بھارتی عدالت کا پاکستان کے حق میں فیصلہ

بھارت نے یہ روایت ہی بنا لی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اپنے ملک میں ہونے والے ہر حملے میں پاکستان کو ملوث کر دیا جاتا ہے۔ ثبوت ہو یا نہ ہو‘ کہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے فلاں شخص کا بھارتی دہشت گرد سے رابطہ تھا۔ ایک جعلی قسم کی وڈیو جاری کرکے ڈرامے کو عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ دہلی میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد عالمی میڈیا کو بھارتی ڈراموں کی سمجھ آ چکی ہے۔ اب عدالتیں بھی محتاط ہو گئی ہیں اور انہیں قانون کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے بھارت میں رہنے والے ایک شخص کا جیش محمد سے تعلق قائم کرنے اور اس کا سہولت کار ہونے کا الزام مسترد کرکے ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کہانی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارت میں کئی دیگر حملوں کے کیسز بھی ایک ایک کرکے جعلی ثابت ہورہے ہیں‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عالمی طاقتوں کے کرتا دھرتا کئی جنم لینے کے بعد بھی بھارتی سازشوں کوسمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
بے نقاب ہونے والی تازہ ترین سازش کے مطابق ''سپیشل این آئی اے جج‘‘ پروین سنگھ نے اس اہم ملزم کو رہا کر دیا ہے جس پر بھارت میں الزام لگایا گیا تھا کہ ''یہی وہ شخص ہے جو دہشت گردی کی ایک نہیں، کئی اہم وارداتوں میں پاکستان سے آنے والے نام نہاد دہشت گردوں سے رابطے میں تھا، یہی حملوں کا محرک بنا اور یہی نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ یہی شخص دہشت گردوں کو کئی اہم وارداتوں میں سہولتیں مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے، اسے یہ بھی علم تھا کہ دہشت گرد پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں لیکن اس نے چپ کا روزہ رکھا اور حملہ ہونے دیا‘‘۔ جج کے بار بار پوچھنے پر این آئی اے نے عدالت میں اعتراف کیا کہ ''شواہد اکٹھے کرنے میں بہت وقت برباد ہو گیا لیکن شواہد اب تک نہیں ملے‘‘۔ اس کے خلاف دو کیسز بنائے گئے تھے۔ انتظامیہ نے مان لیا کہ یوسف چوپان کیس نمبر 08/2019/NIA/DLI (JeM Conspiracy case) میں 7 دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ملوث تھا۔ ایک کیس دو فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی شامل ہے۔ بھارتی ایجنسی نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ''یوسف چوپان نے حملہ آوروں کو لاجسٹک سہولت مہیا کی تھی، ملزم پاکستان میں کسی سے رابطے میں تھا، ایک اور الزام یہ تھا کہ کئی حملوں کے دہشت گرد اس کے گھر سے رابطے میں تھے جس کی وجہ سے حملے ممکن ہوئے ‘‘۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے جس نام نہاد پاکستانی تنظیم سے تعلق رکھنے کے الزام میں اسے گرفتار کیا تھا‘ وہ تعلق بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تفتیش کاروں نے بالواسطہ طور پر مان لیا کہ ''ملزم کے پاکستان سے تعلق کا ثبوت نہیں ملا لیکن مزید تحقیقات جاری ہیں لہٰذا درخواست ضمانت مسترد کر دی جائے‘‘۔
الزامات سنگین نوعیت کے تھے لیکن دہلی ہائی کورٹ میں انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لئے بنائی گئی خصوصی عدالت نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کا کیس تسلیم نہیں کیا۔ خصوصی بینچ نے این آئی اے کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے 17 فروری 2020ء کو حکم جاری کیا کہ یہ بیرون ملک کسی سے بھی رابطے میں نہیں تھا، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں کر سکی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ''بھارتی کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ملزم کا کشمیری حریت پسندوں سے تعلق بھی ثابت نہیں کر سکی۔ جیش محمد سے رابطوں کا ایک ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا۔ یوسف چوپان 6 مہینے سے پولیس کی حراست میں ہے۔ 11 فروری 2019ء کو چالان پیش کرنے کی آخری ڈیڈ لائن بھی ختم ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کیس میں این آئی اے کے پاس کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ دہلی ہائیکورٹ کے بینچ نے یوسف چوپان پر لگائے گئے الزامات کو کمزور اور بنا شواہد کے قرار دے کر 50 ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بھارتی عدالت کے فیصلے کے مطابق دیگر حملوں میں بھی ملزم کا پاکستان سے تعلق ثابت نہ نہیں ہو سکا۔ پاکستان پر لگائے گئے تمام الزامات بھارتی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بے سروپا قرار دے کر اسے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے یوسف چوپان کو مزید قانونی کارروائی میں شامل تفتیش رہنے، شواہد کو نقصان نہ پہنچانے اور گواہوں پر اثرانداز نہ ہونے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس وقت اسے آزاد ہونا چاہیے تھا لیکن کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہی مودی سرکار نے اسے لکڑی چوری کی روک تھام کیلئے بنائے گئے قانون ''پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کے تحت گرفتار کرکے کوٹ بھلوال جیل جموں بھجوا دیا ہے۔ اگر اسی کیس میں یوسف چوپان بے گناہ ہے تو شہید کئے جانے والے دونوں افراد بھی بے گناہ تھے، لہٰذا یہ جنگی جرائم کا کیس بنتا ہے۔
فیصلے پر بھارتی رہنما کافی تنقید کر رہے ہیں لیکن میڈیا کا گلا گھونٹ کر ان خبروں کو دبایا جا رہا ہے۔ کانگریسی رہنمائوں نے کہا ہے کہ ''یوسف چوپان کو پلوامہ حملے میں بھی ملوث کیا گیا تھا لیکن پلوامہ حملے کی پہلی برسی کے موقع پر اسے رہا کر دیا گیا ہے جس پر امیت شاہ اور نریندر مودی کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘‘۔ دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے بھی یہی موقف اختیار کرتے ہوئے پلوامہ حملے کا ذکر کیا ہے اور امیت شاہ سے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔
بھارتی حکومت نے رہائی کے فیصلے کو فی الحال چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اول یا تو اس سے بھارت کا کوئی راز کھلتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کئی حملے بھارتی حکومت نے خود ہی کروائے ہیں۔ دوئم، ساری کہانی من گھڑت ہونے کے باعث مودی سرکار اپنا دامن بچانا چاہتی ہے یعنی اپنی عزت رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کو بھارت سے اس مقدمے کی مکمل کارروائی اور عدالت کا فیصلہ مانگ کر مزید کارروائی کرنا چاہیے۔ ہم اسے اقوام متحدہ میں بھی لے جا سکتے ہیں کیونکہ کئی حملوں کا پاکستان کے حوالے سے بھارت نے دنیا بھر میں شور شرابہ کیا، جو اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے بنا سوچے سمجھے اور وقت ضائع کئے، پلوامہ حملے سمیت کئی حملوں میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ 14 فروری 2019 کو حملہ ہوتے ہی پاکستان پر الزام دھر دیا گیا جیسے سب کچھ پہلے سے ہی تیار ہو۔ یکدم بننے والے عالمی ماحول کی وجہ سے ہم بھی بھارت کو ٹھیک طرح سے چیلنج نہیں کر سکے۔ اگر ہم بھارت سے تفتیش طلب کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ لیکن وہ اپنی ہی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں رابطہ کار بنا کر پیش کئے جانے والے ملزم یوسف چوپان پر یہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے ہم پر ہونے والی تمام الزام تراشیاں کمزور پڑ گئی ہیں۔
اب بھارتی حکومت نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یوسف چوپان کو پلوامہ کیس میں نہیں بلکہ دوسرے دہشت گردوں کا رابطہ کار ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس کا تعلق پلوامہ حملے سے بھی جوڑا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کا کیس نمبر 02/NIA/JMU ہے جبکہ یوسف چوپان اس کیس میں شامل نہیں تھا بلکہ ''جیش محمد‘‘ یوسف چوپان کی مدد سے بھارت کے کئی حصوں میں حملے کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی، کچھ منصوبوں پر عمل بھی کر چکی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارلیمنٹ ہائوس اور پلوامہ حملے کا بھی اسے ہی سہولت کار سمجھا جا رہا تھا۔ رہائی کے بعد عالمی سطح پر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ بھارت کا جیش محمد کے بارے میں اب موقف کیا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نریندر مودی کی ناک کے نیچے دہلی میں بیٹھ کر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نریندر مودی کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ اس کے مطابق یوسف چوپان کا جیش محمد یا کسی اور سے تعلق اور منصوبہ بندی ثابت نہیں ہوئے۔ یوسف چوپان کا جیش محمد سے کوئی رابطہ یا تعلق ثابت نہ ہونے سے این آئی اے کورٹ نے ایک لحاظ سے پاکستان کو کلین چٹ دے دی ہے۔ اس ایک فیصلے سے بھارتی حکومت کا پورا بیانیہ ہی غلط ثابت ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں