"FBC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ

گزشتہ دنوں پاکستان نے 'اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ‘ (آئی ایس ڈی) کا انعقاد کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا دو روزہ سکیورٹی سمپوزیم تھا۔ اس کا اہتمام قومی سلامتی ڈویژن نے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے قومی سلامتی و تزویراتی پالیسی ڈاکٹر معید یوسف کی نگرانی میں کیا۔ ڈاکٹر معید یوسف کے الفاظ میں، اس ڈائیلاگ کا مقصد پاکستان کی ''جامع سکیورٹی فریم ورک پر مبنی نئی سٹریٹیجک ڈائریکشن‘‘ کی نقاب کشائی کرنا تھا‘ جو پوری دنیا میں ''علاقائی رابطے اور ڈویلپمنٹ پارٹنرشپ‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس ڈائیلاگ کے ذریعے‘ جو ایک مستقل ایونٹ بن سکتا ہے‘ پاکستان ''عوامی دانشوروں اور پالیسی سازوں کے مابین روایتی خلیج‘‘ کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، جبکہ اپنی پرامن علاقائی اور عالمی امنگوں کیلئے ایک نیا راستہ بنائے گا۔
تازہ فکر یہ ہے کہ یہ 'سکیورٹی ڈائیلاگ‘ پاکستان کے 'قومی سلامتی‘ کے روایتی تصورات سے آگے بڑھے۔ اس بار ماہرین نے سکیورٹی کے ایک الگ‘ زیادہ متناسب تصور پر تبادلہ خیال کیا‘ جو معاشی فروغ‘ پھیلتی ہوئی تکنیکی ترقی، علاقائی رابطے، علم سے وابستگی اور سیاسی استحکام تک پھیلا ہوا ہے۔ قومی سلامتی کے بارے میں اس نئی فہم کا اظہار جناب آرمی چیف کے خطاب میں ہوا۔ 'سکیورٹی‘ کی یہ تفہیم پاکستان کے قومی سطح پر بیانیہ میں ایک زبردست تبدیلی ہے۔ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان اب ماضی کے کسی دور میں نہیں رہتا، جہاں ہماری قومی سلامتی کی پالیسی کو 'اچھے‘ اور 'برے‘ عسکریت پسندوں کے درمیان فرق کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ کئی دہائیوں کے خوفناک تشدد، ناقابل تسخیر معاشی نقصان اور ایک آلودہ بین الاقوامی امیج کے بعد، پاکستان نے بالآخر اکیسویں صدی کے ساتھ قدم ملانے والے قومی سلامتی کے نظریہ کو اپنانے کیلئے ایک نیا موڑ مڑا ہے۔
آئی ایس ڈی کے ذریعے بیان کردہ پاکستان کا یہ نیا اور جامع سلامتی کا بیانیہ ایک 'جغرافیائی و اقتصادی‘ وژن پر مبنی ہے، جو تین مرکزی ''بنیادی ستونوں‘‘ پر محیط ہے:1: ''اندر اور باہر پائیدار امن کی طرف بڑھنا‘‘؛ 2: ''پڑوسی اور علاقائی ممالک کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی عدم مداخلت‘‘؛ 3: ''علاقائی سطح پر تجارت اور رابطے کو فروغ دینا‘‘۔
یہ آخری پہلو، جو خطے میں معاشی ''رابطے‘‘ پر مرکوز ہے، شاید پاکستان کی نئی سکیورٹی ڈاکٹرائن کا سب سے نازک اور اہم پہلو ہے۔ سی پیک کا شمال مغربی روٹ ''ہمارے معاشی تبدیلی کے منصوبے کا مرکز‘‘ رہے گا جبکہ اب پاکستان اس منصوبے کو وسطی اور مغربی ایشیا سے بھی منسلک کرنے کا خواہش مند ہے۔ وہ یہ کام ایسٹ ویسٹ پاتھ ویز کے ذریعے ''توانائی اور تجارت کے کوریڈور میں ایک پارٹی‘‘ کی حیثیت میں کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ مغربی ممالک تک سی پیک کو وسعت دینے کے اس تصور میں (مشرق کی جانب پیشرفت ناممکن لگتی ہے)، 'افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کو ازسر نو شکل دینا‘ اور 'مشرق کی طرف مزید کوریڈور کھولنا‘ جیسے معاملات شامل ہیں۔ معاشی تحفظ کی یہ نئی ڈاکٹرائن، جسے آئی ایس ڈی کے ذریعے بیان کیا گیا ہے، پاکستان کے بہتر اور روشن مستقبل کا وعدہ کرتی ہے؛ اگرچہ اس نظریے کے نفاذ کیلئے مستقل سیاسی عزم اور سازگار داخلی ماحول کی ضرورت ہوگی؛ تاہم یہ کوشش بجائے خود قابل تعریف ہے۔
دنیا بدل رہی ہے اور پاکستان کو اس کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بین الاقوامی پالیسی اور علاقائی حکمت عملی پاکستان کیلئے چیلنج رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی صورتحال، اور افغانستان میں جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی طاقتوں نے پاکستان کو 'عالمی دہشتگردی‘ (ٹرمپ کے الفاظ میں) کی عینک سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ پھر پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف اپنی داخلی جنگ لڑنا پڑی، جس نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں اور ہمیں اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
اسی دوران معاملات کوبدتر بنانے کیلئے پاکستان کے 'دشمنوں‘ نے (ہمسایہ ملک بھارت کی سربراہی میں) واشنگٹن کے حلقوں میں یہ لابنگ کی کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنے وژن پر نظرثانی کریں۔ یہ دلیل دی گئی کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کو 'جنوبی ایشیا‘ یا 'برصغیر‘ کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ اس کے بجائے، واشنگٹن کو پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں دیکھنے کیلئے قائل کیا گیا۔ واشنگٹن میں بھارت کی لابنگ کا اولین نتیجہ یہ نکلا کہ 2008 میں امریکی پالیسی میں ایک ٹیکٹونک تبدیلی شروع ہوئی، جب خطے میں صدر اوبامہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ جوڑ کر ''افپاک‘‘کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردی۔ یہ اصطلاح خطے کی سیاسی و عسکری صورتحال کیلئے استعمال کی گئی‘ جس میں خطے میں 'دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کیلئے مشترکہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ظاہر کی گئی۔اس سے بھی اہم یہ ہے کہ امریکہ (جو اس وقت واحد سپر پاور تھی) کی طرف سے 'افپاک‘ پالیسی کی تعارف کے ساتھ، بھارت نے خود کو پاکستان سے الگ کر لیا اور بین الاقوامی سٹیج پر سرسبز چراگاہوں کی تلاش میں نکل گیا۔ بھارت کو پینٹاگون کے سکیورٹی ڈائیلاگ کا حصہ بنا لیا گیا‘ جو 2007 میں تشکیل دیا گیا تھا، اور جو آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ پر مشتمل تھا۔
پاکستان اب بھی نئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوششوں میں مصروف ہے جبکہ بھارت نے اپنے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر، اس نے خود کو اس خطے میں چین کے مدِمقابل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ٹھوس اقدام 30 مئی 2018 کو اس وقت آیا جب اس وقت کے امریکی وزیر دفاع (جم میٹس) نے اعلان کیا تھاکہ پینٹاگون کے پیسیفک کمانڈ کا نام بدل کر 'انڈوپیسیفک کمانڈ‘ رکھا گیا ہے۔ اس طرح بحرالکاہل کے تھیٹر پر چین کا زور توڑنے کیلئے بھارت کو بڑا کردار مل گیا۔ یہ واشنگٹن میں ایک اہم پالیسی تبدیلی تھی‘ اس بات کی علامت کہ دہلی نے پینٹاگون کو باور کرا دیا ہے کہ وہ بحرالکاہل کے خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے کام کر سکتا ہے، اور خطے میں چین کے معاشی مفادات‘ خصوصی طور پر سی پیک پروجیکٹ کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ یہ بھارت کی طرف سے گلگت بلتستان میں دراندازی اور سی پیک کے سپلائی روٹ میں خلل ڈالنے کی کھلی دھمکی تھی۔ تاہم، سالِ گزشتہ نے بھارت کے فریب کو بے نقاب کر دیا کیونکہ چین نے پینگونگ جھیل اور وادی گلوان میں اہم مقامات پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے بھارت کے زیر قبضہ لداخ کی سرحدوں کو عبور کر لیا تھا۔ بھارت کوئی قابلِ ذکر مزاحمت نہ کر سکا۔ اس کے بعد، نیپال نے بھی بھارت کی حدود میں واقع علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ معاملات کو بھارت کیلئے مزید گمبھیر بناتے ہوئے چینی بحر ہند (گوادر سمیت) میں اپنا اثرورسوخ (اور فوجی موجودگی) بڑھا رہے ہیں، جبکہ بھارت کی جانب سے انہیں کوئی خاص چیلنج پیش نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، بھارت کے قریب بہت سے علاقے (جیسے سری لنکا) میں وہ جگہیں ہیں جہاں چینیوں نے طویل مدتی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اور وہاں ان کا کنٹرول بھی ہے‘ چنانچہ بھارتی بحریہ کی ناکہ بندی ہو سکتی ہے۔ اور بھارت کی جانب سے کواڈ (یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان) کے اتحادیوں کو ان معاملات میں شامل کرنے کے حوالے سے کوششیں صدابصحرا ثابت ہوئی ہیں۔ اس نئے اور متحرک علاقائی/ عالمی ماحول میں، پاکستان کو اپنی جگہ بنانے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں آئی ایس ڈی ایک اہم اقدام تھا۔ البتہ اصل چیلنجز ابھی آگے ہیں‘ جن میں سب سے اہم پاکستان کا یہ عزم ہوگا کہ آئی ایس ڈی میں جو کچھ کہا گیا اس پر عمل درآمد کیا جائے‘ اور اس کیلئے ہمارے ریاستی اداروں اور سیاسی کارکنوں کو چھوٹے چھوٹے معاملات ایک طرف رکھتے ہوئے متحد ہونا ہو گا تاکہ مستقبل کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامی جا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں