"FBC" (space) message & send to 7575

چاہ بہار میں انڈیا کی ہزیمت

گزشتہ دنوں انڈیا کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایک غیر معمولی نوعیت کا دھچکا لگا جب ایران نے اعلان کردیا کہ وہ انڈیا کو چاہ بہار‘ زاہدان ریلوے لائن منصوبے سے ''نکال‘‘ رہا ہے۔ یہ خبر پاکستان کے سکیورٹی اور معاشی مفادات کے حوالے سے اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ نظر انداز کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا نے چاہ بہار کے حوالے سے جو معاہدہ کیا تھا وہ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی، خطے کے دیگر ممالک سے اس کے گرمجوش تعلقات اور معاشی خوش حالی کیلئے ایک طویل مدتی خطرہ تھا‘ اور کوئی شک نہیں کہ چاہ بہار منصوبے سے ''اخراج‘‘ خارجہ /تزویراتی پالیسی کے حوالے سے انڈیا کو پہنچنے والی سب سے بڑی زک ہے۔جی ہاں، یہ لداخ میں اپنا علاقہ کھو دینے سے بھی بڑی شکست ہے۔
آئیے کوشش کرتے ہیں کہ ہم چاہ بہار معاہدے اور پاکستان اور خطے پر پڑنے والے اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جانیں کہ انڈیا نے اس ہزیمت کی شکل میں کیا کچھ کھو دیا ہے۔ 2016 میں، جب ابھی پاکستان سی پیک منصوبے کے حوالے سے سوچ رہا تھا‘ انڈیا نے ایران اور افغانستان کے ساتھ نہایت اہمیت کے حامل ایک معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیرکر کے اسے افغانستان سے بذریعہ ریل منسلک کرے گا۔یہ انڈیا کا وہ جواب تھا جو اس نے سی پیک کے حوالے سے دیا تھا؛ اگر یہ روٹ بن جاتا تو انڈیا پاکستان سے گزرے بغیر وسطی ایشیاء و یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ انڈیا نے فوری طور پر چاہ بہار میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا‘ لیکن چاہ بہار سے منسلک دوسرے منصوبوں پر، جن میں چاہ بہارزاہدان ریلوے لائن بھی شامل تھی، انڈیا کی جانب سے غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ امریکہ سے چاہ بہار منصوبے کو ''پابندیوں سے مستثنا‘‘ منصوبے کا سٹیٹس ملنے کے باوجود انڈیا نے اس حوالے سے بزدلی دکھائی اور اس منصوبے کیلئے وعدہ کردہ مالی وسائل مہیا نہیں کیے۔ امریکی پابندیوں کے خود ساختہ خوف،مالی وسائل مہیا کرنے میں تاخیراور بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی آڑ میں بھارت اپنی بزدلی چھپاتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہو گیا کہ انڈیا ایران میں تزویراتی نوعیت کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے زیادہ چاہ بہار کو اپنی (جاسوسی) سرگرمیوں کا مرکز بنانے میںدلچسپی رکھتا ہے۔ انڈیا ایرانی حکام کو لارے لپے لگانے سے کام نکالنے کا خواہاں تھا لیکن باقی لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھے تھے، چین نے موقع غنیمت جانا اور اس سے فائدہ اٹھا لیا۔ اس ہفتے نیو یارک ٹائمز کے ذریعے سامنے آنے والی دستاویزات سے یہ بات کھل گئی کہ ایران اور چین پچیس برس کے ایک جامع منصوبے پر دستخط کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چین ایران میں انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں میں چار سو بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس مجوزہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے بعد ایران نے انڈیا کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدے کو ختم کر کے انڈیا کو تزویراتی نوعیت کے طے شدہ معاہدہ سے ''نکالنے‘‘ کا فیصلہ کر لیا ۔ یہ معاہدے ایران اور چین کے مابین قائم ہونے والی تزویراتی ساجھے داری کے منصوبے کا حصہ ہوں گے۔
اب ایران و چین کے مابین ہونے والے مجوزہ معاہدے کے حقیقی اثرات کہاں تک پہنچیں گے اور اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ مادی و تزویراتی اعتبار سے دیکھا جائے تو انڈیا کو اس کا کتنا بھگتان کرنا پڑے گا؟اول: انڈیا افغانستان اور پھر اس سے آگے وسطی ایشیا اور یورپ تک کے قیمتی روٹ سے محرومی کی نہج پر پہنچ گیا ہے۔ ان خطوں میںانڈیا نے اپنی تجارت کے فروغ کا جو خواب دیکھا تھا، اور اس کے نتیجے میں دُنیا میں چین کی متبادل فیکٹری بننے کا خواب بھی، اب تار تار ہو گیا ہے۔ چاہ بہار اور اس کے بعد افغانستان تک ریل روٹ سے محرومی نے انڈیا کو وسطی ایشیا اور یورپ سے دور کر دیا ہے۔ اب ان خطوں تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی تجارتی یا سرمایہ کاری کا راستہ صرف پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر انڈیا ایسا نہ کرنا چاہے تو اسے اُس وسیع عالمی بحری روٹ کا انتخاب کرنا پڑے گا جو افریقہ کے گرد گھوم کر یورپ تک پہنچتا ہے جو نہ صرف غیر معمولی طور پر مشکل بلکہ مہنگا راستہ ہے؛ تاہم یہ بات یہ بھی یاد رہنی چاہیے کہ ایسے کسی منصوبے کے متشکل ہونے اور پھر کئی ممالک کے ساتھ ٹھوس شکل میں سامنے آنے کیلئے اس طرح کام کرنا پڑے گا کہ یہ چین کے ساتھ الجھے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔ موجودہ صورتحال میں ایسی توقع رکھنا بہت ہی غیر حقیقی سی بات دکھائی دیتی ہے۔ دوم: انڈیا کا یہ خواب کہ وہ پاکستان کو ''نظر انداز‘‘ کر کے براہ راست ہماری مغربی سرحدوں اور ان سے پرے موجود ممالک کے ساتھ روابط استوار کر سکے، اب یہ خواب بھی چکنا چور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کو ''نظر انداز‘‘ کرنے کا مقصد حاصل کرنا انڈیا کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ رہا ہے۔ چاہ بہار سے نکلنے کے بعد وسطی ایشیا اور اس سے آگے تک انڈیا کی رسائی کا خواب ٹوٹ گیا ہے اور پاکستان کو ''تنہا‘‘ کرنے کا مقصد بھی حاصل نہیں ہو پائے گا۔ سوم: چاہ بہار کی موجودگی میں وسطی ایشیاء اور یورپی ممالک پاکستانی سی پیک کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں آ جاتے اور مشرقِ وسطیٰ میں موجود تیل کے ذخائر تک رسائی کیلئے ان کے پاس بحر ہند کی تجارتی گزرگاہ کے ساتھ ساتھ ایک اور تیز رفتار روٹ بھی موجود رہتا۔ چہارم: صرف یہی نہیں تھا کہ چاہ بہار کا روٹ سی پیک کو معاشی طور پر نیچا دکھانے کیلئے تعمیر کیا جانا تھا بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی یہاں سے بیٹھ کر بلوچستان میں بہ آسانی مداخلت کی جا سکتی تھی۔ پنجم: بی ایل اے کے لڑاکوں سے ہٹ کر بھی انڈیا کو امید تھی کہ اس کا چاہ بہار آپریشن پاکستان میں امن و امان اور سکیورٹی کی مجموعی صورتحال کو خراب کرنے میں معاون ہوگا۔ ششم: چاہ بہار اور اس سے منسلک روٹ کی تکمیل کا مقصد افغانستان میں انڈیا کے مفادات کی تکمیل بھی تھا۔ خاص طور پر چاہ بہار کے ذریعے انڈیا ، سارے افغانستان میں موجود اپنی پراکسیز کی مالی و مادی مدد کر سکتا تھا۔افغانستان میں موجود تمام انڈین قونصلیٹ میں تعینات عملہ اور وسائل پاکستان کی بری، ہوائی یا بحری حدود سے گزرے بغیر وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اب یہ سب کچھ مزید نہیں ہو پائے گا۔ ہفتم: چاہ بہار کی وجہ سے انڈیا کو یہ موقع مل جاتا کہ وہ گوادر سے سو کلو میٹر سے بھی کم دوری پر اپنی بحریہ تعینات کر سکتا تھا‘ اور اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا انڈیا اس ''تزویراتی گہرائی‘‘ کو پاکستان کی بحری سرحدوں کیلئے ایک مستقل خطرے سے دوچارکرنے میں کامیاب رہتا۔ ہشتم: چاہ بہار بندرگاہ انڈیا کو خلیج فارس کے دہانے پر معاشی اور عسکری موجودگی مہیا کرنے کا سبب بنتی جہاں سے دُنیا بھر میں استعمال ہونے والا تقریباً ستر فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہ موجودگی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، عالمی تجارت میں انڈیا کو بڑا کھلاڑی بنا دیتی اور عالمی معیشت میں اس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل بن جاتا۔ اور مزید یہ کہ ایسی موجودگی کے طفیل خطے میں انڈیا کی بالادستی اور عالمی سطح پر ''چین کو محدود‘‘ رکھنے کے اس کے وعدے کی تکمیل میں نہایت ہی اہم ثابت ہوتی۔ ایرانی انفراسٹرکچر منصوبوں سے نکال باہر کیے جانے کے بعد اب ایسا کوئی بھی مقصد قلیل و وسط مدت میں حاصل ہونا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔
ایران کا یہ فیصلہ کہ وہ چاہ بہار سے انڈیا کو ''نکال‘‘ دے گا اور چین کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو وسعت دے گا نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے سے آگے تک اثر انداز ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں چین کی جانب سے کی جانے والی (مجوزہ) کئی مداخلتوں میں سے پہلی مداخلت ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقینا اس سے خطے میں طاقت کا توازن بدل جائے گا اور اس کے بعد ''چین کی صدی‘‘ کا خواب تکمیل کے مزید قریب پہنچ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں