"FBC" (space) message & send to 7575

آرٹیکل 370 اور کشمیر

نریندر مودی کی فاشسٹ ہندتوا حکومت نے بہت سی اقلیتوں والے سیکولر بھارت کا نعرہ 5 اگست 2019ء کو آخرکار زمین میں دفن کر دیا۔ اس حرکت سے اب کشمیر میں بھارت کی موجودگی کی فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے مماثلت پیدا ہو گئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کشمیر کی لہولہان سرزمین اب دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ بن گئی ہے۔ یہ وہ خطہ بن گیا ہے جہاںکچھ پیشگوئیاں شاید درست ثابت ہونے جا رہی ہیں۔
اس تنازعے کو پیشگوئیوں کی روشنی میں دیکھنے سے پیشتر یہ مناسب ہوگا کہ پہلے اس آئینی ترمیم کا تجزیہ کر لیں۔ بھارت کے وفاق میں کشمیر کا غیر قانونی انضمام ایک صدارتی حکم نامے (CC.O.272) کے ذریعے کیا گیا ہے جس نے جموں و کشمیر کا آئین منسوخ کر دیا ہے اور درحقیقت بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیا ہے۔ آرٹیکل 370 کیا ہے اور اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 وہ شق ہے جو جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختار سٹیٹس دیتی ہے اور ایک ایسے وقت پر بھارت میں اس کی شمولیت کو اساس فراہم کرتی ہے جب 1947ء میں آزادی کے بعد اس ریاست کے پاس پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا چوائس تھا۔ 1949ء میں آرٹیکل 370 اس وقت موثر ہوا تھا جب جموں و کشمیر آئین ساز اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کہ بھارتی آئین کی کون کون سی شقیں اس ریاست پر لاگو کی جا سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ اسمبلی کو یہ اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ بھارتی آئین کو منسوخ کر دے اور اپنی مکمل خود مختار حکومت کے قیام کے لئے اقدامات کرے۔
اس تناظر میں جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی سے مشاورت کے بعد 1954ء میں ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے تحت بھارتی آئین میں آرٹیکل 35-A متعارف کرایا گیا۔ یہ آئینی آرٹیکل جموں و کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ علاقے کے مستقل باشندوں کی توضیح کرے اور بھارتی آئین کے ان آرٹیکلز کا تعین کرے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوں گے اور ریاست کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ دفاع، خزانہ، خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام امور کے بارے میں قانون سازی کرے۔ آرٹیکل 35-A جسے Permanent Residents Law کہا جاتا ہے غیر کشمیریوں کو وہاں زمین خریدنے اور مستقل آباد ہونے کی ممانعت کرتا ہے اور اگر ریاست کی خواتین کسی غیر کشمیری سے شادی کرتی ہیں تو انہیں جائیداد کے حق سے بھی محروم کرتا ہے۔
درحقیقت یہ آئینی انتظامات اس امر کو یقینی بنانے کیلئے کئے گئے تھے کہ کشمیر پر بھارتی آئین کا کنٹرول (ان امور میں) صرف اسی حد تک ہو گا جہاں تک کشمیری عوام نے (اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے) قبول کیا ہے۔ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے کشمیری عوام کا ''یہ چوائس‘‘ کشمیر میں بھارت کی موجودگی کو واحد اخلاقی اور آئینی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
بھارتی آئین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے آرٹیکل 370 کو (تکنیکی طور پر) جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی اجازت ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے؛ تاہم چونکہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو1957ء میں تحلیل کر دیا گیا تھا؛ چنانچہ یہ آرٹیکل اب ایک مستقل نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ بات محض کسی ہمدردی کی بنا پر نہیں کی جا رہی بلکہ بھارت کی سپریم کورٹ نے 2018ء میں اپنے فیصلے کے ذریعے یہ قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 370 اب آئین کا مستقل حصہ بن چکا ہے اور اب اس کی تنسیخ ناممکن ہے۔حتیٰ کہ اگر اس آرٹیکل میں ترمیم کو جائز سمجھا جائے تو بھی ریاست کے آئینی سٹیٹس میں کسی قسم کی تبدیلی کیلئے جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے بجائے قانون ساز اسمبلی کی منظوری لازمی ہے۔ مودی حکومت نے اس شرط پر عمل نہیں کیا۔ جون 2018ء میں جموں و کشمیر اسمبلی کو برخاست کر دیا گیا تھا۔ دسمبر 2018ء میں جموں و کشمیر ریاست میں بھارتی آئین کی شق 356 کے تحت بی جے پی کی حکومت نے صدر راج نافذ کر دیا تھا اور قانون ساز اسمبلی کے اختیارات یونین یعنی وفاق کے پاس چلے گئے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل) 370(3 کہتا ہے کہ ''صدر ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اعلان کر سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل اب قابل عمل نہیں ہو گا یا یہ بعض ''استثنیٰ اور ترامیم‘‘ کے ساتھ قابل عمل ہو گا‘‘۔ صدر کی جانب سے کسی ایسے نوٹیفکیشن کے اجرا سے قبل اس مقصد کیلئے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی سفارش ضروری ہے۔اس وقت چونکہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی فنکشنل نہیں ہے‘ اس لئے صدر نے جموں و کشمیر کے اپنے ہی مقرر کردہ گورنر سے مشاورت کی ہے۔ اس طرح کی مشاورت نہ تو بامعنی ہے اور نہ کشمیری عوام کی مرضی و منشا کی نمائندگی کرتی ہے۔ بھارتی صدر نے خود اپنے ساتھ ہی مشاورت کی ہے (یعنی یونین کے مقرر کردہ گورنر کے ساتھ) اور اسے ہی آئین کے آرٹیکل 370 (3) کے تحت کشمیری عوام کی ''سفارش‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔
درحقیقت مودی کی ہندتوا حکومت نے کم از کم تیرہ ملین کشمیری عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم کر دیا ہے اور اس طرح سیکولر جمہوری بھارت کا چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ مودی حکومت نے اس خطے کو مزید تقسیم کر دیا ہے جن میں بدھ مت اکثریت والا علاقہ لداخ بھی شامل ہے جہاں شیعہ مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ کشمیر کی مقامی آبادی نے مودی حکومت کے یہ ڈریکولائی اقدامات قبول نہیںکئے ہیں؛ چنانچہ مقامی آبادی کے ردعمل کے خوف کے پیش نظر مودی حکومت کے مشیر اجیت ڈوول نے آئین کی منسوخی سے کئی ہفتے قبل یہاں چالیس ہزار مزید فوجی بھیج دیئے تھے۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے تمام تر مواصلاتی رابطے منقطع کر رکھے ہیں، سیاحوں اور صحافیوں کو علاقے سے نکال دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا جنگجو میڈیا بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مودی حکومت نے صرف 2019ء میں جموں و کشمیر میں اکاون بار مواصلاتی بلیک آئوٹ نافذ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر اب ایک آزاد ریاست بن گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا بھارت اب اس علاقے میں ایک غیر قانونی قابض طاقت بن چکا ہے؟ چونکہ جموں و کشمیر میں بھارتی موجودگی کا جواز آرٹیکل 370 اور (جزوی طور پر) کشمیری عوام کی مرضی سے پیدا ہوا تھا؛ چنانچہ اب تو اس جواز کی بنیاد ہی منہدم ہو گئی ہے۔ ان حالات میں کیا عالمی برادری کا بے حس ضمیر کسی ایکشن کے لئے بیدار ہوگا؟یا پھر یہ کشمیر میں بھارتی فاشزم پر بھی اسی طرح آنکھیں بند رکھے گا جس طرح اس نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے پر بند کر رکھی ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو سفارتی تعلقات محدود کرنے کا اعلان اس طویل جدوجہد کی طرف پہلا قدم ہے جسے بہرصورت جاری رہنا ہے۔ کشمیر میں ہماری دلچسپی کی تین وجوہ ہیں اول: یہ وہ سرزمین ہے جس میں پچھلے ستر سال سے ہمارے بہت سے شہدا کا خون شامل ہے۔ دوم: یہ ہمارے وہ بھائی ہیں جو گزشتہ ستر سال سے آگ اور خون کے جہنم میں رہنے پر مجبورہیں۔ سوم: یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے وہ تمام دریا پھوٹتے ہیں جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے۔
اور بی جے پی کی حکومت پہلے ہی اپنے مذموم ارادوں کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کر دے گی اور اس طرح پیدا ہونے والی خشک سالی کو پاکستان برداشت نہیں کر سکے گا۔کچھ عرصے سے پاکستان میں بہت سے لوگ غزوہ ہند کی پیشگوئی اور چودھویں صدی کے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے حوالے دے رہے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ تمام پیشگوئیاں موجودہ حالات سے مشابہت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کہتے ہیں کہ (آزادی کے بعد) اس علاقے میں بسنے والے مسلمانوں اور ہندوئوں میں چار جنگیں ہوں گی۔ چوتھی جنگ فیصلہ کن ہو گی جس میں ترکی، چین اور ایران کی مدد سے مسلمان ہندوئوں پر غالب ہوں گے۔ ایک روایت کے مطابق ایسی ہی پیشگوئی پروہتوں نے گاندھی جی کے سامنے بھی کی تھی۔ نعمت اللہ شاہ کہتے ہیں کہ اس خطے میں آخری اور حتمی جنگ قرب قیامت کے زمانے میں ہو گی۔ شاید ہم ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے دور میں زندہ رہیں یا نہ رہیں‘ مگر ہیملٹ کے الفاظ میں ایک بات یقینی ہے۔ ہم قسمت میں لکھے یا اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیںکر سکتے۔ جو ہونا طے ہے وہ ہوکر رہے گا اور جو نہیں ہونا وہ کسی صورت نہیں ہوگا مگر ہمیں ہر طرح کی صور ت حال کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں