"FBC" (space) message & send to 7575

گورننس کا بحران

پاکستان میں گورننس کابحران ہے اور پی ٹی آئی کویہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہیے کہ اس بحران کو جنم دینے اور دوام بخشنے میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔اس بحران کے اُبھرنے کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکومت کے اندر موجود صاحبانِ اختیار اس کے ذمہ دار ہیں یا اس کی ذمہ داری اس نظام پر عائد ہوتی ہے‘ جس میں ہم رہ رہے ہیں؟ یا کوئی بڑی بدی اپنا کھیل دکھا رہی ہے؟ کیا مرکزی حکومت کو عدم منصوبہ بندی اور پیش بینی سے محرومی کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے یا یہ الزام متعلقہ صوبائی حکومتوں پر دھرا جانا چاہیے؟اگر ہم چاہتے ہیں کہ آج ہم گورننس کے اس بحران سے نکلیں اور آئندہ ایسی صورتحال کا شکار نہ ہوں تو یہ اور ان جیسے کئی اور سوالات پوری ایمانداری سے پوچھے جائیں اور اتنی ہی ایمانداری سے ان کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ 
ہمیں کچھ ناقابلِ تردید حقائق سے آغاز کرنا چاہیے: 2018 ء کے انتخابات سے قبل عمران خان نے پی ٹی آئی کا جو گورننس ماڈل پیش کیا تھا‘ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکا ہے (اب تک کی صورتحال یہی ہے) عثمان بُزدار 'وسیم اکرم پلس‘ نہیں ہیں‘ لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آئی‘سارے 'کرپٹ‘ (عمران خان کے دعوے کے مطابق) قانون کی گرفت سے پھسل چکے ہیں‘ کرپشن کا گھیرا (ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق) مزید سخت ہی ہوا ہے‘ بیروزگاری عروج پر ہے‘ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اور طویل مدتی معاشی بحالی کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ گورننس کے بہت سے صوبائی معاملات جن پروفاقی حکومت کا براہِ راست کنٹرول نہیں ہے‘ وہ بھی وفاقی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں‘ مثال کے طور پر سندھ میں بارش کے پانی کا معاملہ‘ کتے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ ہونا‘ ایچ آئی وی کا پھوٹ پڑنا یا کوڑا کرکٹ اٹھانے سے لے کر تھر میں غذائی قلت جیسے مسائل۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم (2010ئ) کے بعد سے صوبے ہی صحت ‘ صفائی اور خوراک کی فراہمی جیسے معاملات کے ذمہ دار ہیں‘ ان معاملات میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے‘ تاہم پی پی پی کی حکومت مسلسل ان مسائل کا ذمہ دار وفاق کو ٹھہراتی ہے کہ صوبہ سندھ کو وفاق کی جانب سے مناسب رقوم فراہم نہیں کی جاتیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی تنقید کا نشانہ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی بنتی ہے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کے عثمان بُزدار گورننس کے چیلنجز سے نمٹنے میں بارہا ناکام ہوئے ۔ 2019ء میں اپنے پہلے مون سون موسم کے دوران پنجاب حکومت ڈینگی جیسی وبا کی روک تھام کے لیے پیشگی اقدامات میں ناکام رہی۔شہباز شریف حکومت کے برعکس بزدار حکومت نے کوئی آگاہی مہم چلائی اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدامات کیے۔ پانی جمع ہونے کے حوالے سے کوئی حکومتی مہم دیکھنے کو ملی اور نہ ہی انسدادی سپرے کیے گئے۔ جب تک ڈینگی وائرس نے جانیں لینی شروع نہ کیں بُزدار حکومت خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئی۔ چند ماہ کے بعد لاہور میں سموگ کا سیزن شروع ہو گیا۔ بد ترین صورتحال کو پیشگی بھانپ کر (اور عدالت عالیہ کے احکامات کے مطابق) پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے اکتوبر سے بند کر دئیے جاتے تھے اور صنعتی اخراج پر نظر رکھنے کا کام موسم سرما کے آغاز ہی سے شروع کر دیا جاتا تھا کہ صورتحال بے قابو نہ ہو جائے‘تاہم اس حوالے سے بھی بُزدار حکومت کچھ نہ کر سکی ‘نتیجہ یہ نکلا کہ سموگ کی صورتحال گزشتہ برسوں کی نسبت کہیں زیادہ شدید ثابت ہوئی۔ابھی ہم ان ناکامیوں کے صدمے ہی پوری طرح سہہ نہیں پائے تھے کہ نئے برس کے آغاز پر آٹے کی قلت ہو گئی۔ اس بارگندم ضرورت سے زیادہ ہونے کے باوجود حکومت کی انتظامی نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصنوعی قلت‘ آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافے اور ذخیرہ اندوزی جیسے عوامل نے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے۔
ایسے اور اس جیسے بے شمار معاملات میں جب بُزدار حکومت گورننس کے کم از کم معیارات پر بھی پورا اترنے میں ناکام رہتی ہے تو فطری طور پر اس کا الزام عمران خان صاحب پر لگایا جاتا ہے۔ ان کی پارٹی پنجاب کی حکمران ہے‘ انہوں نے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کیا ہے اور اپنی پارٹی پالیسی کے وہی ذمہ دار ہیں‘ تاہم اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت وہ پنجاب کے معاملات کو براہِ راست چلانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ وفاقی حکومت صحت کے شعبے میں کوئی بامعنی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ ڈینگی کے حوالے سے یا پنجاب میں زراعت کے شعبے میں گندم کے معاملے میں اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔پنجاب میں گورننس کا جو بحران ہے اس سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے عمران خان کیا کر سکتے ہیں؟ پنجاب کی گورننس کو اپنی پسندیدہ بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کی کوشش‘وہ افسران جو براہِ راست انہیں جوابدہ ہوں‘ تاہم اس خیال و انداز کو بزدار حکومت نے قبول نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے ایک گروہ نے‘ جنہیں شہ خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے دی‘ وزیراعلیٰ کو اختیارات دینے کا نعرہ بلند کرنا شروع کر دیا ۔ باالفاظ دیگر یہ لوگ عمران خان کی تعینات کردہ بیورو کریسی سے اختیارات واپس لینا چاہتے ہیں‘ اس کھینچا تانی نے ان قوتوں میں اُمیدکی جوت جگا دی ہے ‘جو عمران خان کی سیاسی ناکامی کے شدت سے متمنی ہیں۔
اسی مخاصمت کا شاخسانہ ہے کہ پنجاب اور مرکز میں موجود اہم سیاسی اتحاد لڑکھڑا گیا ہے۔ اتحادی اکثر اوقات حکومتی پالیسیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیںاور پی ٹی آئی کے اندر موجود دھڑے بھی (خصوصاً پنجاب میں) صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت بارے آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے تو اُمیدیں بھی لگا لی ہیں کہ وہ پنجاب میں اور (شاید) مرکز میں بھی سیاسی تبدیلی کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔کیا گورننس کا یہ بحران حل کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ بحران صرف پنجاب اور سندھ میں نااہل ٹیم کی وجہ سے ہے؟کیا شخصیات پر الزام دھر دینا درست ہوگایا اس مسئلے کا کوئی بڑا سڑکچرل حل بھی دستیاب ہے‘ جس میں اوپری سطح پر بیٹھے افراد اور ان کی اہلیت کے سبب گورننس کی صورتحال بے قابو نہ ہو پائے؟اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بزدار اور ان کی ٹیم 'وسیم اکرم پلس‘ نہیں ہے۔ مسئلے کا کچھ حصہ ان شخصیات کی بدولت ہی ہے جو کارپرداز بنی بیٹھی ہیں۔ عمران خان کو پنجاب کے امور از سر نو غورضرور کرنا چاہیے اور موجودہ بحرانی صورتحال میں کسی انفرادی شخص کو‘ عثمان بزدار سمیت‘ ناگزیر خیال نہیں کرنا چاہیے۔
تاہم اس مسئلے کا ایک بڑا سٹرکچرل حل بھی ہے ‘جسے ایک طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ حل آئین کے آرٹیکل 140Aکا نفاذ ہے‘ جو کہتا ہے کہ ''سیاسی‘ انتظامی اور مالی ذمہ داریاں اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب اراکین کے سپرد کیے جائیں‘‘۔ جب تک یہ آئینی حکم حقیقی معنوں میں اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہوتا‘ تب تک نچلی سطح تک گورننس کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ یقینا صوبائی حکومتوں کو اپنا کام تندہی سے کرنا چاہیے۔ ہاں وفاقی حکومت پر لازم ہے کہ وہ بہتر گورننس اور معیشت کے لیے پالیسیاں لے کر آئے‘ لیکن اس ملک کے بے یارومددگار عوام کے لیے حقیقی ریلیف صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے۔ عثمان بُزدار اور ان کی کابینہ اور مراد علی شاہ اور ان کے درباریوں پر آئینی طور پر خدمات کی فراہمی کے میکنزم کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ان حکومتوں نے قانون سازی ‘جو ان کی بنیادی ذمہ داری ہے‘ نہ کر کے اپنے آپ کوظاہر کر دیا ہے۔اگر خدمات کی فراہمی کا کام مقامی حکومتوں کے سپُرد کر دیا جاتا‘ جو آئین پاکستان کا تقاضا ہے تو انہیں کاہے کو یہ تنقید سننا پڑتی۔
وزیر اعظم عمران خان کو 2018 ء سے پہلے کی گئی اپنی تقریروں کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ انہیں ان کے وہ وعدے اور نعرے یاد دلانا چاہئیں کہ وہ مقامی حکومتوں کا ایسا موثر نظام قائم کریں گے‘ جو ہمارے لوگوں کے مصائب کم کرے گا‘ نیز ہمارے قانونی ڈھانچے میں اصلاحات میں معاونت اور ایسی پالیسیوں کی تشکیل ‘جو ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں‘ ناگزیر ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں