"FBC" (space) message & send to 7575

قومی بیانیے کی درستی

روزانہ کی بریکنگ نیوز، سیاسی میدان میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل اور بغیر کسی روک تھام کے چلنے والے سوشل میڈیا کے جھنجٹ میں، 'بطور فرد اور بحیثیت قوم ہمارے لئے کیا اہم ہے‘ اس راستے سے بھٹک جانا ممکن ہے۔ اہم کو غیر متعلقہ کے ساتھ گڈمڈ کر دینا اور بامعنی کو بیکار کے ساتھ الجھا دینا‘ یہ بھی بڑا آسان ہے۔ تو آئیے، کچھ گندم کو بھوسے سے الگ کرنے کی کوشش کریں، اور ان معاملات کو زیرِ غور لائیں جو پاکستان میں ہمارے عوامی بحث مباحثے کا موضوع رہتے ہیں۔ سب سے پہلے، ہماری سیاسی و میڈیا مشین، پچھلے کچھ ہفتوں سے‘ جہانگیر ترین کی داستان کے جنون میں مبتلا ہے، اور اس جنون میں کہ اس کا نتیجہ پی ٹی آئی میں ایک 'فارورڈ بلاک‘ کے قیام کی صورت میں نکلا ہے۔ پہلے ہمیں بتایا گیا کہ جہانگیر ترین کے معاملے نے پی ٹی آئی کے اندر ایسی پھوٹ پیدا کر دی ہے‘ جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہ عمران خان، جنہیں غیر منتخب مشیروں نے گھیر رکھا ہے‘ کو ایک بند گلی میں پہنچا دیا گیا ہے، جہاں ان کے حامی اور دیرینہ وفادار الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ سیاست کے گدلے پانیوں میں یہ 'سب سے بڑی‘ خبر بننے والی ہے‘ اس کا نتیجہ وفاقی اور پنجاب‘ دونوں حکومتوں کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا‘ یوں وسط مدتی انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی‘ جس کے نتیجے میں تمام سیاسی جماعتوں کیلئے قابل قبول ایک بالکل مختلف سیٹ اپ قائم ہو گا۔ ان گنت گھنٹے جہانگیر ترین کی شوگر ایمپائر پر تبادلہ خیال میں گزارے گئے۔ یہ ڈرامہ کچھ دن پہلے بے حد دلچسپ صورت اختیار کر گیا جب جہانگیر ترین کے وفاداروں نے اپنے وزیر اعظم کے خلاف جوشیلی تقاریر کیں۔ اور پھر، ایک دن، 'دوستوں‘ کی تھوڑی مدد سے ترین گروپ کے ممبران نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی، جس کے نتیجے میں یہ سارا معاملہ اچانک ختم ہوتا نظر آیا۔
اس کے بعد، ہماری سیاسی و میڈیا مشین نے ہم سب کو بتایا کہ شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کا معاملہ ہمارے قومی معاملات میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ تجزیہ کاروں کے ایک گروہ کا استدلال تھا کہ اس سرزمین پر جمہوری حکمرانی کا مستقبل اسی پر منحصر ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ کسی کے ایما پر نواز شریف کیلئے اہم پیغامات لے کر جائیں گے۔ یہ کہ ان پیغامات، اور ان کے نتیجے میں سیاسی اور احتساب کے امور پر طے پانے والا 'تصفیہ‘ ہی پاکستان کی سیاست کے مستقبل کے خدوخال وضع کرے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا اثر ہم سب پر پڑے گا۔ اس سے طے ہو گا کہ ہم سب مستقبل قریب میں اپنی زندگیاں کیسے گزار رہے ہوں گے۔ دوسری جانب کچھ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کا لندن روانہ ہونا اس ملک کیلئے ایک بڑی تباہی کا باعث ہو گا۔ انہوں کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کا مستقبل حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو روکنے پر منحصر ہے۔ ایئرپورٹ پر شہباز شریف اور ایف آئی اے افسران کے مابین گفتگو کو 'اچھائی اور برائی‘ کے مابین مکالمے کے طور پر پیش کیا گیا۔ آدھی رات کے وقت اسے ملک کی سب سے اہم 'خبر‘ کے طور پر براہ راست کور کیا جاتا رہا۔
اگر ان معاملات کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اتنا اہم نہیں جتنا انہیں ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس موقع پر یہ سارے معاملات نہایت برے انداز میں پیش کردہ ڈرامے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھے۔ وہی پریس کانفرنس۔ کراس چیکس کی پہلے جیسی برانڈنگ۔ برطانوی عدالتوں میں مقدمہ دائر کرنے کی وہی دھمکیاں۔ گرفتاری کی وہی کوششیں۔ انہی مشیروں‘ انہی دلائل کے ساتھ ضمانت کی ویسی ہی کارروائی، اور ایک جیسے نتائج۔ ایک پیسہ بھی برآمد نہیں ہوا۔ ایک بھی اثاثہ ضبط نہیں کیا گیا‘ اور مبینہ طور پر تمام 'بدعنوان‘ عناصر آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ حقیقتاً ان میں سے کوئی بھی خبر پاکستان کیلئے 'سب سے اہم خبر‘ یا 'اہم چیلنج‘ نہیں ہے۔
پھر اہم کیا ہے؟ دو چیزیں۔ (1) کووڈ19 کی وبا، اور پاکستان کا اس پر رد عمل۔ (2) اس خطے میں نئی گریٹ گیم، اور کووڈ19 کے بعد پاکستان کی چین کے ساتھ صف بندی۔ پہلے COVID-19 اور اس پر پاکستان کے ردعمل کی بات کرتے ہیں۔ تمامتر ارادوں اور مقاصد کیلئے اس معاملے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (1) کووڈ19 کے رد عمل میں پاکستان کی 'پالیسی‘ کیا ہے؟ (2) اس وبا کے بارے میں پاکستان کا 'معاشی‘ رد عمل کیا ہے؟ اس وبا کے بارے میں پاکستان کے پالیسی ردعمل میں فرنٹ لائن ڈاکٹروں کو مناسب وسائل کی فراہمی، لاک ڈاؤن کا مشاہدہ کرنا، اور ایس او پیز کو نافذ کرنا شامل ہیں۔ اس کے قابل تعریف نتائج سامنے آئے ہیں۔ درمیانے درجے کے وسائل کے باوجود پاکستانی عوام اس طرح کی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے جس نے مغرب کے کچھ زیادہ ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے پڑوسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ درحقیقت، بھارت میں COVID-19 کی حالیہ 'دوسری لہر‘ سے سبق حاصل کرتے ہوئے‘ حکومتِ پاکستان نے رمضان کے آخری چند دنوں (عید کی وقفے سمیت) کے دوران فعال طور پر لاک ڈائون لگا دیا‘ جس نے وبا کے ملک گیر پھیلائو کے خدشات کو ختم کر دیا‘ لیکن ہم ابھی تک خطرات سے باہر نہیں نکلے۔ پاکستان کو اب بھی اس بحران کیلئے ایک مختصر یا طویل مدتی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے صوبے اور ادارے اپنے رہائشیوں کو مختلف ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں، اور متنوع پالیسی آپشنز کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔
جہاں تک اس وبا کے سلسلے میں پاکستان کے 'معاشی‘ رد عمل کا معاملہ ہے تو وزیر اعظم شروع ہی سے اصرار کر رہے ہیں کہ پاکستان اقتصادی وجوہات کی بنا پر طویل عرصے کے لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے غریبوں کو زیادہ عرصہ خوراک فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ وبا کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت کے ہماری معیشت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن، اس خوف کو وبائی بیماری کے حوالے سے پالیسی کے سخت اقدامات پر عمل درآمد میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جا سکتا تھا۔ ہم اس قسم کی کھائی میں نہیں گر سکتے جس میں بھارت نے خود کو گرا لیا ہے۔
اس وبا کے فوری اثر سے دور، پاکستان کو COVID-19 کے بعد کے دور کیلئے منصوبہ بندی بھی کرنی چاہئے‘ اور اس کیلئے دو اہم سوالات کے جوابات درکار ہیں۔ پہلا: COVID 19 کے بعد کی دنیا کیلئے ہماری 'علاقائی‘ حکمت عملی کیا ہے؟ یقینا ہم سی پیک کیلئے پُرعزم ہیں‘ لیکن کیا ہم اس خطے میں امریکہ کے مفادات کے خلاف جانے پر رضامند ہیں، اگر وہ مفادات سی پیک سے متصادم ہیں؟ کیا ہم نے آئندہ سرد جنگ کے دباؤ کو برداشت کرنے کیلئے پالیسی وضع کر لی ہے؟ اگر مغرب چین کا ساتھ دینے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو کیا ہم پھر بھی اسی راہ پر قائم رہیں گے؟ اور افغانستان کا کیا ہو گا؟ ہم وہاں سے امریکی فوجیوں کی واپسی میں مدد کر رہے ہیں‘ تو خطے میں ہمارا مستقبل کا کیا کردار ہو گا؟ کیا ہم 1990 کی دہائی کی پالیسیوں کی طرف واپس لوٹ جائیں گے، یا کوئی نیا منصوبہ ہمارے پیشِ نظر ہو گا؟ ہم اس مساوات میں بھارت کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اور بھارت کی بات کریں تو کیا ہم مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل تک پہنچنے کیلئے چین کی علاقائی پوزیشن کا کوئی فائدہ اٹھا رہے ہیں؟
دوسرا:کووڈ19 کے بعد کے زمانے میں ہماری داخلی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا ہم پھر بھی سرکاری مشینری میں منظم بد انتظامی کے معاملات سے دوچار رہیں گے؟کیا قومی سلامتی کے امور پر ہمارا رد عمل قلیل مدتی اقدامات تک محدود رہے گا؟ یا اگلی دہائی کی علاقائی سرد جنگ کیلئے کوئی وژن/ حکمت عملی ہے؟ یہ پالیسی کے اہم سوالات ہیں‘ اور بحیثیت قوم، پاکستان کو جلد یا بدیر ان کا جواب دینا ہو گا۔ ابھی تک صورتحال یہ ہے کہ ہم ریورس گیئر میں پھنسے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم غیر متعلقہ سے اہم معاملات کی طرف متوجہ ہوں اور اس خطے میں ناگزیر مستقبل کیلئے سفر کی تیاری کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں