"FBC" (space) message & send to 7575

تحریک عدم اعتماد کے آئینی تقاضے

ملکی سیاست میں طویل عرصے سے سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کی سب سے نمایاں مثال 1990ء کے عشرے کی لاحاصل سیاسی جنگ ہے جب دس سال میں چار حکومتیں تبدیل ہوئیں اور کسی ایک کو بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ جب پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو یہ دعوے سننے میں آئے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری سبق سیکھ چکے ہیں اور اب وہ اپنی توانائیاں ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں صرف نہیں کریں گے۔تاہم اس دس سالہ دور میں ہمارے سیاستدان بلااستثنیٰ ایک مرتبہ پھرماضی کے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ہمارے تلخ سیاسی کلچر میں جمہوریت واقعی ایک بہترین انتقام ہے۔
سیاسی ریشہ دوانیوں کا تازہ ترین شاخسانہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہیں۔اس طرح کے کسی اقدام کے آئینی اور سیاسی مضمرات کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی قانونی حیثیت کو سمجھ لیا جائے ۔دستور پاکستان کا آرٹیکل(4) 91 واضح طور پر کہتا ہے کہ ''وزیر اعظم کاانتخاب قومی اسمبلی کے ارکان کے اکثریتی وو ٹ کے ذریعے ہو گا‘‘ اسی طریقہ کار پرعمل کرتے ہوئے 18اگست 2018ء کو قومی اسمبلی کے 342رکنی ایوان میں عمران خان کو 176ارکانِ قومی اسمبلی نے وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 95کے تحت کسی منتخب وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے بعد ہی ہٹایا جایا سکتا ہے۔ اس ضمن میں آرٹیکل 95(1) کہتا ہے کہ ''وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے کل ارکان کے 20فیصد سے زائد ارکان کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پاس کر نے کے بعد ہی برخاست کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ سادہ الفاظ میںپہلے اقدام کے طورپر قومی اسمبلی کے کل ارکان کے 20فیصد ارکان وزیراعظم کیخلاف قراردادِعدم اعتماد پیش کریں گے تاکہ ایوان میں رائے شمار ی کرائی جا سکے۔آرٹیکل 95(2)کی روشنی میں قرار داد پیش ہونے کے کم از کم تین دن بعد اور سات دن کے اندر ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ اگر آرٹیکل 95(4)کے تحت مقررہ مدت کے دوران ایسی قرارداد قومی اسمبلی کے کل ارکان کی اکثریت پاس کر دیتی ہے تو وزیر اعظم کو اپنا منصب چھوڑنا پڑے گا۔تاہم آرٹیکل 95(3) ایک استثنیٰ دیتا ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد اس وقت نہیں پیش کی جاسکتی جب قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ کے مطالباتِ زر پر بحث جاری ہو۔اہم نکتہ یہ ہے کہ رُول 14 کورُول 37اور قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007ء کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو قرارداد عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری نہیں ہوسکتی بلکہ یہ ووٹنگ شوآف ہینڈ کے ذریعے کرائی جائے گی۔اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرار داد پر رائے شماری کے اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی کریں گے؛چنانچہ پارلیمانی ووٹوں کی تعداد میں مارجن انتہائی کم ہونے کی صورت میںسپیکر کا اختیار اہمیت حاصل کر جاتا ہے ۔ سپیکر سیاسی طریقہ استعمال کرتے ہوئے قرارداد پر مختصر نوٹس پر رائے شماری کرا سکتا ہے یعنی جب اپوزیشن کے ارکان اسمبلی ایوان کے اندر موجود نہ ہوں یا انہیںبر وقت اسمبلی میں پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہو؛ چنانچہ رولز 2007ء کے تحت ر ائے شماری کا اختیار اور کنٹرول سپیکر کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے قرار داد کے کامیاب یا ناکام ہونے کا انحصار اس پر بڑھ جاتا ہے۔
سپیکر کے ان اختیار ات سے نبردآزما ہونے کیلئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے عندیہ دیا ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بیک وقت عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی۔اس ضمن میں ان جماعتوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے قومی اسمبلی کے ان عہدیداروں کو گھر بھیجا جائے اور پھر جب اپوزیشن لیڈرز کا کورم بہترین ہو تو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد اسمبلی میں پیش کی جائے۔یہاں ایک اور سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر وزیراعظم ‘سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف بیک وقت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے تو کیا ہو سکتا ہے؟ان حالات میںرولز 2007ء کے رول 32کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد عمل میں لایا جائے گا۔رولز 2007ء کا رول 11 کہتا ہے کہ جب کبھی سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کا منصب خالی ہو جا تا ہے اور اس وقت اگر اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو سپیکر کے منصب کا انتخاب جس قدر جلد ممکن ہو سکے پہلے کرایا جائے۔ اگریہ منصب تب خالی ہوتا ہے جب اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو تو اسمبلی کا اگلا اجلاس شروع ہونے پر اس منصب کا انتخاب کیا جائے گا۔رولز 2007ء کے رول 10کے مطابق سپیکر کے الیکشن کے فوراًبعد ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرا یا جائے گا‘لہٰذا اگر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں کے خلاف بیک وقت عدم اعتماد کی قرارداد لائی جاتی ہے تو رولز 2007ء کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروانے سے قبل سپیکر اورڈپٹی سپیکر کا انتخاب کروایا جائے گا۔
طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر اپوزیشن لیڈرز نے اس پلان کا عندیہ دیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کیلئے حکمران جماعت کے منحرف ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کی جائے۔ خاص طورپر اس بات کے پیش نظر کہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کیلئے 178وو ٹ حاصل کئے تھے ‘اپوزیشن جماعتوں کو حکمران جماعت کے صرف سات منحرف ارکان کی ضرورت ہو گی‘مگر یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے ۔اگر سات ارکان قومی اسمبلی رکھنے والی سیاسی جماعت اپنی حمایت تبدیل کرتی ہے تو وزیر اعظم کو یقینا اپنا منصب چھوڑنا پڑے گااور اس کے بعد اپوزیشن 172 ووٹوں سے اپنی حکومت بنانے کے قابل ہو جائے گی لیکن اگر منصوبہ پی ٹی آئی کے ارکان توڑنے کا ہے‘ چاہے وہ جہانگیر ترین گروپ ہو یا کوئی اور تو وہ تما م ارکان قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 63-Aکی زدمیں آجائیں گے ۔اس آئینی شق کے مطابق قومی اسمبلی کا کوئی بھی رکن جو وزیر اعظم کے الیکشن ‘اعتماد کے ووٹ ‘ عدم اعتماد کے ووٹ ‘ بجٹ پاس کراتے وقت یا کسی آئینی ترمیم کیلئے رائے شماری کے موقع پر اپنی پارٹی کی ہدایت کے برعکس ووٹ دیتا یا غیر حاضر رہتا ہے تو ایسا رکن منحرف کہلائے گا اور اس انحراف کے بعد ایسا رکن ایوان کی رکنیت برقرار نہیں رکھ سکتا اور طے شدہ پروسیجر کے مطابق اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔تو زیر بحث معاملے میں اگر حکمران جماعت کے سات ارکان تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری میں حکمران جماعت کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیںتو وہ ڈس کوالیفائی ہو جائیں گے اور وہ نئے قائد ایوان کے الیکشن میں اپوزیشن کو ووٹ نہیں دے سکیں گے ۔
ان حالات میں وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے کسی امید وار کے پاس بھی 172ارکان کی مطلوبہ حمایت نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ غالب امکان یہی ہے کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور نئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔لیکن اگر اپوزیشن جماعتوں کا حتمی مطمح نظر یہی ہے تو اس ساری ایکسرسائز کا مقصد کیا ہے؟ اتنا پیچیدہ طریقہ کار اپنانے کے بجائے اپوزیشن جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تما م نشستوں سے استعفیٰ دے کر بھی حکومت کو عام انتخابات کروانے پر مجبور کر سکتی ہیں۔تاہم یہ آپشن جو نوعیت کے اعتبار سے بہت سادہ ہے اور اس کا نتیجہ بھی عدم اعتماد پر ہونے والی رائے شماری جیسا ہی نکلتا ہے تو اپوزیشن لیڈرز کیلئے یہ صورتحال تو کبھی قابل قبول نہیں ہو گی۔کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی جماعتوں کے تمام ارکان استعفیٰ دینے پر آمادہ نہیں ہیں‘مگر پھر بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ تمام عام انتخابات کا مطالبہ کرنے کیلئے تیا رہیں۔یہ سب گورننس اور آئین کے پیچیدہ معاملات ہیں۔یہ امر اتنا اہم نہیں ہے کہ کون وزیراعظم رہتا ہے یا بنتا ہے ‘یہ ایشو تو لمحۂ موجود کا ہے۔سیاسی لیڈرز اس مسئلے میں کامیابی کیلئے آخر تک ہر حربہ آزمائیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں