"FBC" (space) message & send to 7575

بحرانی مرحلہ!

کوروناوائرس کے پھیلائو کے خلاف پاکستان کی لڑائی انتہائی تشویشناک مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ جاری لاک ڈائون کے باوجود پاکستان بھر سے کوروناکے اٹھارہ سو سے زائد کنفرم کیس سامنے آ چکے ہیں‘ تا دمِ تحریر اِن میں سے پچیس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور جیسا کہ توقع تھی‘ پنجاب نے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سندھ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ یہاں کنفرم کیس سب سے زیادہ ہو چکے ہیں(پنجاب میں کیس ساڑھے چھ سو سے زائد ہو چکے ہیں)۔اگر عالمی رحجانا ت کو پیمانہ تسلیم کر لیا جائے تو اگلے دو ہفتوں میں پاکستان میں کورونامریضوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہونے کاخدشہ ہے۔ وہ لوگ جو دو ہفتے قبل اس وائرس کی پکڑ میں آ چکے ہیں‘ جب لاک ڈائون کا آغاز نہیں ہوا تھا‘ آنے والے دنوں میں ہسپتالوں کا رُخ کریں گے۔اٹلی‘ سپین‘ جرمنی‘ برطانیہ اور امریکہ کا نمونہ ظاہر کرتا ہے کہ جب ایک بار مریضوں کی تعداد ایک اہم حد عبور کر جاتی ہے (عموماً یہ تعداد پندرہ سو مریض ہوتے ہیں) تو اس کے بعد رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے اور اس پر قابو پانے کی ایک ہی صورت ہے کہ سخت پابندیاں لگا کر اس کے پھیلائو کو روکا جائے۔ہم اس سنگ ِمیل کے قریب‘ بلکہ بہت ہی قریب ہیں اور اس کے نتیجے میں جو سوال ہماری انتظامیہ اور میڈیا پر جاری مباحث کا موضوع بنا ہوا ہے وہ یہ ہے: کیا سارے پاکستان میں مکمل کرفیو کے نفاذ کے سوا کوئی چارہ نہیں؟ یا لاک ڈائون جس پرقانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے عملدرآمد کرائیں ؟
اس معاملے کے ایک سرے پر سندھ حکومت ہے‘ جو اپنا صوبہ مکمل طور پر بند کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اس حوالے سے بالکل پر اعتماد ہیں کہ لوگوں کی جانیں بچانے کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ درست ہوں۔ پیپلز پارٹی نے یہ فیصلہ کیسے کیا اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہے‘ آخر کو پی پی پی اپنے ووٹروں کی صحت کے بارے میں اتنی سنجیدگی دکھانے کا ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتی...ایچ آئی وی /ایڈز کا شکار ہونے والے لاڑکانہ کے لوگ ہوں یا کراچی میں کتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے افراد‘ تھر کے بھوک سے مرتے بچے ہوں یا سیہون اور شکار پور میں مسخ شُدگی کے شکار لوگ۔جو بھی ہو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عملاً کرفیو جیسے اقدامات اٹھائے ہیں‘ ہو سکتا ہے اس کا محرک عمران خان اور ان کی حکمت عملی کے الٹ چلنے کی سوچ ہو۔دوسری جانب پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ‘ خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان‘ جزوی لاک ڈائون کے حامی ہیں‘ جس کے نتیجے میں ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی ہو‘ لیکن ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے لوگوں کو محدود نقل و حرکت کی اجازت ہو۔ مکمل کرفیو کی مخالفت میں عمران خان کی دلیل (یا ایسا لاک ڈائون جو بزورِ قوت نافذ کرایا جائے) یہ ہے کہ ہماری آبادی کا وہ حصہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے وہ سخت کرفیو کے سبب بھوک سے دم توڑ جائے گا۔ وہ لوگ جو روزانہ اُجرت حاصل کر کے ہی اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں ‘وہ سخت قسم کے لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے۔لیکن اگر سچ کہا جائے تو پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بھی یہ اندازہ یقینا ہے کہ مکمل لاک ڈائون یا کرفیو ‘خاص طور پر ان علاقوں میں جو کوروناوائرس سے زیادہ متاثر ہوں‘ناگزیر ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم ایسے کرفیو کی صورت میں اپنے غریبوں کی صورتحال میں کوئی بہتری لانے کے اقدامات کر سکیں۔
اس مقصد کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کے لیے بارہ سو پچاس ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے ۔ اس پیکیج کا مقصد ان لاکھوں محنت کشوں اور دیہاڑی دار کارکنوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے جن کی آمدنی اس بحران کے دوران ختم ہو گئی ہے‘ اس ریلیف پیکیج میں وہ دو سو ارب روپے کم آمدنی والے طبقے کے لیے مختص کیے گئے ہیں‘ خصوصاً محنت کشوں کے لیے۔ اس کے علاوہ دو سو اسی ارب روپے گندم کی خریداری کے لیے رکھے گئے ہیں‘ یہ سب کچھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کی جانے والی نمایاں کمی کے علاوہ ہے۔اس پیکیج سے تقریباً پچاس لاکھ لوگ مستفید ہوں گے اور انہیں آنے والے چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جائیں گے۔ مزید برآں حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ بجلی اور گیس کے بل (جو ایک خاص رقم سے کم ہوں) بھی اقساط میں ادا کیے جا سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ برآمد کنندگان نے جو قرض حاصل کر رکھا ہے اُس پر سود کی ادائیگیوں کو بھی عارضی طور پر روک دیا گیا ہے جبکہ سو ارب روپے چھوٹی صنعتوں اور زرعی شعبے کی امداد کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ مزید پچاس ارب روپے یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کو فراہم کیے گئے ہیں تا کہ وہ امدادی قیمتوں پر خوراک کے بنیادی اجزا مثلاًآٹا‘ دالیں‘ چینی اور گھی فراہم کر سکے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ جو اس وبا کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اب ‘ذمہ دار اتھارٹی ہے اسے پچیس ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی پیکیج کے تحت صحت اور کھانے کی اشیا پر ٹیکس ریلیف کی شکل میں پندرہ ارب روپے کی مزید مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ پٹرول ‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کی کمی بھی کی گئی ہے اس کے لیے توانائی فنڈ میں سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔مختصراً یہ کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج ہے‘ جس کا اعلان اس قومی ایمرجنسی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
یقینا یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ ہم تو بمشکل اپنے بجٹ میں مختص کیے گئے اہداف کے لیے رقم فراہم کر پاتے ہیں۔ اس وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے حکومت آئی ایم ایف سے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ ورلڈ بینک سے ایک بلین ڈالر جبکہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے تین اعشاریہ پانچ ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے درخواست کی گئی ہے۔یہ رقم اس نو سو ملین ڈالر سے الگ ہے جو بینک اس سے قبل مختلف منصوبوں کے لیے فراہم کر چکا ہے۔
کیا یہ اقدامات کافی ہوں گے؟ کسی کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ کیا ہمیں پورے ملک میں مکمل کرفیو نافذ کرنا پڑے گا؟ شاید ہمیں ایسا کرنا پڑے۔ کیا اس جزوی لاک ڈائون سے کوروناوائرس کے پھیلائو کو روکنا ممکن ہو سکے گا اور اس دوران دیہاڑی داروں کا چولہا بھی جلتا رہے گا؟ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ لیکن اب تک تو وزیر اعظم صاحب اندرونی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کی پالیسی کا مرکزی نقطہ معاشرے کا نہایت غریب طبقہ ہی ہوگا۔ یہ امر عقلمندانہ ہے یا احمقانہ ‘ اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا‘ ہمیں اس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا ‘کیونکہ اگلے دو ہفتوں میں نتیجہ ہمارے سامنے آ جائے گا اور پاکستان میں کوروناوبا کے پھیلائو اور اس کے اثرات سامنے آنے لگیں گے۔ ہم سب کو اپنے تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کی حکمت عملی کے کامیاب ہونے کی دعا کرنی چاہیے اور دعا گو ہونا چاہیے کہ ہمارا اجتماعی وجود اس وبا کے دہشت ناک اثرات سے محفوظ رہے۔
اختتام پر ان لوگوں کا ذکر کرنا بھی لازم ہے‘ جو قومی جدوجہد کے اس نہایت اہم موڑ پر بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں رہتے۔ جو قومی سیاسی اجتماع(ویڈیو لنک پر) سے علامتی واک آئوٹ کر تے نظر آتے ہیں‘ یہ لوگ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار تمام رقم اپنی بے پناہ دولت کے ایک چھوٹے سے حصے سے فراہم کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ یا وہ صحافی جو اپنا وقت اور توانائیاں اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ وزیر اعظم کو قائل کیا جائے کہ وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھیں۔ لوگ ان حربوں سے آگاہ ہیں‘ جب ایک بار ہم اس وبا سے نمٹ لیں گے تو سیاست کے لیے بھی وقت آ جائے گا۔ اُس وقت تک خود کو خوار مت کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں