بھارت کو معاشی ’’تھپڑ‘‘

امریکی صدر ٹرمپ 24 اور 25 فروری کو بھارت یاترا کرنے والے ہیں‘ لیکن یہ کیا کہ نریندر مودی کے دوست ڈونلڈ ٹرمپ نے یاترا سے پہلے ہی بھارت کو ایسا معاشی تھپڑ دے مارا ہے جس کی تکلیف سے بھارتی میڈیا بلبلا رہا ہے۔ درد ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ صدر ٹرمپ نے دورے کو حتمی شکل دینے سے پہلے 10 فروری کو بھارت کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک میں شامل کر لیا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے بھارت کو ترقی یافتہ ملک مان لیا ہے۔ دنیا ہنس رہی ہے کہ دو ہزار ڈالر فی کس ماہانہ آمدنی والا ملک بھی ترقی یافتہ ملک کہلا سکتا ہے؟ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھارت جب جی 20 ممالک کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے تو اسے سٹیٹس بھی ترقی یافتہ ممالک کا ملنا چاہیے۔ بھارتی میڈیا اسے ''ٹرمپ کا معاشی تھپڑ‘‘ سے تعبیر کر رہا ہے۔ امریکی صدر کے اس فیصلے سے بھارتی معیشت کو سالانہ 95 ارب روپے کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے بھارت کیلئے سستے قرضوں کی فراہمی، امریکی منڈیوں تک آسان رسائی اور بھارت کا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب اسے جرمنی، جاپان، روس اور برطانیہ یا دوسرے ممالک کی طرح معیار کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکی منڈیوں تک پہنچنا ہو گا، ورنہ دروازے بند رہیں گے۔
یہ دورہ اپنے اندر بھارت کیلئے کئی مشکلات سموئے ہوئے ہے؛ اگرچہ بھارتی حکومت نے صدر ٹرمپ کے استقبال کیلئے 2 ارب روپے خرچ کرنے کا پلان بنایا ہے۔ ہیوسٹن میں ''ہوڈی مودی‘‘ کا جواب دینے کیلئے احمد آباد سٹیڈیم میں ''کیم چھو ٹرمپ‘‘ کی تقریب منعقد ہو گی۔ احمد آباد سٹیڈیم میںایک لاکھ سے زیادہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہاں تمام کرسیاں بدل دی گئی ہیں۔ کئی کچی آبادیوں کے مکینوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔ مکانات خالی کرنے کے لئے 11 فروری کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ خالی مکانات کے ارد گرد پولیس اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔ بے دخل ہونے والوں نے رشتے داروں کے ہاں عارضی پناہ ڈھونڈ لی ہے۔ 60 عالمی پروازوں کا رخ بدل دیا گیا ہے، بھارت کا اصلی چہرہ چھپانے کیلئے سات فٹ اونچی، 400 میٹر طویل دیوار بنا لی گئی ہے۔ راستے میں آنے والی پان کی دکانیں سیل کر دی گئیں‘ لیکن نریندر مودی صدر ٹرمپ کو پان ضرور کھلائیں گے۔ اتنے تردد کے بعد بھی دورے سے بھارت کو معاشی فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں، سیاسی اور مذہبی مشکلات ضرور جنم لے سکتی ہیں۔
بھارت نے امریکہ کے اس اہم ترین فیصلے کے بعد امریکی منڈیوں تک آسان رسائی کے لئے موسٹ فیورڈ نیشن (FTA) کادرجہ مانگ لیا ہے لیکن ''ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق امریکی صدر کے قریب ترین دوست لنزے گراہم سمیت چار سینیٹر اور انسانی و مذہبی حقوق کے کئی عالمی اداروں نے بھی بھارت میں انسانی اور مذہبی حقوق کی پامالی پر کشمیریوں کی آواز سے آواز ملا دی ہے۔ ان میں مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی کمیشن (United States Commission on International Religious Freedom) بھی شامل ہے۔ لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ انسانی اور مذہبی حقوق کی پامالی کے باعث امریکہ ہی نہیں دیگر تمام ممالک بھی بھارت کے ساتھ تجارت بند کرنے کے پابند ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب مارچ 2001ء میں طالبان نے بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کو نقصان پہنچایا تھا تو سب سے پہلے مذہبی اداروں نے ہی آواز اٹھائی تھی جن میں یونیسف کا ذیلی ادارہ بھی شامل تھا۔ مشکلات سے نکلنے کیلئے پاکستان نے بھی عالمی برادری کی مدد کی تھی۔ یہی الزامات اب کشمیر اور خاص طور پر اتر پردیش (جسے سابق چیف جسٹس مرکنڈے نے ''الٹا پردیش‘‘ لکھا ہے) میں لگائے جا رہے ہیں، مسلمانوںپر یہ پابندیاں بھارت کی عالمی تجارت کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ بھارت کو بھی عدم برداشت سے متعلق طالبان جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کی تجویز پر دنیا بھارت کے ساتھ تمام کاروبار بھی بند کر سکتی ہے۔ امریکی صدر کے دورے سے پہلے مذہبی آزادیوں سے متعلق اہم امریکی ادارے (UNICRF) کی جانب سے بھارت میں انسانی اور مذہبی آزادیوں کی پامالی کا مسئلہ اٹھانا بھارت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
جلتی پر تیل کا کام چار امریکی سینیٹرز کے خط نے کیا ہے۔ لنزے گراہم، کرس وان ہولن، ڈک ڈربن اور ٹاڈ ینگ نے نریندر مودی کی خواہشات پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ ''بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔ امریکی قوانین کے تحت مذہبی اور شہری آزادیوں کو پامال کرنے والے ملک یا ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم نہیں کئے جا سکتے‘‘۔ ان سینیٹرز نے یہ کہہ کر بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری کے دروازے بند کر دیئے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت سے پہلے امریکی دفتر خارجہ کشمیر میں لاک ڈائو ن کا جائزہ پیش کرے۔ مائیک پومپیو کے نام خط میں انہوں نے کشمیر کی صورتحال کو امریکی صدر کے دورہ بھارت کا موضوع بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر میں صحت عامہ، تعلیم اور کاروباری سرگرمیوں اور سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے اسے بھارتی سیکولرازم کیلئے خطرہ قرار دیا ہے؛ چنانچہ ٹرمپ مودی مذاکرات میں معاشی معاہدہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
بھارتی حکمرانوں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ابھینندن کی گرفتاری اور  سرپرائز   ملنے  سے دہلی میں موجود وی وی آئی پی شخصیات غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ بھارتی حکام کے مطابق روسی نظام انہیں تحفظ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نریندر مودی کو نئے حفاظتی نظام کی تلاش ہے۔ دہلی کا میزائل سسٹم تبدیل کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر اور نریندر مودی کے مابین مہنگے امریکی میزائل سسٹم پر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی فضائیہ کی درخواست پر امریکی حکومت نے بھارت کو Ingtegrated Air Defence Weapon System کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کر دی ہے لیکن معاوضہ 1.9 ارب ڈالر مانگ لیا ہے۔ اس سسٹم میں میزائل کے علاوہ کئی اقسام کے ریڈار بھی شامل ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ امریکہ دگنی قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس نے میزائل سسٹم کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘ لیکن امریکی صدر رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہیں‘ کیونکہ بھارت امریکی مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹیاں لگانے والے ممالک میں شامل ہے۔ کئی مصنوعات پر ڈیوٹیوں کے خلاف امریکہ نے ڈبلیو ٹی او سے بھی رجوع کیا تھا۔ امریکہ بھارت کو 30 ''شکاری ڈرونز‘‘ (Predators Drones) دینے پر بھی آمادہ ہے‘ لیکن اس نے فی ڈورن 10 کروڑ ڈالر مانگ لئے ہیں۔ 134 سٹنگر میزائلوں کے حصول کی بات چیت بھی آگے بڑھی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں 24 مہنگے ترین فوجی ہیلی کاپٹروں کے ایک معاہدے کے سوا کسی اور معاہدے کا امکان نہیں ہے۔ 
ایک اہم بات، حکومت کو یہ موقف اختیار کرنا چاہیے کہ پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ یہ دونوں معاہدے اگرچہ ختم ہو چکے ہیں لیکن ان کی شرائط بھی پوری نہیں کی گئی تھیں۔ ستمبر 1954ء میں ہونے والے معاہدے ''سیٹو‘‘ میں پاکستان کا سب سے بڑا پارٹنر امریکہ تھا۔ دیگر ممبران میں برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ اس کے باوجود بھارت نے یہ شرط منوائی کہ امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایف سولہ طیارے بھی اس شرط پر مہیا کئے گئے تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی امریکہ سے کہے کہ اس کا دیا ہوا اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ سرحدی صورتحال کے پیش نظر یہ شرط منوانا مشکل نہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ امریکی اقدامات سے ہمارے لئے معاشی ترقی کے دریچے کھل سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم چاہیں۔ جی ایس پی پلس کے تحت بھارت نے امریکہ کو 2018-19ء میں 6.4 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم ہونے سے یہ تجارت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ بھارت کو کم از کم 95 ارب روپے سالانہ کا فائدہ پہنچتا تھا‘ جس سے وہ محروم ہونے والا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ بھارت نے امریکہ کو اپنی کن مصنوعات کی منڈی بنا رکھا تھا۔ ہم بھی معیاری مصنوعات بنا کر امریکہ برآمد کر سکتے ہیں۔ یہ منڈی اس وقت کھلی ہے اور کسی کا دھیان بھی نہیں ہے۔ ہم امریکہ کے اس فیصلے کو اپنے مفاد میں کیسے استعمال کرتے ہیں اس کا دارومدار ہماری معاشی ٹیم پر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں