"FBC" (space) message & send to 7575

کابل سے آگے… ’بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام‘

تاریخ کی تنگ نظری اس لمحے کے بارے میں کہے گی کہ طالبان کی فتح نے افغانستان میں امریکی قبضے کا خاتمہ کر دیا ہے‘ لیکن یہ سب تو یہاں ارتکاز بڑھانے کا عمل ہے‘ فوری اور عبوری۔ اصل سوال یہ ہے: امریکہ کی شکست، اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے بدنام زمانہ پسپائی اس بین الاقوامی 'قوانین پر مبنی نظام‘ کیلئے کیا معنی رکھتی ہے‘ جو امریکی طاقت سے اپنا قانونی جواز حاصل کرتا ہے؟اقوام متحدہ بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کی تعریف اس طرح کرتی ہے ''وقت کے ساتھ وضع ہونے والے متفقہ قوانین یا اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے تمام ممالک کی مشترکہ وابستگی‘ جیسے علاقائی سلامتی کے انتظامات، تجارتی معاہدے، امیگریشن پروٹوکولز اور ثقافتی انتظامات‘‘۔ اس تعریف کی نرم اور جامع زبان کے باوجود، آسان الفاظ میں، بین الاقوامی قواعد پر مبنی یہ نظام تمام ممالک کو امریکہ کے بنائے اصولوں کے ایک سیٹ کا پابند بناتا ہے‘ اور کوئی بھی ملک جو اس امریکی سوچ کے ساتھ نہیں جڑتا جیسے کیوبا، ایران یا شام‘ تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، اسے سفارتی تنہائی کا شکار کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ فوجی کارروائی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ درحقیقت، بین الاقوامی قواعد پر مبنی آرڈر دنیا پر حکمرانی کیلئے امریکہ کا 'چھڑی اور گاجر‘ کا طریقہ کار ہے۔
اگرچہ یہ نظام بادی النظر میں علاقائی اور عالمی تعاون کے لحاظ سے تیار کیا گیا ہے، لیکن مرکزی طور پر بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کا نفاذ مفروضوں کی ایک سیریز پر مبنی ہے، جیسے:(1) تمام ممالک بین الاقوامی 'قوانین پر مبنی نظام‘ کی کسی بھی دوطرفہ تعلقات‘ جو ان ممالک کے ہو سکتے ہیں‘ سے بالاتر ہوکر پابندی کریں گے۔ (2) اس نظام کی خلاف ورزی معاشی اور سفارتی پابندیوں کا باعث بنے گی (3) یہ پابندیاں اس طرح کی جماعت کو بین الاقوامی قواعد پر مبنی اس نظام کی پاسداری پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہوں گی۔ (4) اس آرڈر کا حصہ بننے والے ممالک اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے فیصلہ کن فوجی قوت استعمال کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ (5) ضرورت ہو تو امریکہ اس نظام کو نافذ کرنے کی فوجی طاقت رکھتا ہے۔ ان مفروضوں کے بغیر، بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر یا نظام محض ایک تکیہ کلام ہی ہوگا‘ کسی حقیقی طاقت یا قانونی حیثیت کے بغیر۔ یوں افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کی شکست کے بعد، یہ جائزہ لینا مناسب ہے کہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی یہ نظام یا آرڈر طاقت کی کرنسی کے طور پر کام جاری رکھ سکتا ہے یا نہیں اور آیا افغانستان میں طالبان کی فتح کے تناظر میں اس نظام کو جواز بخشنے والے مفروضے قائم ہیں یا نہیں؟
پہلا: 'تمام ممالک انفرادی طور پر اپنے دوطرفہ مفادات سے بالاتر ہوکر بین الاقوامی قواعد پر مبنی اس نظام کی تعمیل کریں گے‘ یہ بنیادی مفروضہ تو پہلے ہی سکڑتا جا رہا ہے۔ امریکہ جیسے ہی شکست کھا کر عالمی سٹیج سے پیچھے ہٹا ہے، مشاہدے میں آرہا ہے کہ بعض ممالک بین الاقوامی وعدوں پر دوطرفہ تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پابندیوں کی دھمکی کے باوجود چین نے مبینہ طور پر ایران کو تقریباً 400 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یورپ (بریگزٹ کے بعد) امریکی احکامات کے برعکس روس اور چین کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات کرنے پر آمادہ ہے۔ دنیا کی تمام پابندیاں طالبان کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ سفارتی اور مالی اقدامات کے حوالے سے لین دین سے نہیں روک سکیں۔ شام، امریکی دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ ثمرآور تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ لبنان تمام تر پابندیوں کے باوجود فرانس، ایران اور چین کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان، مزید بین الاقوامی پابندیوں کے خطرے کے باوجود، سی پیک کے ساتھ پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا یہ مفروضہ کہ سبھی ممالک دوطرفہ مفادات پر کثیر جہتی قوانین کو ترجیح دیں گے، تیزی سے دم توڑتا نظر آتا ہے۔
دوسرا اور تیسرا: 'اس نظام کی خلاف ورزی یقینی طور پر معاشی اور سفارتی پابندیوں کا باعث بنے گی، جو بین الاقوامی قواعد پر مبنی آرڈر کی پاسداری کے حوالے سے ممالک کو مجبور کرنے کیلئے کافی ہوگی‘۔ یہ مفروضہ بھی حالیہ برسوں میں کمزور پڑا ہے۔ بھارت ایک عرصے تک امریکی پابندیوں کا سامنا کیے بغیر ایران کی چابہار اور دیگر منصوبوں میں مدد کر رہا ہے اور اب بھی امریکی پابندیوں کے خطرے کے باوجود روسی ایس400 سسٹم خریدنے کیلئے تیار ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ کسی بھی طرح کی پابندیاں کیوبا کو قائم رہنے اور فعال ہونے سے نہیں روک سکیں‘ اور یہ سب امریکہ کی طالبان کے ہاتھوں شکست سے پہلے ہوا۔ جیسے جیسے دنیا امریکی بالادستی کے بعد کی نئی حقیقتوں سے آگاہ ہوتی جائے گی بین الاقوامی نظام کی خلاف ورزی کرنیوالے کسی بھی فرد یا ملک پر پابندیوں کا خطرہ ممکنہ طور پر مزید کم ہو جائے گا۔
چوتھا: 'بین الاقوامی قواعد پر مبنی آرڈر‘ کے شرکا اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے مختلف کثیر جہتی فورمز کے ذریعے فیصلہ کن فوجی قوت کو استعمال کریں گے‘۔ یہ مفروضہ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ امریکی قیادت میں بین الاقوامی فوجی مشین اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نیٹو اتحاد حقیقتاً کبھی سوویت یونین کے خلاف نہیں لڑا۔ نیٹو افواج افغانستان میں جنگ ہار گئیں۔ وہ عراق کی جنگ نہیں جیت سکے۔ وہ لبنان میں داخل نہیں ہو سکے۔ وہ کریمیا کے دفاع کیلئے نہیں آئے تھے۔ کچھ نیٹو شراکت داروں نے الجیریا اور لیبیا کی جنگ میں خودکو مخالف سروں پر پایا۔ بحرالکاہل میں نیٹو سے ملتی جلتی تنظیم 'کواڈ‘ ہانگ کانگ کے معاون کے پاس نہیں آئی۔ اگر مسلح ٹکرائو کی نوبت آئی تو قوی امکان ہے کہ وہ تائیوان کو نہیں بچا سکیں گے۔ اس طرح، کسی ملک کو انفرادی طور پر یا ممالک کے گروہ کو کسی بین الاقوامی فوجی اتحاد سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پچھلے تیس سال اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ بین الاقوامی قواعد پر مبنی نظام بین الاقوامی فائٹنگ مشین کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکے گا۔
پانچواں: 'اگر ضرورت ہو تو امریکہ کے پاس یہ نظام یکطرفہ طور پر نافذ کرنے کیلئے فوجی طاقت موجود ہے‘ یہ مفروضہ شروع سے ہی کمزور ہے اور مشرق وسطیٰ سے وسطی ایشیا تک بار بار غلط ثابت ہو چکا ہے۔ کیا امریکہ پوری دنیا میں کچھ کمزور ممالک کے خلاف یکطرفہ طور پر جنگ لڑ سکتا ہے؟ جواب ہے: جی ہاں۔ کیا ایسا مستقبل قریب میں ممکن ہے؟ جواب: نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا امریکہ یہ جنگ جیت جائے؟ جواب: نہیں۔ اگلا سوال: دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، کیا امریکہ نے کبھی کوئی جنگ یکطرفہ جیتی؟ جواب: نہیں۔ امریکہ 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا۔ اسے 1970 کی دہائی میں ویت نام میں شکست ہوئی۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں حاصل ہونے والی فتح امریکی فوج نے لڑ کر حاصل نہیں کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی 'قوانین پر مبنی آرڈر‘ کون نافذ کرے گا؟ اور اگر کوئی واقعی اس کو نافذ نہیں کر سکتا تو کیا یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ طالبان کی طرف سے کابل دوبارہ حاصل کرنے کے بعد، اب بھی ایسا کوئی نظام موجود ہے؟ ہم نئی علاقائی اور عالمی تبدیلی کے بہاؤ سے گزر رہے ہیں۔ ایسے دور سے جب ایک یک قطبی دنیا (جس کی قیادت امریکہ کررہا ہے) اور اس سے متعلقہ عالمی نظام ختم ہو رہا ہے‘ اور اس کی جگہ، ایک نئی دنیا، دباؤ کے نئے مراکز کے ساتھ، نئے اتحاد اور نئے تجارتی روٹ متشکل ہو رہے ہیں۔ کابل سے آگے، دنیا اصولوں کے ایک نئے سیٹ کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ ایسے اصول جو تاحال ضبطِ تحریر میں نہیں لائے گئے۔ ایسے اصول جو بین الاقوامی جبر کے بجائے قومی مفاد پر مبنی ہیں۔ اس نئی دنیا کو نئے پاکستانی خارجہ تعلقات کی ڈاکٹرائن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ جو امریکی مرکزے کے گرد نہ گھومتی ہو‘ اس کے بجائے علاقائی اتحاد اور تجارتی راستوں پر توجہ مرکوز کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں