"FBC" (space) message & send to 7575

انائوں کا ضمنی انتخاب

ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ آ چکا۔ سیاسی اہمیت کے حامل اس عمل نے معمول کے مطابق پاکستان کی تقریباً پوری سیاسی و میڈیا مشین کی توجہ اپنی طرف مبذول کئے رکھی۔ الیکشن میں دائو پر کیا چیز تھی؟ زیادہ تر، کچھ بھی نہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ مقابلہ کرنے والے امیدواروں/ پارٹیوں میں سے ایک نے پارلیمنٹ میں ایک نشست جیت لی اور بس۔ اس سے قطع نظر کہ کون جیتا، ہمارے جمہوری حکمرانی کے ایوانوں میں طاقت کے توازن پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس سے قطع نظر کہ کون جیتا، ڈسکہ کے عوام پہلے کی طرح زندگی کی روزمرہ کی پریشانیوں کا سامنا کرتے رہیں گے‘ انتظامیہ اسی طرح کام کرتی رہے گی جیسا ہمیشہ کرتی رہی ہے‘ اور پاکستان کو اس الیکشن کے نتیجے میں قومی ترجیحات یا پالیسیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔
پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کی یہ بے حسی، جو اکثر منتخب خاندانوں کی ذاتی داستانوں تک چلی جاتی ہے‘ محض ڈسکہ تک محدود نہیں۔ 'ہائی پروفائل‘ الیکشن‘ جیساکہ سینیٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کا انتخاب‘ بھی سیاسی بے حسی کے اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جن کے نتیجے میں پاکستانی عوام کو کوئی معنی خیز تبدیلی یا اثر نہیں ملا۔
ایک لمحے کیلئے ڈسکہ واپس چلتے ہیں۔ اس ضمنی الیکشن نے سنسنی خیزی کی وجہ سے (غیر ضروری؟) اہمیت حاصل کرلی تھی‘ جس کی وجہ پچھلے نتائج کا منسوخ ہو جانا تھا۔ ڈسکہ این اے 75 کی یہ نشست اگست 2020 میں مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے سید افتخارالحسن کی وفات سے خالی ہوئی تھی۔ عالمی وبا کی وجہ سے ضمنی انتخاب چھ ماہ کیلئے مؤخر کیا گیا اور بالآخر 19 فروری 2021 کو یہاں الیکشن ہوا۔ اس روزسب نے واقعات کو عجیب انداز میں رونما ہوتے دیکھا۔ انتخابی عمل میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی اطلاعات ملیں۔ حلقے میں فائرنگ کے متعدد واقعات ہوئے۔ کچھ ویڈیو پہ ریکارڈ ہوئے۔ رات گئے پریذائیڈنگ افسران لاپتہ ہوگئے‘ اور صوبائی نیز ضلعی انتظامیہ، جو آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت، الیکشن کمیشن کی سربراہی میں کام کررہی تھیں، نے چیف الیکشن کمشنر کا فون نہ سنا۔
باقاعدہ 'عام انتخابات‘ میں، ان میں سے کچھ واقعات کو ملک بھر میں ہونے والی رائے دہی کے مجموعی جنون میں نظرانداز کیا جا سکتا ہوگا‘ لیکن ایک ضمنی انتخاب میں، جب پوری سیاسی اور میڈیا مشینری صرف ایک جگہ (ڈسکہ) پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھی، ان واقعات نے ریاستی مشینری کا ایک ناپسندیدہ تصویر پیش کیا۔ معاملہ فوری طور پر الیکشن کمیشن کے سامنے لایا گیا‘ جو خود انتظامی رد عمل کی کمی کے باعث دبائو میں تھا۔ دستیاب شواہد کی روشنی میں، متعلقہ فریقین کی سماعت کے بعد، الیکشن کمیشن نے حکومت کی خواہش کے برعکس پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، لیکن درخواست خارج کردی گئی، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی الیکشن کے تازہ ترین انعقاد کا حکم حتمی شکل اختیار کرگیا۔
متنازعہ پس منظر کو دیکھتے ہوئے ''آزادانہ اور منصفانہ‘‘ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس مقصد کیلئے، کل 360 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے 47 حساس پولنگ سٹیشنوں پر لگائے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے یقینی بنایا کہ پریذائیڈنگ افسران پولنگ سٹیشنوں کے اندر متعلقہ پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں فارم 45 (حتمی نتائج) پر دستخط کریں گے اور اس کے بعد ہی پولنگ سٹیشنوں کے احاطے سے باہر جائیں‘ جبکہ انتخابی نتائج موصول ہونے کے دوران کسی بھی سیاسی شخصیت کو ریٹرننگ آفیسر سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے خصوصی تندہی اور انتظامات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار نے چیف الیکشن کمشنر کو کئی درخواستیں جمع کرائیں، اور یہ الزام عائد کیاکہ انکے مخالفین نے سو پولنگ سٹیشنوں پر بوگس ووٹ کاسٹ کرانے کیلئے پریذائیڈنگ افسران کو ٹاسک دیا ہے۔ انہوں نے لکھا: اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مناسب انتظامات کیے جائیں کہ جعلی ووٹ نہ ڈالے جا سکیں، اور ڈالے گئے ووٹوں کو چیک کرنے کا طریقہ کار بھی وضع کیا جائے، جبکہ یہ بھی جانچ پڑتال کی جائے کہ ووٹرز کی مستند اور تصدیق شدہ تفصیلات موجود ہیں یا نہیں۔
ایک اور درخواست میں انہوں نے انتخابی حکام سے مطالبہ کیاکہ وہ ڈسکہ کی تمام اہم سڑکوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگوائیں تاکہ تشدد سے بچائو ممکن ہو سکے۔ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ان پولنگ سٹیشنوں پر ایس او پیز کے مطابق نگرانی کے کیمرے لگائے جا چکے ہیں‘ جنہیں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے انتہائی حساس قرار دیا تھا، تاکہ رائے شماری‘ ووٹوں کی گنتی اور پریذائیڈنگ افسران کے ذریعے نتائج کی تیاری کی نگرانی کی جا سکے۔ یہ دستیاب وسائل میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بہترین انتظام تھا۔
تمام تر ارادوں اور مقاصد کے حوالے سے ایک مخصوص نشست پر ہونے والے اس ضمنی انتخاب کے قومی سیاست یا ریاست پاکستان کی رفتار پر کوئی نتیجہ خیز اثرات مرتب نہیں ہونے والے؛ تاہم غیر اہم ہونے کے باوجود ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو فخر کے ایک یادگار لمحے کے طور پر پیش کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی اصل آواز مریم نواز نے ٹویٹ کیا ''ڈسکہ کے عوام کو ووٹ چوری کرنے والی حکومت سے انتقام لینے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، جس نے عوام کے منہ سے روٹی تک چھین لی ہے جبکہ پاکستان کو ترقی کی راہ سے بھی ہٹا دیا گیا ہے‘‘۔ ٹویٹ میں ''انتقام لینے کا موقع‘‘ جیسے الفاظ ہمارے سیاسی کلچر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسا ملک نہیں‘ جو پالیسی کے معاملات پر اپنے انتخابات کراتا ہے‘ بلکہ انتخابات میں تو ہم ایک دوسرے کے خلاف انائوں کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔
اس سے بھی بدتر معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں اربوں روپے انتخابی عمل پر خرچ ہوتے ہیں، حالانکہ اس سے عوام کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کا حالیہ انتخاب اس کی ایک مثال ہے۔ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے مابین سینیٹ میں ہونے والے مقابلے نے ہماری قومی آداب کو ہفتوں تک اپنے نرغے میں لئے رکھا؛ اربوں روپے (مبینہ طور پر) ووٹوں کی 'خرید و فروخت‘ پر خرچ کئے گئے؛ میڈیا کے سینکڑوں گھنٹے اس کی تجزیہ کاری پر صرف ہوئے؛ قومی خزانے سے لاکھوں روپے (اگر زیادہ نہیں تو) اسمبلی اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں پر خرچ کیے گئے؛ مزید لاکھوں سیاسی جلسوں، متعصبانہ مشوروں، اور ان سے وابستہ دوسرے معاملات پر خرچ ہوئے۔ یہ مقابلہ ہر جہت سے اچھائی اور برائی کے مابین جنگ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ترقی کی قوتوں اور تباہی کی طاقتوں کے مابین جنگ۔ اور یوسف رضا گیلانی کی جیت کو جمہوری ترقی کے ایک نئے دور کی حیثیت سے سراہا گیا۔
تو یوسف رضا گیلانی کے جیتنے کے بعد کیا ہوا؟ 'عام آدمی‘ کو کیا ریلیف ملا؟ کیا گیلانی صاحب نے سینیٹ کا وضع بدل دی ہے؟ کیا انہوں نے سینیٹ میں ایسی اصلاحات متعارف کروائیں ہیں جن سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا؟ کیا گیلانی صاحب کی موجودگی کے ساتھ اب سینیٹ اپنی ثقافت کے لحاظ سے پہلے کی نسبت مختلف ہے؟ آخر تبدیل کیا ہوا؟ اور اگر کچھ بھی نہیں بدلا تو پھر ہم نے اس طرح کے غیر یقینی معاملے کے لئے ہزاروں گھنٹوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کیوں خرچ کیے؟
خدشہ ہے کہ ڈسکہ میں کچھ بھی مختلف نہیں ہو گا۔ اس ضمنی انتخاب میں کون جیتا اس سے قطع نظر، عام آدمی کے لئے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کی اگلی صبح آج سے مختلف نہیں ہو گی۔ اور یقینی طور پر یہ ڈسکہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور اس ضمنی الیکشن کی وجہ سے دل کی جو دھڑکن تیز ہو چکی تھی‘ کم از کم جزوی طور پر اسے اب کم ہو جانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں