"FBC" (space) message & send to 7575

زوال کا عشرہ

فلکیاتی تناظر میں نیا سال ایک منطقی مغالطیکے سوا کچھ نہیں ۔ کسی بھی حوالے یا پہلو سے دیکھا جائے تو یہ خلا میں(سورج سے متعلق) صرف ایک ایسا بے قاعدہ سا نقطہ ہے ‘جسے زمین جب عبور کرتی ہے ہم لوگ کیلنڈر پر نئے سال کے آغاز کی خوشیاں مناتے ہیں۔ تاہم اس برس کا سالِ نو کچھ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر ایک عشرے کا خاتمہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں زوال کا عشرہ‘ دس برس کا عرصہ جو سیاسی شورش‘ بے مثال کرپشن‘ دہشت گردی کے دل دوز واقعات اور ایک بڑی جنگ کے خطرات سے عبارت تھا۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اسی عشرے میں ہم نے دہشت گردی کی قوتوں کے خلاف فتح بھی حاصل کی‘ ہم نے سیاسی سٹیٹس کو میں قابلِ ذکر ہلچل پیدا کی اور دہائیوں سے امریکی مرکز والی خارجہ پالیسی کا شکنجہ کچھ ڈھیلا کیا۔ان حالات میں جب ہم عشرے کے اختتامی نقطے پر کھڑے ہیںتو ہمیں ایک لمحے کو رک کر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم کہاں سے گزر آئے ہیں اور یہاں سے ہم کس سمت گامزن ہیں۔
دہائی کے آغاز میں پاکستان کی ادارہ جاتی نمو پذیری ثابت و سالم تھی۔ کرنسی کی ہماری شرح تبادلہ اس خطے کے دوسرے ممالک کی شرح سے قابلِ موازنہ تھی اور مشرف کے زمانے میں حاصل ہونے والے معاشی فوائد ابھی پوری طرح تحلیل نہ ہوئے تھے۔ پاکستان سٹیل مل چل رہی تھی اور کم از کم ہماری ضروریات پوری کر رہی تھی۔ پاکستان ریلوے کچھ تھوڑا بہت نفع حاصل کر رہی تھی اور پی آئی اے صرف خسارے کو جنم دینے والی کمپنی نہیں بنی تھی۔ سرحدی تنائو بڑھنا شروع ہو چکا تھا‘ لیکن جنوبی ایشیا میں کھلی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی خیال کیے جاتے تھے۔تاہم گزرے (زوال کے)عشرے نے ہمیں ایسی ایسی چیزوں سے متعارف کر ا دیا جن کاپہلے ہم نے نام تک نہ سنا تھا۔ اس عرصے میں‘صرف سندھ کی بات کر رہا ہوں‘ ہمیں پتا چلا کہ''فل فرائی‘‘ اور' 'ہاف فرائی‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ ہم نے دریافت کیا کہ چائنہ کٹنگ کیا بلا تھی اور یہ کہ منظور قادر کاکا جیسوں کے زیر نگیں ''نظام‘‘کیسے چلتا ہے۔ اسی عرصے میں اومنی گروپ گمنامی سے ابھر کر گھر گھر میں کرپشن کے استعارے کے طور پر جانا گیا۔ ہمیں علم ہوا کہ کیسے پورا پورا بینک کالا دھن سفید کرنے کے لیے تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ کس طرح چند کرپٹ ٹھگ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل جیسے قومی اداروں کا دیوالہ نکال سکتے ہیں۔ کیسے تھر میں بچے بھوک سے مریں تب ہی شرجیل میمن اور ان جیسے دوسرے ان کے نام پر اربوں روپے کما سکتے ہیں اور یہ کہ بھتہ نہ دینے کانتیجہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں دو سو ساٹھ انسانوں کے زندہ جلنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ 
پاکستان میںدیگر جگہوں پراس عشرے نے ہمیں سبق دیاکہ کیسے ماڈل ٹائون میں چودہ لوگ شقاوت کے ساتھ قتل کیے جاتے ہیں ‘ اور یہ کہ ساہیوال میں بچ جانے والے بچے ہمارے نظام عدل تلے ہمیشہ یتیمی کا صدمہ سہیں گے۔ ہم نے دیکھا کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں آٹھ ہزار گُنا اضافہ ہوا‘ جبکہ ان کے دورِ حکومت میں لوگوں کی ریکارڈ تعداد غربت کی لکیر سے نیچے کھسک گئی۔ ہم نے دریافت کیا کہ آف شور سرمایہ کاریاں اور اقامے ہماری اشرافیہ کے لیے نوٹ چھاپنے کے ذرائع تھے۔ ہم پر یہ سچ آشکار ہوا کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے پاس انتہائی لچکدار قسم کے تصورات موجود ہیں۔ کرپشن کے خلاف قطری خطوط کو اپنے دفاع میں استعمال کئے جا سکتے ہیں اور یہ کہ ہماری محدود اشرافیہ کے لیے بیماری وہ پروانہ ہے جوجیل سے نجات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سب کچھ سے بڑھ کر اس عشرے نے ہماری قومی طاقت اوردبائو سے ابھر آنے کی صلاحیت کو آشکار کیا ہے۔ ایسی قوم جو انتہائی غم ناک صورتحال کو نہ صرف سہہ سکتی ہے بلکہ اُبھر سکتی ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد ہم نے دیکھا کہ پوری قوم یکجان ہو گئی کہ ہمیں دہشت گرد قوتوں کو شکست دینی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری قوم نے ایسے وقت میںجب کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا‘ بہت بھاری قیمت چکا کر دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑی۔ بہر حال قیمت جو بھی چکائی ‘لیکن ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر موجود دشمنوں کے خلاف اس جنگ میں کامیابی حاصل کی۔اب‘ جب ہم زوال کے اس عشرے سے نکل کر ایک روشن مستقبل کے وعدے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں‘ ہمیں سچ بولنے کی ہمت مجتمع کرنی ہوگی کہ پچھلی دہائی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ گورننس کا وہ انتظام جو پارلیمانی جمہوریت کے آئینی بندوبست میں موجود ہے‘ کارآمد ثابت نہیں ہو رہا۔ یہ لوگوں کو وہ کچھ نہیں دے رہا جس کا ان سے وعدہ کرتا ہے۔اسے اس طرح بنایا گیا ہے کہ معدودے چند اشراف اس سے فوائد سمیٹتے ہیںاور اس کے لیے یہ ہمارے جمہوری بندوبست کو توڑتے مروڑتے رہتے ہیں۔اس کی ایک مثال پنچاب اسمبلی کا فلور ہے‘ اس ساری دہائی میں یہاں دھرنوں‘ واک آئوٹ اور گاہے گاہے گالم گلوچ کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ پی ایم ایل (این) کی حکومت کے دوران پی ٹی آئی کے ممبران نے بہ مشکل قانون سازی کا کوئی کام ہونے دیا اور اس کی بجائے اسمبلی کی سیڑھیوں پر طویل دھرنوں کو ترجیح دی۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے تب سے پی ایم ایل (این) والے اسمبلی کی کارروائی کو چلنے نہیں دے رہے۔سندھ میں صورتحال اور بھی گمبھیرہے۔ خود سپیکر اسمبلی کافی عرصہ تک گرفتار رہے ‘ انہیں پروڈکشن آرڈر کے ذریعے جیل سے بلا کر اسمبلی اجلاس کی صدارت کرائی جاتی رہی۔ گالم گلوچ اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی دھمکیاں ہر اجلاس کی روایت بنی نظر آئیں۔ وزیر اعلیٰ‘ جنہوں نے اسمبلی میںاپنی حکومت کا قانون سازی کا ایجنڈا آگے لے کر چلنا تھا ان کی اسمبلی تقاریر زرداری کی ذاتی دولت اور اومنی گروپ کے کاروباری حربوں کی وضاحتوں سے مزیّن نظر آئیں۔ اس دوران تھر میں بچے بھوک کے ہاتھوں جاں بحق ہوتے رہے‘ سارے دیہی سندھ میں لاقانونیت کا راج رہا‘ ایچ آئی وی وائرس نے معصوم جانوں کا خراج وصول کیا اور چند دن کی بارش نے کراچی کی گلیوں کو بیماریاں پھیلاتے کچرے کے ڈھیر میں بدل ڈالا۔
قومی اسمبلی ‘جو اس سیاسی منظر نامے کا مرکزتھی ‘وہ سنگین ترین تصویر پیش کرتی رہی۔ گزشتہ چند برسوں میں خصوصاً پانامہ سکینڈل کے بعد سے‘ قومی اسمبلی کی کارروائی کا واحد مقصد منتخب اراکین کی ذاتی جائیداد کا تحفظ رہ گیا ہے۔ پہلے نواز شریف اور ان کا ''یہ ہیں وہ اثاثے‘‘اور اس کے بعد خواجہ آصف کی ''شرم حیا‘‘ والی دھواں دھار تقریر۔ اس کے جواب میں فواد چودھری اور ان کا تند و تیز ردعمل‘ اس کے بعد پروڈکشن آرڈروں کی سیاست کہ شہباز شریف‘ آصف زرداری‘ سعد رفیق‘ شاہد خاقان اور دیگر کو اسمبلی میںلایا جائے‘ تاکہ وہ قانونی سوالات کے جواب میں اپنا سیاسی دفاع پیش کر سکیں۔ اس عرصے میں عوامی مفاد کی کسی قانون سازی پر نہ تو بحث ہوئی اور نہ کوئی قانون منظور ہوا (اس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی تخصیص موجود ہے)۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عرصے میں قومی اسمبلی نے ارب ہا روپے خرچ کیے (اکثر اندازوں کے مطابق پندرہ ارب روپے سے زائد) اور اس کے بدلے میں حاصل کیا ہوا؟
سو‘ اب ہم کیا کریں؟ کیا ہمیں کچھ اور دہائیوں تک اس دور افتادہ وعدے کے ایفا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی روز ہماری پارلیمان اپنی توجہ ذاتی جائیدادوں کے دفاع سے ہٹا کر جمہور کی فلاح کی جانب مرکوز کر لے گی؟ یا اس کی بجائے ہمیں گورننس کے نظام کی تعمیر نو کے لیے سوچ بچار کرنی ہوگی ‘تاکہ ایک زیادہ مؤثر اور نتائج فراہم کرنے والا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے؟نئے عشرے کے آغاز پر کھڑے ہو کر ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر آئین و قانون میں سٹرکچرل نوعیت کی مخصوص تبدیلیاں کی جائیں تو ان سے پاکستان میں جمہوریت بہتر طور پر چل سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو یہ تبدیلیاں کون سی ہیں اور کس طرح ان کی تدوین کی جا سکتی ہے؟یہ وہ سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیں ‘جو قومی مباحثے کے متقاضی ہیں۔یہ وہ وقت ہے کہ ہم ایک نئے آئینی تناظر میں ایک بہتر سماج کا تصور پیدا کریں‘ تاکہ اس جمہوریت کے حقیقی ثمرہماری قوم تک پہنچ سکیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں