"FBC" (space) message & send to 7575

غیر متعلق سے متعلق کا سفر

چہار سو اچھلتے سیاسی کیچڑ اور ہر حدود و قیود سے آزاد سوشل میڈیاکے شور و غوغے میں بطورِ فرد یا قوم اہمیت کی حامل چیزوں کی سمت کھو دینا بڑا ہی آسان ہے۔ متعلقہ چیزوں کا غیر متعلقہ میں اور بامعنی کا فضول چیزوں سے خلط ملط ہو جانا کوئی مشکل نہیں۔آئیے کوشش کریں کہ پاکستان میں چل رہے بحث مباحثوں کے تناظر میں ان میں سے کوئی سود مند چیز نکالیں۔
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ ہر روز سامنے آنے والے ادنیٰ نوعیت کے سیاسی معاملات اور ان کے حوالے سے ہماری جانبدارانہ لڑائیاں۔ یہاں آپ کے لیے حیرت کا کوئی عنصر موجود نہیں‘ یقینا ان میں سے اکثر تنازعے غیر متعلقہ ہیں‘ ایسے معاملات جن کا ہماری روز مرہ زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کی مبینہ نااہلی کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات ہوں یا رانا ثنا اللہ کے چینی کی صنعت بارے تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات یہ ہمارے مندرجہ بالادعوے کی تصدیق کے لیے بہترین مثالیں ہیں۔ اس طرح کے بیانات ہمارے ٹی وی سکرینوں پر جگمگاتے ضرور ہیں لیکن حقیقت میں ان کی وجہ سے ملک میں کسی پالیسی یا پروگرام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیا بلاول کے پاس ملک کو زیادہ بہتر انداز میں چلانے کا کوئی پروگرام موجود ہے؟ کیا ایک فعال سرکاری نظام صحت کے متعلق ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ان کے پاس ایسا کوئی پروگرام یا منصوبہ ہوتا تو یقینا سندھ کی صورتحال اتنی بدتر نہ ہوتی اور نہ ہی 2008-13ء تک کے پیپلز پارٹی کے دور کوملکی تاریخ میں حکومتی نااہلی کے سنگ میل کے طور پر یاد کیا جاتا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چینی کمیشن کے حوالے سے کی جانے والی تنقید میں کوئی وزن ہو سکتا تھا اگر اس میں خلوص کی کوئی رمق ہمیں دکھائی دیتی۔ کمیشن بنانا اور ایمانداری سے اس کی رپورٹ پبلک کرنا اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانا یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کا پی ایم ایل این کے گورننس ماڈل میں دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی ان جماعتوں کی جانب سے سامنے آنے والے یہ جانبدارانہ بیانات بھلے ہی چند لمحوں تک انہیں خبروں میں زندہ رکھنے کیلئے اہم ہوں لیکن کسی مؤثر نتیجے کے تناظر میں بڑی حد تک یہ بیانات غیر متعلقہ شے ہی ہوتے ہیں۔شہباز شریف کے خلاف شہزاد اکبر کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات بارے اس مرحلے پر ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نیا کیا ہے؟ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ہونے والی وہی پریس کانفرنس‘ وہی کراس چیکوں کی گردان‘ برطانوی عدالتوں میں مقدمات کی پرانی دھمکیاں‘ گرفتاری کی کوششیں‘وہی پرانے وکلا اور ان کے آزمودہ دلائل اور وہی نتیجہ۔ ایک دمڑی اب تک وصول نہیں ہوئی‘ کوئی اثاثہ قرق نہیں کیا گیا اور تمام مبینہ کرپٹ عناصر آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں‘ لہٰذا شہباز شریف اور شہزاد اکبر کے مابین ہونے والی یہ کھینچا تانی تو یقینا ایسا معاملہ نہیں جسے قومی اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکے۔
یہ سب کچھ تو چل ہی رہا ہے تو ایسے میں اہم چیز کسے قرار دیں؟ دو چیزیں اہمیت کی حامل ہیں: کووِڈ19کی عالمی وبا اور اس حوالے سے پاکستان کا ردعمل اور خطے میں جاری گریٹ گیم اور بعد از کورونا‘ دنیا میں پاکستان کا چین کے ساتھ اتحاد۔ ہر پہلو اور ہر حوالے سے اس معاملے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حصہ اول: پاکستان کا کورونا وائرس کے حوالے سے پالیسی ردعمل کیا ہے اوردوم: اس عالمی وبا کے حوالے سے پاکستان کا معاشی ردعمل کیا ہے؟ بھاری دل کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ہر معاملہ ناقص و ادھورا ہے۔ جس وقت یہ بلا ہمارے ہمسایہ ممالک میں تباہی مچا رہی تھی اُس وقت ہمارے پاس اس وبا کے مقابلے کے لیے تیاری کاوقت تھا ۔ اس کے باوجود ہم اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی قلیل مدتی اور طویل مدتی پالیسی بنانے میں ناکام رہے۔ ہمارے صوبے اور ادارے اپنے عوام کواحکامات جاری کرتے رہے اور مختلف پالیسی آپشنز کے مابین گھومتے دکھائی دیے۔ اس حکومتی کنفیوژن کے باوجود بھی اس وبا کے پھیلائو میں رکاوٹ کا کوئی امکان تھا بھی تو عید آ گئی۔ نتیجہ‘ آج ہمیں بلند ترین انفیکشن کی شرح کا سامنا ہے اور کنفرم متاثرین کی تعداد میں ہم چین کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اب بھی کچھ وجوہات کی بِنا پر حکومتی پالیسی ساز حلقوں میں ایک اور لاک ڈائون کے امکانات بارے بڑی سخت مزاحمت پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ بہت آغاز ہی میں وزیر اعظم اور ان کے معاونین نے اس بات پر زور دینا شروع کر دیا تھا کہ معاشی وجوہات کی بِنا پر پاکستان طویل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لاک ڈائون کے نتیجے میں جو غربت پھیلے گی وہ مستقبل قریب میں ہماری معیشت کے لیے تباہ کُن ثابت ہوگی۔ شاید یہ دلیل بڑی حد تک قابلِ تسلیم ہے‘ لیکن اس کے باوجود کیا یہ ضروری تھا کہ لوگوں کو عید کی چھٹیوں میں کھلے بندوں پھرنے کی اجازت دی جاتی؟ اب ہم جس انفیکشن ریٹ پر پہنچ چکے ہیں کیا ہماری معیشت اُس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ کیا اُس صورت میں کہ جب ہزاروں لوگ روزانہ انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں ہماری معیشت اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی سکت رکھتی ہے؟ اور فرض کیا کہ دنیا مستقبل قریب میں کورونا وائرس کے لیے ویکسین تیار نہیں کر پاتی تو کیا تب بھی ہم معاشی سرگرمی کے نام پرہزار ہا افراد کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟اس وبا کے فوری اثرات سے ہٹ کر پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بعد از کورونا دور کیلئے منصوبہ بندی ابھی سے کر رکھے۔ اس کے لیے دو سوالوں کے جواب بڑے اہم ہیں: کورونا کے بعد ہماری خطے کے حوالے سے پالیسی کیا ہے؟ یقینا ہم سی پیک کی تکمیل کے لیے پُرعزم ہیں لیکن اگراس خطے میں امریکی مفادات سی پیک سے ٹکراتے ہیں تو کیا ہم امریکہ کے خلاف جانے کے لیے تیار ہیں؟کیا ہم نے اپنے دروازے پر دستک دیتی ہوئی سرد جنگ کے دوران خود پر پڑنے والے دبائو سے بچنے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی تشکیل دے لی ہے؟ اگر مغرب چین سے اپنی راہیں جُدا کر کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ ان ممالک پر بھی پابندیاں عائد کر دے گا جو چین کی حمایت کریں گے تو کیا اس کے باوجود ہم اسی راہ پر چل پائیں گے؟ افغانستان کا کیا ہوگا؟ اب جبکہ ہم نے امریکی فوجی انخلا کے لیے معاہدہ کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا ہے تو اس علاقے میں مستقبل میں ہمارا کردار کیا ہوگا؟ کیا ہم نوے کی دہائی کی پالیسیوں کی جانب لوٹ جائیں گے یا ہمارے پاس کوئی نیا منصوبہ ہے؟ انڈیا مساوات میں جو عدم توازن پیدا کرے گا‘ ہم اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اور انڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کیا ہم خطے میں چین کی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے کسی پرامن حل تک پہنچ سکیں گے؟ یقینا تزویراتی وجوہات کی بِنا پر اس حوالے سے کسی منصوبہ بندی کا اعلان کرنا ضروری نہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے کوئی منصوبہ موجود بھی ہے ؟
بعد از کورونا دنیا کے حوالے سے ہماری داخلی حکمت عملی کیا ہو گی؟ کیا اب بھی ہم حکومتی مشینری میں موجود ادارہ جاتی بد انتظامی کے ہاتھوں لاچار رہیں گے؟ کیا اب بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کسی مربوط قومی پالیسی کی تیاری میں رکاوٹ بنی رہے گی؟ کیا پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں اپنا پروپیگنڈا جاری رکھیں گی؟ کیا بی ایل اے جیسے گروہ سی پیک روٹ کی حفاظت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے؟ کیا چین کے ساتھ ہمارا اتحاد ایسے معاملات کو سہار سکتا ہے؟ کیا قومی سکیورٹی کے معاملات میں ہمارا ردعمل قلیل مدتی جوڑ توڑ کا ہی رہے گا یا آنے والی دہائی میں یہاں ہونے والی خطے کی سرد جنگ کے حوالے سے کوئی وژن/حکمت عملی ہمارے پاس موجود ہے؟یہ بڑے اہم پالیسی سوالات ہیں۔ اور پاکستان کو ان سوالات کے جلد یا بدیر جوابات دینے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں