"FBC" (space) message & send to 7575

کیسی ڈیل آف دی سنچری؟

یکم جولائی دو ہزار بیس سے صدر ٹرمپ کی ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ یا صدی کا منصوبہ، جس کا تعلق مغربی کنارے اور غزہ کی آبادیوں کے اسرائیلی الحاق سے ہے، رو بہ عمل ہو جائے گا۔ اس منصوبے کا اعلان صدر ٹرمپ نے جنوری 2020 میں کیا تھا اور یہ اعلان مشرق وسطیٰ کے قلب میں ''گریٹر اسرائیل‘‘ کے صہیونی خواب کی تکمیل کیلئے ایک کھلی بڑی چھلانگ تصور کیا جا رہا ہے۔ اسے ایک ایسے منصوبے کا چولا پہنایا گیا جو ''اسرائیل کو اس کی مطلوبہ سکیورٹی اور فلسطینیوں کو ان کی مطلوبہ ریاست‘‘ فراہم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کو وعدہ کردہ آزادی مہیا کرے گا اور اس کے نتیجے میں دہائیوں سے اس علاقے میں جاری امریکی سفارتکاری کا چولوں میں لپٹا ہوا دور تمام ہو جائے گا۔ آئیے اس منصوبے پر سیاق و سباق کے ساتھ نظر دوڑاتے ہیں۔
یروشلم (اسرائیل) مقدس صحائف میں تاریخ کے آغاز سے ہی ابراہیمی مذاہب کا قلب رہا ہے۔ ابراہیمی مذاہب کی تمام الہامی کتب... تورات، انجیل اور قرآن پاک... میں یروشلم اور اسرائیل کے بچوں کا حوالہ موجود ہے (اگرچہ قرآن پاک میں لفظ ''یروشلم‘‘ کا ذکر نہیں اور اس میں صرف اس کے آس پاس آباد لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے) یروشلم کے لیے کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ یروشلم کے حصول کے لیے ان گنت لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں اور سب توحیدی مذاہب کی الہامی پیش گوئیوں میں یروشلم موجود ہے۔ امت موسوی کے لیے یروشلم ''موعودہ‘‘ شہر ہے۔ عیسیٰؑ کو یروشلم میں مصلوب کیا گیا۔ اور ہمارے نبی حضرت محمدﷺ (سورہ بنی اسرائیل کے مطابق) معراج کی رات یروشلم سے ہی آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ آج چار ارب لوگوں کے لیے‘ جو کسی نہ کسی حوالے سے ابراہیمی مذاہب سے جڑت رکھتے ہیں‘ یروشلم اور اسرائیل ان کے مذہبی عقائد، تاریخ اور الہام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ 
مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی اسلام اور یروشلم کے مابین ربط و ضبط شروع ہو گیا تھا۔ چھ سو چھتیس عیسوی میں دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر ؓ کے دور میں مسلم افواج نے یروشلم شہر کا محاصرہ کر لیا (اُس زمانے میں یہ شہر بازنطینی سلطنت کے حکمران سوفرونیس کے قبضے میں تھا)۔ اگلے برس، چھ سو سینتیس عیسوی میں بازنطینیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یروشلم شہر اور اسرائیل‘ دونوں مسلمانوں کے زیر نگین آ گئے۔ 
آج کے زمانے کے اسرائیل کے حدود پر مسلمانوں کے اقتدار کو چار سو پچاس برس تک کسی نے چیلنج نہ کیا۔ پھر 1099ء میں یورپ سے تعلق رکھنے والے رومن کیتھولک صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اس سرزمین پر مسیحیوں کا یہ قبضہ سو برس بھی قائم نہ رہ سکا؛ اور 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کا محاصرہ کر لیا اور آئبلین کے بلیان کو مسلمان فاتحین کے سامنے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اہم ترین بات یہ کہ اس فتح کے دوران خون کی ندیاں نہیں بہائی گئیں اور شہر کی تمام مسیحی و یہودی آبادی کو مسلمان حکمران کی جانب سے یہیں مقیم رہنے کی صورت میں حفاظت کی یقین دہانی یا مرضی سے پُرامن طور پر شہر چھوڑ کر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ اس علاقے پر اسلام کے آٹھ سو سالہ تسلط کا آغاز تھا جس دوران یہ شہر مختلف ادوار میں مختلف اسلامی سلطنتوں کے زیر نگین رہا۔ اس کے علاوہ یہ ہوا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام (جسے انگریزی میں صلا دین کہا جاتا ہے) ہمیشہ کے لیے یہودی و عیسائی یادداشت میں ثبت ہو گیا۔
تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے عہد جدید میں آ جاتے ہیں خصوصاً جب پہلی جنگ عظیم میں مسلم خلافت شکست سے دوچار ہوئی اور اس کے بعد 1948ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مملکتِ اسرائیل وجود میں آئی۔ آج کے زمانے میں موجود ملکی بندوبست، جس کے تحت مشرق وُسطیٰ کے علاقے میں ملکوں کو یہ شکل ودیعت ہوئی ہے، مغربی اتحادی قوتوں کی منشا و مرضی سے تشکیل پایا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا‘ آخر کو یہ اتحادی دو عظیم جنگوں کے فاتح تھے۔ یہ نو تشکیل شدہ مسلم ریاستیں اپنے کرپٹ حکمرانوں کے تحت نئے ورلڈ آرڈر پر راضی ہو گئیں؛ یروشلم کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے کچھ ڈھیلی ڈھالی کاوشیں کی گئیں‘ لیکن ان سے کچھ حاصل وصول نہ ہو سکا۔ اس علاقے کے لوگوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر ترک وطن کریں اور غیر سرزمینوں پر قائم مہاجر بستیوں میں جا بسیں، جہاں رہتے ہوئے ان پر کوئی پابندی نہ تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز زیتون کے درختوں والی اپنی اُس مادر و طن کو واپس لوٹنے کے خواب دیکھیں‘ جہاں آج کا جدید اسرائیل قائم ہو چکا ہے۔ اس نسلی امتیاز کے سبب عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں اور بارہا فلسطینی نوجوانوں نے انتفادہ کا آغاز کیا۔ ان تحاریک کا بہترین مظہر وہ تصاویر ہیں جن میں فلسطینی بچے اسرائیلی آرمرڈ گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس اذیت ناک دور میں، یکے بعد دیگرے مختلف امریکی حکومتوں کے دبائو کے باوجود، عالمی برادری نے کبھی بھی شہر یروشلم اور اس کے گرد و نواح پر اسرائیلی قبضے کو کلی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل نے مغربی یروشلم پر تو اپنے قیام کے تقریباً فوری بعد، 1948ء میں ہی قبضہ جما لیا تھا۔ بعد ازاں 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا اور اسّی کی دہائی میں اس نے شہر کے مشرقی حصے کا الحاق بھی کر لیا۔ عالمی برادری کا بڑا حصہ الحاق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس معاملے کی حساسیت کے مدِ نظر اور عالمی قوانین میں موجود اختلافی نکات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دنیا کے کسی بھی ملک نے یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافے کے طور پر قبول نہیں کیا۔ لیکن یہ اُس وقت تک تھا جب تک ٹرمپ برسر اقتدار نہ آیا تھا۔
2017ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کے حوالے سے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کے اس اعلان پر عالمی برادری کی جانب سے بڑی شدید تنقید کی گئی؛ تاہم مسلم برادری نے‘ جس میں اکتالیس ملکوں کا عسکری اتحاد بھی شامل ہے‘ بڑی حد تک بے ہمتی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس اعلان پر کسی قابل ذکر رد عمل کا اظہار تک نہیں کیا۔ مسلم دُنیا کے اس کمزور سے رد عمل نے ٹرمپ انتظامیہ کو مزید ہلا شیری دی اور انہوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھا کر اس سال کے آغاز میں اپنی اس (شرمناک) ڈیل آف دی سنچری کا اعلان کر دیا۔ اب ان کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی؛ تاہم الوہی مداخلت کی بدولت گزشتہ چند ماہ میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں کہ دُنیا اب پہلے جیسی رہی نہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے لے کر آج تک کی اپنی کمزور ترین پوزیشن (عالمی سطح ) پر کھڑا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان دُنیا نے خود کو ٹرمپ انتظامیہ سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا آغاز مذکورہ ڈیل کی اُردن کی جانب سے سخت ترین مخالفت سے ہوا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات، قطر، پھر شام اور مصر نے بھی اس کی مخالفت کر دی‘ اور اب اچانک ہی ''گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے صہیونیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے ابتدائی قدم ہی لڑکھڑاتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ خود ٹرمپ انتظامیہ کے اندر سے ہی ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں جو چاہتی ہیں کہ اس منصوبے کو ترک کر دیا جائے (یا کم از کم فی الوقت اسے ملتوی کر دیا جائے) ۔
پاکستان کو ہر صورت میں اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیلی توسیع پسندی کی مخالفت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ وہ لمحات ہیں جن کی بازگشت ہمیشہ تاریخ میں سنائی دیتی ہیں۔ ان نا گہانی لمحات میں جو کوئی بھی خاموش یا غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دیتا ہے، آنے والی صدیوں میں اس کی صدائوں پر بھی کوئی کان نہیں دھرتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں