"FBC" (space) message & send to 7575

ہم دیکھیں گے…!

نواز شریف شدید بیمار ہیں‘ ان کے ڈاکٹر اور طبی رپورٹیں یہی بتاتی ہیں۔ احتساب عدالت اسلام آباد سے سنائی جانے والی سزا اور نیب لاہور میں ان کے خلاف جاری تحقیقات کے دوران انہیں دی جانے والی ضمانت کے فیصلوںمیں معزز عدالتوں نے بھی ان رپورٹوںسے ا تفاق کیا ہے۔اطلاعات ہیں کہ ان کی بیماری اس قدر شدید اور سنجیدہ نوعیت کی ہے کہ پاکستان بھر میں کوئی ڈاکٹر اور ہسپتال ایسانہیں جو انہیں درکار مناسب طبی سہولیات فراہم کر سکے۔ انہیں لازماً بیرون ملک جانا پڑے گا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ باقی ہر شے انتظار کر سکتی ہے‘ احتساب‘ مساوات‘ انصاف...ہر شے انتظار کر سکتی ہے‘ اس وقت کا جب نواز شریف دوبارہ صحت یاب ہو جائیں۔
ڈیل؟ یقینا کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ ایسی شے تو کبھی بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی۔ ہم صاف ستھرے لوگ ہیں‘ اصول پسند لوگ‘ آئین پسند لوگ۔ ہم گناہ گاروں کو سزا دینے اور بے گناہوں کو معاف کرنے پر یقین رکھتے ہیں‘ یہی ہمارا چلن ہے‘ یہی تو ہمارے 'نظام‘ کا نشانِ امتیاز ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم ایک غم گسار و ہمدرد قوم ہیں‘ ہم کسی بیمار کو تکلیف میں دیکھ ہی نہیں سکتے‘ہم یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ قانون کے ہاتھوں کسی انسان کو تکلیف پہنچے۔ ہم ایک بیٹی کو باپ کے لیے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے‘ ہم سے سرحد پار بیٹھے‘ باپ کے علاج کے منتظر بیٹوں کی بے بسی کا تماشا نہیں دیکھا جاتا‘ بس ہم سے یہ نہیں ہو سکتا۔وہ لوگ جو ہماری جیلوں میں سڑ رہے ہیں وہ وہیں ہونے کے حقدار ہیں۔ انہوں نے جرائم کیے ہیں یا کم از کم‘ ان پر الزام ہے کہ وہ ان جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں نسرین نامی اس عورت کی مانند جس کی عمر صرف اسّی برس ہے اور وہ اپنے آجر کے گھر سے چند سو روپے چرانے پر جیل (جس کی وہ مستحق تھی)کاٹ رہی ہے ۔اس کا کوئی روتا بسورتا بیٹا یا مضطرب بیٹی نہیں ہے جو اس کے لیے پریشان ہو‘اس کا بیٹا تو بلدیہ فیکٹری میں لگی آگ کا ایندھن بن چکا۔
جیسا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ ہم بہت ہی انصاف پسند قوم ہیں۔ ہم ان واقعات کی تفتیش کر رہے ہیں جن کا نتیجہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں خوفناک آگ کی شکل میں نکلا۔ ہاں‘ اس میں کچھ وقت لگ رہا ہے‘ لیکن ہم اس کی بھرپور تفتیش کے خواہاں ہیں تاکہ انصاف پر کوئی حرف نہ آئے۔ ہم ہر طرح کی تحقیقات میں بہت سخت معیار رکھتے ہیں۔ ماڈل ٹائون میں ہوا قتل عام ایسی ہی ایک اور مثال ہے۔ پانچ برسوں میں کم از کم تین آزادو خودمختار تحقیقات ہو چکی ہیں۔ بد قسمتی سے‘ یہ سارا قتل عام ٹیلی ویژن سکرینوں پر براہ راست بھی دیکھا گیا اور آپ کو پتا ہی ہے کہ ٹی وی پر بیٹھے لوگ کس طرح اپنے ایجنڈے کے مطابق حقائق کوتوڑتے موڑتے ہیں‘ لیکن ہم یونہی کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہتے کہ کون اس کا ذمہ دار تھا اور کون نہیں۔ ہم اس کی مزید تفتیش کریں گے۔ کیا میں نے بتایا نہیں کہ ہم انصاف پسند قوم ہیں؟
جب کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت (جعلی) پانامہ لیکس سامنے آئیں تو ہم نے ان کی بھی تفتیش کی ‘کیونکہ ہم انصاف پسند ہیں‘ لیکن تحقیقات میں دھاندلی کی گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف مقدمات محض سیاسی نوعیت کے ہیں‘ ان میں کوئی حقیقت نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ شریف مالدار ہیں‘ وہ ہمیشہ رہے ہیں‘ کیا ہوا کہ اگر ان کے اثاثے ان کی ظاہر کردہ آمدنی سے مماثلت نہیں رکھتے؟ اُن دنوں رسیدیں رکھنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ ہم یہ بات جانتے ہیں‘ ہر کسی کو یہ بات پتہ ہے۔ اس کے علاوہ کیا آپ نے موٹر وے نہیں دیکھی؟ یہ نواز شریف نے بنائی تھی۔اور پھر یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کہ نواز شریف کو ان کیسوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسے 2000ء میں بھی جھوٹے مقدمات میں سزا سناکر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اور جب یہ چیز بھی اسے توڑ نہ سکی تو اقتدار پر زبردستی قبضہ جما لینے والوں نے اسے بیرون ملک ‘ اس کی مرضی کے بغیر‘سرور محل کے قید خانے میںجانے پر مجبور کر دیا۔ یہ اس کے اور اس کے خاندان کے لیے بڑا مشکل وقت تھا۔ اسے جو تھوڑا بہت باقی بچا تھا اس کے ساتھ ہی دال دلیہ کرنا تھا‘ نئے سرے سے آغاز کرنا تھا‘ باقی ماندہ مال اسباب سے نئی فیکٹریاں اور نئے کاروبار استوار کرنے تھے۔ اب اسے سخت محنت کر کے کسی نہ کسی طرح گزارہ کرنا تھا۔ کسی نہ کسی طرح۔
یہاں سے جانے سے پہلے کیا اس نے کسی تحریری معاہدے پر دستخط کیے تھے...ڈیل؟ یقینانہیں۔ جو کچھ آپ ٹی وی سے یا سپریم کورٹ سے سنتے ہیں اس پر یقین مت کریں۔نواز شریف کبھی کسی ڈیل پر دستخط نہیں کر سکتا‘ اور جس قدر جلدی ممکن ہو سکتا تھا...تقریباً نو برس بعد...اس نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے اپنی سزا معاف کرا نے کو ترجیح دی۔ ہاں اس معاملے کو سمجھنا ضرور تھوڑا دشوار ہے کہ جب اپیل دائر کرنے کے لیے مقررہ معیاد صرف نوے دن ہوتو نو برس کے بعد کوئی اپیل کیسے دائر کی جا سکتی ہے‘لیکن سپریم کورٹ نے آسان راہ اختیار کی‘ انہوں نے اس تاخیر کو معاف کر دیا (شکریہ افتخار چوہدری!)۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ کیا میں بتا نہیں چکا کہ ہم انصاف پسند لوگ ہیں؟
مریم نواز کو بھی جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ وہ بھی علیل ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم‘ ایک بیٹی ہیں‘اس طرح کے نازک حالات میں انہیں باپ سے جدا نہیں کرنا چاہیے‘ ہم ایسے لوگ نہیں ہیں‘ ہم ایسے ہو نہیں سکتے۔ اگر وہ ان کے ساتھ نہیں جائیں گی تو نواز شریف کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ آپ کی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا بھائی اور ہر وقت ٹی وی کی زینت بنے رہنے والے سیاسی ورکر ان کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں‘لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں: کیا وہ یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ کیا وہ اس کی زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ کیا وہ اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ دوبارہ کبھی بیمار نہ ہوں ؟ کیا وہ اس حوالے سے کوئی حلف نامہ داخل کرا سکتے ہیں؟ کیا وہ کوئی اقرار نامہ پیش کر سکتے ہیں کہ نواز شریف قائم و دائم رہیں گے؟ کیا وہ یہ کر سکتے ہیں؟ یقینا نہیں‘ لہٰذا مریم کو جانا پڑے گا‘ اسے ضرور جانا ہوگا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ ان کے مقدمات‘ ملتوی شدہ اپیلوں اور ان کے خلاف جاری تحقیقات کاکیا بنے گا؟ جیسا میں نے کہا کہ ہم انصاف پسند لوگ ہیں۔ اور تجربات سے ہم نے سیکھا ہے کہ ہمارے تفتیشی ادارے‘ جن کی ڈوریں خفیہ طاقتیں اور یہودی لابی کے ہاتھوں میں ہیں‘ کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو آپ مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لیں۔یقینا نواز شریف اپنے خلاف مقدمات اور تفتیش کا سامنا کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن صرف انصاف پرور عدالت کے روبرو‘ ضابطے کی تمام تر کارروائیوں اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ذریعے۔ اگر اس زندگی میں نہیں تو اگلی میں۔ ہاں‘ اگلی میں۔ وہی واحد جگہ ہے جہاں نواز شریف کو انصاف مل سکتا ہے۔ ایک ایسی عدالت جو بخوبی سمجھ سکتی ہے کہ نواز شریف کتنے معصوم ہیں۔ ایک ایسی عدالت جہاں خواجہ حارث وضاحت کر سکتے ہیں کہ کیسے نواز شریف کا ہر عمل 1973ء کے آئین‘ نیب آرڈیننس 1999ء اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کی حدود میں تھا۔ ایک ایسی عدالت جوآرٹیکل 10۔اے میں نواز شریف کو ملنے والے جائز حقوق دے گی۔ ایسی عدالت جو ووٹ اور عوامی فیصلے کو عزت دے گی۔
ہم انصاف پسند لوگ ہیں اور اس تناظر میں ہمیں اپنے باقی معاملات بھی آخری عدالت کے سپرد کر دینے چاہئیں۔ آصف علی زرداری کا معاملہ ‘انہیں جو بلا وجہ تختۂ ستم بنایا جا رہا ہے‘ بد نصیبی۔ فریال تالپور کا معاملہ‘ وہ تو 'فل فرائی‘ اور 'ہاف فرائی‘ کہہ کر صرف اپنے لیے ناشتے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ عزیر بلوچ ‘ رائو انوار ‘ عابد باکسر کا‘ تھر کے بچوں کا‘ آوارہ کتوں کا نشانہ بننے والوں کا‘ جی ٹی روڑ ریلی کے دوران پروٹوکول کی کار تلے کچلے جانے والے بچے کا اور ہماری سرزمین پر پھیلے ہوئے لاتعداد متاثرین کا معاملہ جن کی کہیں داد رسی ممکن نہیںیہ سب معاملات آخری عدالت پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں