"FBC" (space) message & send to 7575

علاقائی رابطہ کاری

گزشتہ ہفتے تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اعلیٰ حکام کے ساتھ تزویراتی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس دورے کے دوران، دونوں ممالک نے اقتصادی تعاون، علاقائی رابطہ کاری اور دفاعی تعاون سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے۔ اسی اثنا میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تینوں ممالک کے درمیان علاقائی سلامتی اور اقتصادی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ دو پیشرفتیں پاکستان کی سٹریٹیجک پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہیں‘ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کئی بار واضح کیا کہ پاکستان اب روایتی علاقائی اور سکیورٹی ڈاکٹرائن کو ترک کرکے معاشی اور سلامتی کے معاملات کو اختیار کر رہا ہے، جو علاقائی رابطوں کو فروغ دینے‘ اور وسطی ایشیا اور اس سے آگے کے خطوں تک رسائی بڑھانے پر مرتکز ہیں۔
روایتی طور پر پاکستان کا 'قومی سلامتی‘ کا ڈاکٹرائن رسمی اور غیررسمی طاقت کو فروغ دینے پر مرتکز رہا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں‘ جہاں روایتی لڑائیوں کی جگہ ہائبرڈ جنگ نے لے لی ہے‘ یہ (پرانا) نظریہ تیزی سے متروک ہوتا جا رہا ہے۔ ایران پر جنگیں مسلط نہیں کی گئیں‘ معاشی پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کے ذریعہ اس پر 'حملہ‘ کیا گیا۔ ایک روایتی (بیرونی) جنگ نے پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کو کمزور نہیں کیا‘ پراکسی جنگجوؤں اور معاشی پابندیوں (جیسے FATF) نے ایسا کیا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران کسی جنگ نے بھارت کو اپاہج نہیں بنایا‘ صحت کے انفراسٹرکچر کے ناکام ہونے اور داخلی کشمکش نے بنا دیا ہے۔ کسی جنگ نے چین کو خطے میں طاقتور نہیں بنایا‘ البتہ معاشی طاقت اور علاقائی رابطہ کاری نے اسے مضبوط بنایا ہے۔
ان اسباق سے سیکھتے ہوئے، سکیورٹی کا ایک زیادہ متناسب تصور‘ جو معاشی ترقی، تکنیکی فروغ‘ علاقائی رابطہ کاری، علم سے وابستہ ہونے اور سیاسی استحکام پر محیط ہے‘ اب پاکستان کی پالیسی سازی میں فروغ پا رہا ہے۔ قومی سلامتی کے بارے میں اس نئی فہم کا واضح اظہار اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ ''اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ‘‘ میں ہوا، جس میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ''قومی سلامتی کا معاصر نظریہ کسی ملک کو داخلی اور خارجی خطرات سے بچانا ہی نہیں بلکہ ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کرنا بھی ہے جس میں انسانی سلامتی، قومی ترقی اور فروغ پر مبنی امنگوں کا ادراک کیا جا سکے‘‘۔
حکومت اور اداروں کی جانب سے 'سکیورٹی‘ کی جس نازک تفہیم کو تسلیم کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک 'جغرافیائی و اقتصادی‘ نقطہ نظر پر مبنی ہے، جو چار بنیادی ستونوں پر قائم ہے: (1) پاکستان کے اندر اور باہر امن کیلئے انتھک کوششیں؛ (2) علاقائی ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت ترک کرنا؛ (3) علاقائی رابطے بڑھانا‘ (4) بین العلاقائی تجارتی تعلقات کو فروغ دینا۔ تاجکستان کے صدر کیساتھ حالیہ مکالمہ، اور افغان قیادت کے ساتھ جاری گفتگو، اسی ''رابطہ کاری‘‘ کی مثالیں ہیں، جسے اب پاکستان اپنی قومی سلامتی کیلئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ہمیں سی پیک کے شرقاً غرباً روٹ پر توجہ دینی چاہئے تاکہ توانائی اور تجارت کی راہداریوں کے ذریعے وسطی اور مغربی ایشیا کے ساتھ مربوط ہوا جائے جبکہ سی پیک کا شمالاً جنوباً روٹ بدستور پاکستان کی معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کا مرکز رہے گا۔
معاشی تحفظ کا یہ نیا نظریہ، پاکستان کے بہتر اور روشن مستقبل کی یقین دہانی کراتا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے اور پاکستان کو اس کے ساتھ بدلنا چاہئے۔ گزشتہ دو دہائیوں کی بین الاقوامی پالیسی اور علاقائی حکمت عملی‘ دونوں پاکستان کیلئے چیلنج رہی ہیں۔ نائن الیون کے تناظر میں افغانستان میں ہونیوالی جنگ کے بعد کچھ بین الاقوامی طاقتوں نے پاکستان کو 'دہشتگردی‘ کی عینک سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ پھر معاملات بدتر ہوتے گئے اور پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف اپنی داخلی جنگ لڑنا پڑی‘ جس نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں اور ہمیں اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
ایک اور فیکٹر نے معاملات کو مزید بدتر بنا دیا۔ اس سارے عرصے میں پاکستان کے 'دشمن‘ (بھارت کی سربراہی میں) واشنگٹن میں لابنگ کرتے رہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنی سوچ کو مستقل طور پر نئی جہت دے۔ اس حوالے سے پیش کی گئی دلیلوں میں کہا گیا کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کو اب 'جنوبی ایشیا‘ یا 'برصغیر‘ کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے بجائے، واشنگٹن کو آہستہ آہستہ پاکستان کو صرف افغانستان کے تناظر میں دیکھنے پر قائل کیا گیا، اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کو اس دہشتگردی والے اس خطے سے الگ کر لیا گیا۔ اس لابنگ کے نتیجے میں امریکی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی 2008 میں مشاہدے میں آنا شروع ہوئی جب صدر اوبامہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملانے کیلئے ''افپاک‘‘کی اصطلاح استعمال کی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ (اس وقت منظرِ عالم پر واحد عالمی طاقت) کی طرف سے 'افپاک‘ پالیسی متعارف کرانے کے ساتھ ہی بھارت نے نہایت کامیابی سے خود کو پاکستان سے الگ کر لیا‘ اور پینٹاگون کے چہار فریقی سکیورٹی ڈائیلاگ کا حصہ بن گیا‘ بھارت کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ جس کے رکن ہیں۔
جس دوران پاکستان اس نئی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا، بھارت نے اپنے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھایا اور خود کو چین کے مقابل طاقت کے طور پر پیش کیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ٹھوس اقدام 30 مئی 2018 کو اس وقت سامنے آیا جب اس وقت کے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اعلان کیاکہ پینٹاگون کی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدل کرکے 'انڈوپیسیفک کمانڈ‘ رکھا گیا ہے، جس سے ہندوستان کو بڑا اور اہم کردار مل جائے گا۔ یہ تبدیلی بحرالکاہل کے تھیٹر پر چین کی پیش قدمی روکنے کیلئے کی گئی۔ علامتی طور پر دہلی نے پینٹاگون کو باور کرایا کہ وہ بحرالکاہل کے خطے میں چین کا مقابل ثابت ہو سکتا ہے تاہم، پچھلے دو سالوں میں ہندوستان کی یہ دھوکا دہی اور فریب بے نقاب ہو چکا ہے۔ چین نے لداخ کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے، پینگونگ جھیل اور وادیٔ گلوان میں اہم مقامات پر قبضہ کر لیا اور بھارت کوئی مزاحمت نہ کر سکا۔ اسی دوران نیپال نے بھی ہندوستان کی حدود میں موجود کچھ علاقوں پر دعویٰ کیا۔ اس سے بھارت کیلئے حالات خراب سے خراب تر ہو گئے۔ چینی بحرہند کے پار اپنا اثرورسوخ (اور فوجی موجودگی) بڑھا رہے ہیں جبکہ بھارت یہاں بھی بے بس نظر آتا ہے۔ درحقیقت، بھارت کے قریبی بہت سے علاقے (جیسے سری لنکا) وہ جگہیں ہیں جہاں چینیوں کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ بھارت داخلی مسائل کا بھی شکار ہے۔ اس نے کووڈ 19 کے بحران سے غلط انداز میں نمٹنے کی کوشش کی‘ ناگالینڈ کے باشندوں کی مخالفت کی‘ اور مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنا دیا۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ 'انکریڈیبل انڈیا‘ کے تصور کے خاتمے نے اس خطے میں ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ یہی خلا چین اور پاکستان کیلئے ایک نیا سنگ بنیاد ثابت ہو سکتا ہے‘ لیکن صرف اس صورت میں جب ہم کسی ایسی پالیسی کی ترویج کیلئے جدوجہد کرتے رہیں جس سے علاقائی رابطہ کاری اولین ترجیح بن جائے۔ یوں پاکستان کیلئے علاقائی رابطہ کاری پائیدار امن اور ترقی قائم رکھنے کی کلید بن سکتی ہے۔ اس طرح کے رابطے جدید دور کے نئے معاشی و سکیورٹی ڈاکٹرائن کو مجسم بنا دیں گے۔ اس مقصد کیلئے آنے والے ماہ و سال میں، پاکستان کو تاجکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اپنے (معاشی) تعلقات کو مزید بڑھانا ہوگا۔ اسے مشرق سے مغرب تک پھیلے رابطے کے چینلز بنانا ہوں گے، جو سی پیک سے مربوط ہوں، یوں پاکستان وسطی ایشیا اور اس سے آگے کے علاقوں کے ساتھ ایک اہم سٹریٹیجک شراکت دار بن جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں