"FBC" (space) message & send to 7575

بین الاقوامی ’قواعد پر مبنی آرڈر‘ کا مستقبل

سچ یہ ہے کہ 'نئے سال‘ کے ساتھ کوئی فلکیاتی اہمیت منسلک نہیں۔ یہ سورج کے گرد زمین کے بیضوی سفر پر محض ایک صوابدیدی نقطے کو نشان زد کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو نہ تو یکم جنوری کو شروع ہوا تھا اور نہ ہی مذکورہ تاریخ کو اس کی بحالی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انسانیت 'نئے سال‘ کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرتی ہے کہ وہ گزشتہ 12 مہینوں کی پیشرفت پر غور کرے، ایک نئے آغاز کی منصوبہ بندی کرے۔
2021 کی سب سے اہم پیشرفت طالبان کا کابل پر قبضہ، اور افغانستان پر امریکی قبضے کا خاتمہ تھا‘ لیکن یہ محض فوری اور عارضی بیان ہے۔ جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو اس پیشرفت کے بارے میں ایک اہم سوال ذہن میں آتا ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے: افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی نظام‘ کیلئے کیا معنی رکھتی ہے۔ وہ نظام جو امریکی طاقت سے ہی اپنا قانونی جواز کشید کرتا ہے؟ اقوام متحدہ نے بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کی تعریف اس طرح کی ہے ''تمام ممالک کی طرف سے اپنی سرگرمیاں طے شدہ قواعد کے مطابق کرنے کا مشترکہ عزم جیسے بین الاقوامی قانون، علاقائی سلامتی کے انتظامات، تجارتی معاہدے، امیگریشن پروٹوکولز اور ثقافتی انتظامات‘‘۔ اس تعریف کی نرم اور جامع زبان کے باوجود، اصل میں 'بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام‘ ممالک سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے حامیوں کے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی کریں‘ اور کوئی ملک جو امریکی لائن پر نہیں چلتا تو اس پر اقتصادی پابندیاں، سفارتی تنہائی مسلط کی جائے۔
اگرچہ یہ نظام ظاہری طور پر انسانی حقوق اور عالمی تعاون کی لفاظی سے بھرپور ہے‘ لیکن اندر سے بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کا نفاذ جابرانہ مفروضوں کی ایک سیریز پر مبنی ہے، جو یہ ہیں: (1) تمام ممالک اس کی پابندی کریں گے۔ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر، کسی بھی دوطرفہ تعلقات سے بالاتر ہے‘ وہ تعلقات جن کے یہ ممالک خواہاں ہوں؛ (2) اس نظام کی خلاف ورزی کا نتیجہ یقینی طور پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی صورت میں نکلے گا- بشمول عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف وغیرہ کا دباؤ؛ (3) اس نظام کی خلاف ورزی کرنے پر امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں قواعد پر مبنی آرڈر کی پابندی پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہوں گی۔ (4) اس آرڈر کو قبول کرنے والے ممالک نظام کو نافذ کرنے کیلئے، مختلف کثیر جہتی فورمز (مثلاً اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور نیٹو) کے ذریعے فیصلہ کن فوجی قوت استعمال کرنے کیلئے آمادہ و تیار ہوں گے۔ (5) اگر ضرورت ہو تو یکطرفہ طور پر اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے امریکہ کے پاس فوجی طاقت ہے۔
ان مفروضوں کے بغیر، بین الاقوامی قوانین پر مبنی یہ آرڈر محض ایک محاورہ ہی ہو گا‘ بغیر کسی حقیقی تحریک، طاقت یا جواز کے۔
نتیجتاً، جب ہم نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھتے اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی شکست کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھنا بھی مناسب ہوگا کہ آیا بین الاقوامی قواعد پر مبنی آرڈر طاقت کی کرنسی کے طور پر کام جاری رکھ سکتا ہے یا 2022 میں اور اس کے بعد، اس نظام کو قانونی حیثیت دینے والے مفروضے اپنی طاقت برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
پہلا مفروضہ : ہر ملک انفرادی طور پر دوطرفہ مفادات سے بالاتر ہوکر بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کی پابندی کرے گا۔ یہ بنیادی مفروضہ تو پہلے ہی محدود ہوتا جا رہا ہے۔ جوں جوں امریکہ عالمی سٹیج سے شکست خوردہ پیچھے ہٹ رہا ہے، واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بعض ممالک بین الاقوامی کمٹمنٹس پر دوطرفہ تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چین نے مبینہ طور پر پابندیوں کے خطرے کے باوجود ایران سے تقریباً 400 بلین ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔ یورپ (بریگزٹ کے بعد) امریکی حکم کے برخلاف روس اور چین کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات کررہا ہے۔ فرنچ صدر میکرون پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ یورپ کی پالیسیاں نیٹو اور امریکہ سے آزاد ہونی چاہئیں۔ دنیا کی تمام تر پابندیوں بھی طالبان کو امریکی انخلا کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ معاملات سے نہیں روک سکیں۔ شام، امریکی دباؤ کے باوجود، روس اور یورپ کے ساتھ بارآور تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ لبنان تمامتر پابندیوں کے باوجود فرانس، ایران اور چین کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان پابندیوں کے خطرے کے باوجود سی پیک پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا، یہ مفروضہ کہ ممالک دوطرفہ مفادات پر کثیرجہتی اصولوں کو ترجیح دیں گے، تیزی سے معدوم ہورہا ہے۔
دوسرا اور تیسرا: 'قواعد پر مبنی نظام‘ کی خلاف ورزی کا نتیجہ یقینی طور پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی صورت میں نکلے گا، جو پابندیوں کے شکار ممالک کو بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہوں گی۔ حالیہ برسوں میں یہ مفروضہ بھی کمزور پڑتا نظر آیا۔ بھارت نے امریکی پابندیوں کے خطرے کے باوجود کئی منصوبوں کے ذریعے ایران کا ساتھ دیا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت روسی S-400 سسٹم خریدنے کیلئے تیار ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کے طالبان سے ہارنے سے پہلے تھا۔ اب دنیا نئے حقائق کے ساتھ مطابقت پیدا کررہی ہے‘ توقواعد پر مبنی آرڈر کی خلاف ورزی پر بلاامتیاز پابندیوں کا خطرہ مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
چوتھا مفروضہ: بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کے حصے دار اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے کثیر جہتی فورمز کے ذریعے طاقت کا فیصلہ کن استعمال کریں گے۔ یہ مفروضہ ختم ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی فوجی مشین اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ نیٹو نے کبھی سوویت یونین سے 'لڑائی‘ نہیں لڑی‘ نہ ہی افغانستان‘ عراق میں جنگ جیت سکی۔انفرادی ممالک یا گروہوں کیلئے بین الاقوامی فوجی تعاون سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔پانچواں: یہ کہ اگر ضرورت ہو تو یکطرفہ طور پر اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے امریکہ کے پاس طاقت ہے۔ یہ مفروضہ، شروع ہی سے کمزور ہے اور مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں بار بار غلط ثابت ہو چکا ہے۔کیا امریکہ دنیا کے چند کمزور ممالک کے خلاف یکطرفہ جنگ لڑ سکتا ہے؟ جی ہاں۔ کیا یہ امکان ہے کہ یہ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت ایسا کرے گا؟ نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، کیا امریکہ نے کبھی کوئی یکطرفہ جنگ جیتی ہے؟ نہیں۔ امریکہ 50 کی دہائی میں شمالی کوریا کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا۔ اسے 70 کی دہائی میں ویتنام میں شکست ہوئی تھی۔ افغانستان میں 80 کی دہائی میں فتح امریکی فوج نے حاصل نہیں کی تھی۔ یہ پہلی خلیجی جنگ میں صدام حسین کو نہیں ہٹا سکا تھا۔ دوسری خلیجی جنگ کے دوران صدام کو ہٹا دیا گیا لیکن یہ عراق میں استحکام پیدا نہ کر سکے۔ تو سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر یا حکم یا نظام کون نافذ کرے گا؟ اور اگر کوئی واقعتاً اسے نافذ نہیں کر سکتا، تو کیا اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ ایسا نظام اب بھی موجود ہے؟
2022 ممکنہ طور پر ایک نئے عالمی ری سیٹ کا خیرمقدم کرے گا۔ یہ ایک ایسا دور ہو گا جب یک قطبی دنیا (امریکہ کی قیادت میں) اور اس سے متعلقہ (قواعد پر مبنی) ترتیب یا نظام کو معدوم ہوتے جانا ہے۔ اور اس کی جگہ، ایک نئی دنیا، نئے دباؤ کے مراکز، نئے اتحاد، اور نئے تجارتی راستوں کے ساتھ، تشکیل پاتی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو اصولوں کے نئے سیٹ کے ساتھ معاملات کرے گی۔ وہ اصول جو ابھی تک غیر تحریری ہیں۔ بین الاقوامی جبر کے بجائے قومی اور علاقائی مفاد پر مبنی اصول۔ اس نئی دنیا کو، 2022 میں، ایک نئے پاکستانی خارجہ تعلقات کے ڈاکٹرائن کے ساتھ ملنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ڈاکٹرائن جس کا محور امریکہ نہ ہو‘ اس کے بجائے یہ قومی مفادات اور علاقائی اتحاد پر توجہ مرکوز کرتا ہو ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں