ہندوتوا کے رنگ میں رنگی بھارتی سپریم کورٹ

کشمیریو ں کی نظر بندی اور ایودھیہ میں بابری مسجد کی شہادت کو جائز اور نریندر مودی کے خلاف راہول گاندھی کے مقدمے کو ناجائز قرار دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رانجن گوگوئی 17 نومبر 2019ء کو ریٹائرمنٹ کے چار مہینے بعد راجیہ سبھا کی رکنیت کا حلف اٹھانے آج نئی دہلی پہنچیں گے۔ ایوان کے اندر حلف وفاداری کی تقریب جاری ہو گی اور باہر میڈیا میں ''بہت سستا بکے‘‘ یا ''انصاف کے ایوانوں کو داغدار‘‘ کرنے کا شور مچا ہو گا۔ رانجن گوگوئی کی نامزدگی تنقید کی زد میں ہے۔ سابق جج صاحبان اور قانونی ماہرین کی نظر میں یہ بہت سستا سودا ہے، ان کی نامزدگی کا تعلق ان کئی اہم فیصلوں سے بھی جوڑا جا رہا ہے‘ جن میں رانجن گوگوئی کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نقطہ نظر کے حق میں فیصلے سنائے۔ متعدد سابق جج صاحبان کے خیال میں جسٹس گوگوئی نے راجیہ سبھا کا رکن بن کر بھارتی سپریم کورٹ کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ کچھ نے کہا، راجیہ سبھا کا ممبر بننے سے بھارتی سپریم کورٹ کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ گوگوئی پر جنسی ہراسگی کا بھی الزام تھا۔ الزام لگانے والی کوئی اور نہیں سپریم کورٹ ہی کی ملازمہ تھی۔ اس کیس کے حوالے سے انہیں ''می ٹو جج‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس کیس کو شہرت ملی۔ طنز بھرے نشتروں پر رانجن گوگوئی اتنا ہی کہہ سکے ''مجھے ایک بار حلف اٹھانے دو، میں بولوں گا، بہت بولوں گا۔ اداروں کو سمجھنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا حالات کا تقاضا ہے‘‘۔
بھارتی عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے، سیاست اور عدالت کا گٹھ جوڑ ہے یا نہیں؟ یہ کہانی نہایت ہی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ دوستو، زیادہ پرانی بات نہیں۔ یکم دسمبر 2014 کو اپنے ایک ساتھی کے بیٹے کی شادی میں شرکت کیلئے ناگپور جانے والے بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس برج پال لویا پُراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ جہاں لاش ملی وہاں آس پاس کوئی نہ تھا۔ تقریب میں چند دیگر جج صاحبان بھی شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی جج دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا ایک حصہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا کیونکہ جسٹس لویا بطور سی بی آئی جج بھارت کے ایک اہم ترین مقدمے ''سہراب قتل کیس‘‘ کی سماعت کر رہے تھے۔ سہراب قتل کیس میں امیت شاہ بھی ملوث تھے۔ قبل ازیں یہ مقدمہ جسٹس جے ٹی اٹپت (J T Utpat) کے پاس تھا۔ امیت شاہ ان کی عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن وکیل انہیں بری کرنے کا نکتہ اٹھاتا رہا۔ جسٹس جے ٹی اٹپت نے امیت شاہ کو عدالت میں پش ہونے کا حکم دیا، وہ پھر بھی نہ آئے۔ یہ نافرمانی جسٹس جے ٹی اٹپت کو ناگوار گزری۔ انہوں نے عدم حاضری کو ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے اگلی پیشی پر ہر صورت میں عدالت میں آنے کا حکم دیا۔ وہ پھر بھی نہ آئے۔ جج صاحب کے فیصلہ سنانے سے عین ایک دن پہلے انہیں تبدیل کرکے چیف جسٹس نے یہ کیس جسٹس لویا کے سپرد کر دیا۔ کیس جسٹس لویا کے سپرد ہوتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ جسٹس لویا بھی دبائو قبول کرنے والوں میں شامل نہ تھے۔ امیت شاہ جسٹس لویا کا حکم ماننے سے بھی انکار کرتے رہے۔ ان کا آخری حکم تھا ''امیت شاہ کو مزید چھوٹ نہیں ملے گی، وکیل 15 دسمبر کو امیت شاہ کی عدالت میں حاضری یقینی بنائیں‘‘۔ یہ حکم صادر کرنے کے بعد جسٹس لویا ناگپور چلے گئے‘ جہاں ان کی لاش ملی۔ نئے بینچ نے امیت شاہ کو سنے بغیر ہی بری کر دیا۔ ایسا دنیا میں پہلی بار ہوا کہ ملزم عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا اور عدالت نے ملزم کا مؤقف سنے بغیر اسے بری کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ امیت شاہ بغیر سماعت کے بری ہونے والے پہلے خوش نصیب ٹھہرے۔ میڈیا کے ایک حصے نے خفیہ ریکارڈنگ کی مدد سے یہ ثابت کر دیا کہ جسٹس لویا کی موت دل کا دورہ پڑنے سے نہیں ہوئی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ اس قتل میں بھی امیت شاہ کا نام سامنے آیا۔ ان کے سر پر زخم کا نشان تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ ڈاکٹر این کے تمران (Dr NK Tumram) کی ذمہ داری تھی‘ لیکن ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ ڈاکٹر این کے تمران کی جگہ پوسٹ مارٹم رپورٹ مہاراشٹر حکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر سدھیر منگنتیور (Sudhir Mungantiwar) کے بھائی ڈاکٹر ویا وہیئر (Vyawahare) نے مرتب کی۔ وزیر کے بھائی جسٹس لویا کے سر پر چوٹ کا نشان گول کر گئے۔ 2018 میں یہ کیس بھارتی سپریم کورٹ میں جوبن پر تھا۔ 
سابق چیف جسٹس دیپک مشرا نے عدالت پر دبائو کو دیکھتے ہوئے نیا تین رکنی بینچ بنا دیا۔ وہ خود بینچ کے سربراہ بن گئے جبکہ جسٹس اے ایم خانولکر اور جسٹس چندر چند دوسرے دو ممبران تھے۔ انہوں نے پہلے ہی حکم کے ذریعے ممبئی ہائی کورٹ میں جسٹس لویا کے قتل سے متعلق دائر کردہ تمام کیسز اپنی عدالت میں طلب کر لئے۔ چیف جسٹس دیپک کے حکم پر عمل درآمد سے پہلے، اسی روز، 12 جنوری 2018 کو دہلی میں دنیا کی تاریخ کا منفرد واقعہ پیش آیا تھا جب جسٹس گوگوئی کی قیادت میں جسٹس جوزف، جسٹس بوڑے، جسٹس مدن بی لوکڑ اور جسٹس جے شیلامیسور (J Chelameswar) نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ خبروں کا موضوع بنا تھا۔ سب سمجھے کہ شاید بھارت میں کوئی نئی قسم کی عدالتی بغاوت ہونے والی ہے۔ کیا معلوم تھا کہ اس بغاوت کے پیچھے کوئی اور نہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے خفیہ ہاتھ ہی کارفرما ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں 2019ء میں اپنی طاقتور حکومت کے قیام سے پہلے نئی سپریم کورٹ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ یوں کہہ لیجئے، بھارت میں سپریم کورٹ کی بنیادیں ہی ہلا دینے کے خواہش مند تھے۔ وہ کانگریس دور میں تعینات ہونے والے دیپک مشرا کی جگہ نیا چیف جسٹس چاہتے تھے۔ ان کا الزام تھا کہ دیپک مشرا اہم مقدمات خاص خاص ججوں کو دے رہے ہیں۔ اس پُرہجوم پریس کانفرنس کے کرتا دھرتا دیپک مشرا کی جگہ لینے والے رانجن گوگوئی تھے۔ پریس کانفرنس کے بعد دوسرے سینئر ترین جسٹس شیلامیسور مستعفی ہو گئے۔ یوں جسٹس گوگوئی کا راستہ ہموار ہو گیا۔ اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد بینچ کے ایک جج ارون مشرا کیس کی سماعت سے الگ ہو گئے۔ میڈیا چیختا رہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چار جج سرعام اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس سجا لیں، اور کوئی انہیں پوچھے ہی نہ‘ کوئی خفیہ ہاتھ ضرور ہے جو انہیں اکسا رہا ہے۔
نئی سپریم کورٹ نے جسٹس لویا قتل کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا۔ پھر تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں فیصلوں کی لمبی لائن لگ گئی۔ ایک دو نہیں، سات آٹھ اہم ترین مقدمات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مؤقف کی تائیدوحمایت کی گئی۔ راجیہ سبھا کی ممبرشپ ان فیصلوں کا انعام ہے جن پر تنقید ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ نومبر2019 میں ان کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے بابری مسجد کی جگہ ہندوئوں کے حوالے کر دی۔ یہ دنیا کا واحد کیس ہے جس میں سفرناموں کے بھی حوالے دیئے گئے ہیں‘ حالانکہ نچلی عدالتوں میں مسلمان جیتتے رہے ہیں۔ اگست 2019 میں آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کرنے کے خلاف درخواستیں سننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ ''مرکز کو وقت دینا ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بچوں کی گرفتاری اور حبس بے جا کی درخواستوں پر بھی قابل ذکر کارروائی کرنے سے گریزکیا۔ ان کے دور میں ایک بھی نظربند کشمیری کو رہائی نہ ملی۔ گوگوئی 2014 سے 2019 تک شہریت بل کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ تھے۔ اس کیس میں بھی انہوں نے حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے۔ نومبر میں ہی انہوں نے نریندر مودی کو بھی کلین چٹ دے دی۔ رافیل طیاروں کی خریداری میں بدعنوانی کا الزام لگانے پر راہول گاندھی نریندر مودی کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے تھے۔ انہیں ناکام لوٹنا پڑا۔ اس کے برعکس ''چوکیدار چور ہے‘‘ کہنے پر سابق جسٹس گوگوئی نے راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں دیئے گئے فیصلوں کی ایک لمبی فہرست سے اس کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ بھارت میں سپریم کورٹ بھی ہندتوا کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں