaris Board,Ordinance نافذ کیا گیا تھا۔اس کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان میں غیر ملکی طلبا کے داخلے اور ان کی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے Voluntary Registration and Regulation Ordinance 2002رائج کیا گیا‘تاہم ان تمام اقدامات کو مدارس کی اکثریت نے متفقہ طور پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ علمائے اکرام دینی تعلیمات کے امور میں ریاستی مداخلت نہیں چاہتے۔
مدارس میں اصلاحات کے لئے اس نئی کوشش میں ماضی کے تجربات سے سیکھنا اور غلطیوں سے اجتناب ضروری ہے۔ریاست کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غیر موثر قوانین کے اجرا یا کمزور پروجیکٹس کی فنڈنگ سے جدت پسندی اور قدامت پسندی میں جاری کشمکش کو کتم کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں ہوگا؛اگر ریاست‘ ماضی کی طرح دُہری پالیسی پر کاربند رہتی ہے‘ تو پھر شدت پسندی کا خاتمہ بھی محض ایک خواب ہی رہے گا۔مدارس میں اصلاحات کی پالیسی بناتے وقت ہمیں قرونِ اولیٰ کے ان مسلم دانشمندوں سے رہنمائی لینی چاہیے‘ جنہوں نے اپنے عہد میں علم کا ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہم سب کو علم اور امن کے اس جہاد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگااور اپنی زبان و عمل سے منافرت اور تشدد کا پوری طاقت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ 
ہم میں سے ہر ایک کو نا صرف اپنے متعلقہ جدید شعبے کی تعلیم ‘بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی ان تعلیمات سے بھی آراستہ ہونا چاہیے‘ جو سب سے پہلے سچائی اور امن کا درس دیتی ہیں ۔ہمیں سب سے پہلے اپنے اندرعلم (ہر طرح کے علم )کا وہ لافانی جذبہ پیدا کرنا چاہیے‘ جو ہمارے دین کی روح ہے اور جو سب سے پہلے 'اقرا‘ کا حکم دیتا ہے۔اس وقت تک کے لئے ہمیںہر جگہ ‘ہر کونے‘ہر مسجد اور ہر مقام پر اپنے اندر بہتری کی خاطر تبدیلی کی جرأت پیدا کرنی چاہیے۔بے شک ہمارے خالق نے ہمارے لئے ‘جو دین ِمبین منتخب کیا ہے‘ وہی ہماری نجات کا ضامن ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں