"FBC" (space) message & send to 7575

تنازع کشمیر کے آئینی و قانونی پہلو

5 فروری کو پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے یوم کشمیر کے حوالے سے اپنی اپنی ریلیاں منعقد کیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ ہر سیاسی جماعت (اور خصوصاً پی ڈی ایم کے ممبران) نے 550 دن سے جاری کرفیو کے تحت زندگی بسر کرنے والے جموں و کشمیر کے 14 ملین افراد کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے بارے میں تعمیری بحث میں حصہ لینے کے برعکس اس موقع کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کیا۔
اگرچہ چھوٹے چھوٹے معاملات پاکستان میں سیاسی گفت و شنید کا معمول بن چکے ہیں، لیکن ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یومِ کشمیر پر مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں کوئی تعمیری تجویز کیوں پیش نہیں کی؟ جزوی طور پر اس لئے کہ پاکستان میں زیادہ تر (اگر سارے نہیں) سیاسی رہنما تاحال یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ 5 اگست 2019 کو آئینی حوالوں سے کیا کچھ رونما ہو چکا ہے۔ اس نا سمجھی کے ازالے کیلئے آئیے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے معاملے سے متعلق فریم ورک کا جائزہ لیتے ہیں۔
کشمیر کا بھارت کے ساتھ غیر قانونی انسلاک ایک صدارتی آرڈر (سی سی او 272) کے ذریعے کیا گیا، جس نے جموں و کشمیر کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ معنوی طور پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کر دیا گیا۔ آرٹیکل 370 کیا تھا اور اس سے اتنا فرق کیوں پڑا؟ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ایک ایسی شق تھا‘ جس نے جموں و کشمیر کے خطے کو خصوصی خود مختارانہ حیثیت دی تھی، اور بھارت کے ساتھ انسلاک کی بنیاد اس وقت بنائی تھی جب 1947 میں آزادی کے بعد اس پرنسلی سٹیٹ کے پاس پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب موجود تھا۔ آرٹیکل 370‘ 1949 میں وضع کیا گیا، جس نے جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو اس کے قیام کے بعد بااختیار بنایا تاکہ وہ اس بات کا انتخاب کر سکے کہ بھارتی آئین کی کون سی شقیں مقبوضہ جموں و کشمیرپر لاگو ہو سکتی ہیں، اور مذکورہ اسمبلی کو اس امر کی اجازت بھی دی گئی کہ اس کے بجائے بھارتی آئین کو مکمل طور پر منسوخ کر دے اور مکمل خود مختارانہ حکمرانی کا انتخاب کر لے۔
اس فریم ورک کے اندر، جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی سے مشاورت کے بعد 1954 میں بھارت نے ایک صدارتی آرڈر جاری کیا، جس کے تحت بھارتی دستور میں آرٹیکل 35A متعارف کرایا گیا۔ اس سے کشمیر کی مقامی مقننہ کو خطے کے مستقل باشندوں کا تعین کرنے، بھارتی آئین کے کشمیر سے متعلق آرٹیکلز کی تخصیص کرنے، اور کشمیر کو مالیات، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام معاملات میں اپنے قوانین بنانے کی اجازت مل گئی۔ آرٹیکل 35 اے، جسے مستقل رہائشی قانون کہا جاتا ہے، نے غیر کشمیری افراد کے کشمیر میں زمین خریدنے یا کشمیر میں مستقل طور پر آباد ہونے پر پابندی عائد کردی، جبکہ ریاست سے باہر شادی کرنے کی صورت میں کشمیری خواتین کو بھی جائیداد رکھنے کے حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ ان آئینی شقوں کی روشنی میں، جموں و کشمیر کے خطے کا اپنا آئین، اس کا اپنا جھنڈا، شہریت اور خطے کے داخلی انتظامی امور میں خود مختاری تھی، جبکہ بیرونی افراد کو جموں و کشمیر میں جائیداد رکھنے کے حق سے محروم کیا گیا تھا۔
خلاصہ یہ کہ اس آئینی انتظام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کشمیر پر بھارت کا آئینی کنٹرول صرف ایک حد تک ہو، جبکہ اس طرح کی غیرواضح صورتحال میں کشمیری عوام نے (اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے) حق حکمرانی قبول کیا۔ کشمیریوں کے اس 'انتخاب‘ کو جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے استعمال کیا گیا اور اس سے خطے میں بھارت کی موجودگی کی واحد اخلاقی اور آئینی اساس تشکیل پائی۔ بھارتی آئینی ڈھانچے کے اندر، آرٹیکل 370 اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات (تکنیکی طور پر) کو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی اجازت سے ختم کیا جا سکتا تھا؛ تاہم کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کو 1957 میں تحلیل کر دیا گیا، جس سے آرٹیکل 370 اور اس کے اثرات فطری طور پر مستقل ہوگئے۔ یہ ہمدردانہ تجزیہ یا رائے نہیں ہے‘ درحقیقت، بھارت کی سپریم کورٹ نے، 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ آرٹیکل 370 نے ''مستقل حیثیت حاصل کرلی ہے جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ ناممکن ہے‘‘۔ بہرحال، ریاستی حکومت کی غیر موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے، صدارتی احکامات کی ایک سیریز کے ذریعے، مودی کی انتہا پسند حکومت نے 2018 میں آرٹیکل 370 کی تحریر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ''آئین ساز اسمبلی‘‘ کو ''قانون ساز اسمبلی‘‘ کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اگر آرٹیکل 370 میں اس ترمیم کو جائز سمجھا جائے کہ ریاست کی آئینی حیثیت میں کسی تبدیلی کیلئے کشمیر کی ''دستور ساز اسمبلی‘‘ کے بجائے ''قانون ساز اسمبلی‘‘ کی رضامندی کی ضرورت ہے‘ تو بھی مودی حکومت اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکی۔ جون 2018 میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا‘ اور 18 دسمبر، 2018 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 356 کے تحت صدر راج نافذ کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 (p) میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ''صدر، عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے، یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ اس آرٹیکل کا نفاذ ختم ہو جائے گا‘‘ یا ''مستثنیات اور ترامیم‘‘کے ساتھ آپریٹو ہو گا؛ تاہم، اس مقصد کیلئے ''صدر کے اس طرح کے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے‘‘ ''ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی سفارش‘‘ ضروری تھی۔ فوری معاملہ یہ تھا کہ چونکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کام نہیں کر رہی تھی، اس لئے صدر نے محض اپنے مقرر کردہ گورنر جموں و کشمیر سے مشورہ کیا۔ اس طرح، یہ مشاورت نہ تو معنی خیز تھی، اور نہ ہی اس طرح کی مشاورت کشمیری عوام کی آواز کی نمائندہ تھی۔ بھارتی صدر نے خود سے مشورہ کیا اور کشمیری عوام کی ''اجازت‘‘ کے مقاصد کیلئے اسے کافی سمجھا۔
مختصراً یہ کہ مودی کی ہندوتوا حکومت نے کم سے کم 14 ملین کشمیریوں کے جمہوری حقوق چھین لئے، اس طرح بھارت کے ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کے دعوے کا مکمل مذاق اڑایا گیا۔ مزید برآں، مودی کی حکومت نے اس خطے کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تقسیم کر دیا، بشمول بدھ اکثریتی لداخ کے جہاں شیعہ مسلمانوں کی کافی آبادی ہے۔ تو کیا آرٹیکل 370 کی معطلی کشمیر کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اب بھارت خطے میں غیرقانونی قبضہ کرنے والی طاقت ہے؟ کیونکہ کشمیر میں بھارتی موجودگی کے جواز کو توثیق خود آرٹیکل 370 سے ملتی ہے، اور کشمیری عوام کی (جزوی) رضامندی سے، جس کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
کشمیر میں پاکستان کے مفادات تین طرح کے ہیں:1 :گزشتہ 70 سالوں میں کشمیر کی سرزمین پر ہمارے بہت سے شہدا کا لہو بہتا رہا ہے۔ 2: کشمیر ایک ایسی قوم یا ملک ہے (بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اسے یہی نام ملنا چاہئے) جو پچھلی سات دہائیوں میں ہر حوالے سے ہمارے قریب رہا ہے۔ اور 3: یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے دریاؤں، جو ہمارے ملک اور قوم کی ایک لائف لائن ہے‘ کے منابع واقع ہیں۔ اور بی جے پی کی قیادت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اسے خشک سالی کا شکار بنایا جا سکے ۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ اگر آپ کو یزید کے بیان کی طرح محسوس ہو تو، اس احساس کے حوالے سے آپ اکیلے نہیں ہیں۔ اور اسی مشابہت کی وجہ سے، کربلا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ، ایسے حالات میں 'خون کے آخری قطرے‘ تک جنگ لڑنا ناگزیر ہی نہیں‘ قابلِ فخر بھی ہوتا ہے۔
ہمارے سیاسی قائدین (برسرِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ دونوں ) کشمیر کے آئینی سانچے کے تحت اچھا کام کریں گے۔ سیاسی بیان بازی ایک طرف‘ صرف بنیادی قانونی امور کی تفہیم کے ذریعے ہی پاکستان کے سیاسی رہنما کشمیری عوام کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں