"FBC" (space) message & send to 7575

وقت میں آفاقی لمحہ!

تاریخ ناگزیریت کے ایک عجیب و غریب احساس کی حامل ہوتی ہے۔اکثر و پیشتر ایسا نہیں ہوتا کہ ''تاریخی لمحات‘‘ کا اعلان کسی دھماکے یا سیاسی جلسے کے سٹیج سے ہو۔ یہ لمحات‘ خاموشی سے‘ رینگتے ہوئے ہم تک پہنچ جاتے ہیں اور ان میں ایک ایسی آفاقی حقیقت ہوتی ہے جو لمحۂ موجود کی کسی بھی عارضی کشش سے عظیم تر ہوتی ہے۔ آفاقی تاریخ کا یہ خاموش اجارہ ہمارے اجتماعی نصیب کو متشکل کرتا ہے‘ بھلے ہی ہم اس کی وسعت و امکان سے ناواقف رہیں۔اگرچہ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم ایسا ہی ایک لمحہ اوائلِ ہفتہ وقوع پذیر ہوا جب دنیا میں ابراہیمی مذاہب کی تمام مقدس ترین جگہوں پر عبادات (بیک وقت) رک گئیں۔ اس صورتحال کی اہمیت پر رائے دینے سے پہلے کچھ ایسے متعلقہ حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔
کورونا وائرس کا طوفان دنیا کو جکڑ چکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ بظاہر کوئی ایسی شے نہیں جو اس کی پیش قدمی روک سکے۔ انسانوں میں یہ وائرس SARS-CoV-2کی وجہ سے پایا جاتا ہے اور یہ چین کے صوبے ووہان میں پہلی بار شناخت کیا گیا۔ اس کی ابتدائی علامات یکم دسمبر 2019ء کو ایسے شخص میں سامنے آئیں  جس  کا ہنان سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ایک خلیے سے‘ ایک انسان سے (تادمِ تحریر) یہ 108 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس کے110,627 کنفرم کیس سامنے آ چکے ہیں۔ اس وبا کا بڑاشکار چین‘ جنوبی کوریا‘ اٹلی اور ایران ہوئے ہیں اوراس کے جاری پھیلائو میں ابتک 3400لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ان میں سے تقریباً اکتیس سوہلاکتیں چین جبکہ چار سو پچیس دنیا کے دیگر ممالک میں ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے واحد روشن پہلو یہ ہے کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے ستاون ہزار افراد اب تک صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
بنیادی طور پر کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے میں بالکل اسی طرح منتقل ہوتا ہے جیسے انفلوئنزا...چھینکنے اور کھانسنے سے پیدا ہونے والے سانس کے جرثوموں کی صورت میں۔ ساری دنیا کے سائنسدان ابھی تک اس غیر معمولی وائرس کی درست نوعیت تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں‘ اب تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کا شکار ہونے اور اس کی علامات ظاہر ہونے میں عموماً پانچ دن کا وقفہ ہوتا ہے‘ لیکن یہ وقفہ دو سے چودہ دن پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ عموماً علامات بخار‘ کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس بات کے بھی کچھ شواہد سامنے آئے  ہیں  کہ کورونا وائرس درجہ حرارت اور ماحول کی تبدیلی کے حساب سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اب تک کورونا وائرس کے لیے کوئی ویکسین یا خاص اینٹی وائرس علاج دریافت نہیں ہوا‘ تاہم اس حوالے سے تحقیق جاری ہے۔
اس حوالے سے عالمی رد عمل‘ جو ابتدا میں سست تھا‘ اب صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کافی زیادہ ہو چکا ہے۔ تقریباً سبھی ممالک کورونا وائرس سے متاثر علاقوں میں آنے جانے پر سفری پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔اکثر ممالک نے متاثرہ علاقوں سے اپنے شہریوں اور سیاحوں کو نکال لیا ہے۔اس وبا کا شکار ہونے والے ممالک کے لیے غیر ملکی امداد کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ سکول‘ کاروبار اور عوامی اجتماعات والی جگہوں کو بہت سے ممالک میں بند کیا جا چکا ہے۔ چھ مارچ تک دوسو اکیانوے اعشاریہ پانچ ملین بچے اور نوجوان سکولوں میں نہیں جا سکے‘ کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے خدشے کے سبب عارضی طور پر یا غیر معینہ مدت کے لیے متعلقہ سرکاری حکام نے اپنی صوابدید کے مطابق سکول بند کر دیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس کا پھیلائو دنیا کی سپلائی چین کو تین سو بلین امریکی ڈالر کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ سب اہم معاملات ہیں اوران کی وجہ سے اس پھیلتی ہوئی وبا کی شدید نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ لیکن شاید ان سب سے کہیں بڑھ کر اہم معاملہ وہ تصاویر تھیں جو اس ہفتے کے آغاز میں میڈیا پر نظر آئیں۔تقریباً تمام ابراہیمی مذاہب کے مقدس/تاریخی مقامات کی تصاویر۔ خاص طور پر جمعرات کے روز سامنے آنے والی خانہ کعبہ کی تصاویر‘ جب وہاں پر طواف کا سلسلہ رک گیا ‘ اسی روز یروشلم کے (پرانے معبد میں) دیوار گِریہ کو بھی تمام زائرین کے لیے بند کر دیا گیا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد اسی روز چرچ آف نیٹی وِٹی (جہاں حضرت عیسیٰ ؑپیدا ہوئے) عبادات کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسی روز چرچ آف ہولی سیپل کر (جہاں حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کیا گیا) بھی زائرین کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسی وقت مسجد اقصیٰ بھی نمازوں کے لیے بند کر دی گئی۔ یورپ میں ویٹی کن‘ یہاں آنے والے پادریوں اور زائرین کے لیے بند کر دیا گیا‘ حتیٰ کہ پوپ بھی زائرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنی بالکونی میں تشریف نہیںلائے۔اور اس سے اگلے روز کورونا وائرس کے خوف سے نجف اشرف میں روضہ حضرت علی ؓاور کربلا میں روضہ امام حسین ؓپر نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 
اب میں ان تمام واقعات کو ایک تناظر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں: یہ پہلی بار ہوا ہے‘ تمام انسانی تاریخ میں‘کہ ان تمام جگہوں کو بیک وقت عبادات اور دعائوں کے لیے بند کیا گیا ہو۔ گزشتہ چودہ سو برس میں طوافِ کعبہ اس سے قبل دو بار رُکا ۔ دو عالمی جنگوں کے دوران ویٹی کن چند دنوں کے لیے بند رہا۔ یروشلم کی عبادت گاہیں پہلے بھی متعدد بار بند ہو چکی ہیں‘ خصوصاً صلیبی جنگوں کے دوران‘ لیکن اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مذہبی تاریخ کے پانچ ہزار سالہ دور میں‘ کہ تمام توحیدی مذاہب کی اہم ترین عبادت گاہوں میں بیک وقت عبادات پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا جو بھی ثابت ہوا ہو لیکن یہ اب ٹوٹ چکی ہے۔ شاید لاکھوں کی آہیں عرش کو ہلانے پہنچ گئیں‘شام میں‘ میانمار میں‘ کشمیر میں‘ فلسطین میں‘ عراق میں اور سب صحارا افریقہ کے قحط زدہ صحرائوں میں موجود بچوں کی آہیں‘شاید آخر کار ان کی سنی گئی ہے۔ اس زمانے میں درپیش مسائل حل کرنے میں ہماری اجتماعی ناکامی نے شاید قدیم پیشین گوئیوں کو ناکام کر دیا اور اب بھی ہماری توجہ کا مرکز مضحکہ خیز چیزیں ہیں‘ جبکہ اہمیت کے حامل معاملات کی جانب ہم نہیں دیکھ رہے۔مثال کے طور پر پاکستان میں ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کی کرخت آوازوں کو جتنی اہمیت دی جا رہی ہے اتنی توجہ زینب انصاری کی چیخوں پر کبھی مرکوز نہیں کی گئی۔ہم نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی گنتی میں مصروف ہیں ‘جبکہ ہم نے کبھی ماڈل ٹائون‘ بلدیہ فیکٹری‘ لیاری کی گلیوں اور تھر کے صحرائوں سے اٹھنے والی مظلوموں کی آہ بکا نہیں سنی۔ ہم اپنا زیادہ وقت اومنی گروپ اور شریف خاندان کی سلطنت کا دفاع کرنے میں صَرف کرتے ہیں‘ لیکن ہم نے شاہ رخ جتوئی کو سزا دلوانے کے لیے کبھی آواز بلند نہیں کی۔ ہم رانا ثناء اللہ اور شرجیل میمن کو ہیرو بناتے ہیں‘جبکہ عوام کے انبوہ کثیر کو گلیوں میں بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسوں کو تو (طبی بنیادوں پر)رہائی مل جاتی ہے‘ جبکہ دیگر ہزاروں لوگ جیل میں بیماری کے ہاتھوں موت کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ہو سکتا ہے‘ اورایسا عین ممکن ہے‘حد ہو گئی ہواور خدائے تورات و انجیل و قرآن کو اب مزید ہماری عبادتوں کی ضرورت نہ رہی ہو۔ 
میں خود کو یہاں روکتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بائیں بازو کے لبرل اس کالم کو اپنی پنچ لائن کے لیے لے اُڑیں‘ لیکن اختتام سے قبل مجھے ایک بات کہنے کی اجازت دیجیے: آنے والے دنوں میں خود احتسابی کا ایک لمحہ نکال کر سوچیے گا اوراپنی اُن ذاتی/سماجی ترجیحات پر نظر دوڑائیے گا جوآپ کے وقت اور آپ کی توانائی کا بڑا حصہ کھا جاتی ہیں۔ اور شاید اس غور و فکر کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہمیں انفرادی و اجتماعی توبہ کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں