'' ایک لڑکا دونوں ہاتھوں میں ایک ایک سیب لیے کھڑا تھا۔باپ نے بیٹے سے کہا : '' ایک مجھے دے دو‘‘۔
بیٹے نے تیزی سے سیب کو کاٹ لیا۔
باپ حیران ہوا لیکن اس نے کہا کہ '' دوسرا سیب مجھے دے دو۔
ابھی ان کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ بیٹے نے دوسرے سیب کو بھی کاٹ لیا۔باپ مایوس ہو گیا۔ بیٹے کا رویہ تکلیف دہ تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ کہنے لگا: ''ابو! یہ لے لیں۔یہ زیادہ میٹھا ہے‘‘۔
میں ان سب سے کہتا کہ کیا تم نے سیب چکھ کر دیکھا ہے کہ یہ میٹھا ہے یا نہیں؟
7فروری 2017ء کو استعفیٰ بھیجا اور ''موبائل بند کرکے گہری نیند سو گیا‘‘! یہ دراصل نیا محاورہ ہے جو گھوڑے بیچ کر سونے کے ہم معنی ہے۔ اور 8 فروری 2017ء کو جوائننگ دے ڈالی۔مجھے معلوم ہو گیا کہ ''سیب‘‘ میٹھا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ‘ جب سے ادارہ بنا ہے‘ کام کر رہے ہیں۔
یہاں کا ماحول کافی بدلا بدلا تھا‘ مین گیٹ پر سکیورٹی والے چوکس کھڑے تھے ورنہ ایک دفتر میں سکیورٹی انچار ج کی موجودگی میں مین گیٹ سے چار فٹ کے فاصلے پر بائیک چوری ہو گئی‘ ان کا جواب تھا... ''ہمیں کیا معلوم کون لے گیا۔ ہم آپ کی سکیورٹی کیلئے تھوڑی آئے ہیں‘ ہم تو آفس کے محافظ ہیں‘‘۔ یہاں چوکس اہلکاروں کو دیکھ کر احسا س ہوا کہ میں محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔
دفتر کے اندر داخل ہوتے ہی اچھے ذوق کاپتا چلا‘سلیقے سے سجے گملے دن بھر کی تھکن اتارنے کیلئے کافی تھے۔ صبح سے شام تک کئی کئی بار فرش دھلتا۔ سامنے کامن روم تھا‘ جہاں اتنی چائے ملتی کہ کیفین کی بھرمار سے نشہ سا ہونے لگتا تھا۔ ساتھ ہی ایکسرسائز روم تھا وہاں میں اس لئے نہیں جا سکا کہ کہیں ورزش سے ہڈیاں ہی نہ چٹخ جائیں۔
آفس کے اندر داخل ہوا تو لفٹ کی الگ ہی شان تھی۔ بغیر کھڑ کھڑ کے چلتی تھی۔ آفس میں ہر کسی کو منرل واٹر ملتا ہے‘ پہلے تو سب کی چائے بھی فری تھی لیکن ''مالی کرنچ‘‘ نے یہ سہولت چھین لی۔ آفس کا ایک آدمی روزانہ ہی آ کر تمام میزوں کرسیوں پر انگلی مار کر چلا جاتا‘ پہلے تو میں سمجھ نہ سکا پھر پتا چلا کہ وہ صفائی چیک کر رہا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ صاف پانی کی فراہمی اور مٹی کم ہونے کی وجہ سے یہاں بیماریاں بھی کم ہیں۔ نیچے بیسمنٹ میں گیا تو کاروں کی بھرمار تھی‘ میں سمجھ گیا کہ تنخواہیں ٹھیک ہوں گی جبھی توبہت سے لوگ کاروں میں آتے ہیں۔
کرسی پر براجمان ہوتے ہی ایک ٹینشن نے آ لیا۔ ایک آواز گونجی...''صفحہ 18پر درد ِسر میں درد کے نیچے زیر ِاضافت نہیں ہے‘‘۔ میرے 14طبق بلکہ 114طبق روشن ہو گئے۔ یہ 114طبق بدستور روشن ہیں کیونکہ میں نے 36سال سخت مقابلے کی فضا میں گزارے تھے جہاں ایک ایک لفظ چھپا چھپا کر لکھا جاتا تھا‘ مسابقت کے ماحول میں ہم تو اگلے روز شائع ہونے والے دوسرے اخبارات کے سنڈے میگزین کے اشتہار سے سرخیاں دیکھ کر بھی مضمون بنا کر شائع کر دیا کرتے تھے۔ لیکن میں یہاں سرگوشیوں کا ماحول قائم نہ کر سکا۔
مجھے ''پرانی زندگی‘‘ میں اپنے بعض مضامین پر منہ کی کھانا پڑی تھی۔ میرے ایک مضمون کی ''مذمت‘‘ میں آزادیٔ صحافت کے ایک علم بردار نے صفحہ اول پر تردیدی خبر شائع کر دی تھی۔وہ صاحب شاید اِن دنوں آزادیٔ صحافت کے کسی درس کی خاطر بیرونِ ملک گئے ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں مجھے ساڑھے چار سال میں کبھی سنسرشپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ البتہ سیلف سنسر سے ضرور کام لیا۔ مجھے یہاں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک روز میٹنگ روم میں تمام اخبارات سامنے پڑے تھے‘ ہمارے اخبار سے ایک بڑے سرکاری ادارے کی کمپین غائب تھی۔ سی او صاحب نے اسلام آباد آفس سے کہا کہ ''... کی کمپین ہمارے پاس نہیں ہے‘ آپ کو وجہ معلوم ہے؟‘‘ اسلام آباد آفس کو بھی کچھ معلوم نہ تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ ''میں آج ہی دیکھتا ہوں‘‘۔ اس میٹنگ سے چند ہی گھنٹے پہلے مجھے اسلام آباد سے ایک فون آیا تھا۔ دوست کہہ رہے تھے ''تم نے مروا دیا۔ کل ایک بڑے افسر کافی ناراض تھے۔ انہوں نے 'دنیا نیوز‘ کے اشتہار بند کرنے کا حکم دے دیا ہے، اس لئے آج کا اشتہار آپ کو نہیں ملا‘‘۔ میرا اخبار پہلے ہی بزنس کے معاملے میں کمزور تھا‘ لیکن تنخواہ ٹائم پر مل جاتی ہے‘ کچھ بھی ہو جائے‘ ایک دن پہلے تو مل سکتی ہے لیکن ایک دن لیٹ نہیں ملے گی۔ اس افسر کی باتوں نے پریشان کر دیا۔ میں نے پیشکش کی کہ '' ان سے کہہ دو کہ غریب تنخواہ داروں کے ساتھ مارا ماری نہ کریں‘ میں جھوٹ تو نہیں لکھوں گا‘ لیکن اس ادارے کے بارے میں لکھوں گا ہی نہیں۔ اشتہار کھول دیں‘‘۔ یہ سیلف سنسرشپ ساڑھے چار سال جاری رہی اور میرے آفس میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ میں دیگر صحافیوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اگر کسی کی تنخواہ دس‘ بیس لاکھ روپے ہو‘ تب بھی یاد رکھیں کہ آپ کی حمایت میں بھوک ہڑتال کرنے والوں کی تنخواہیں بیس بیس سال سے منجمد ہیں یعنی اگر مشرف دور والے 200 روپے کے آٹے الائونس کا اضافہ ہو جائے تب بھی غنیمت ہے۔ ہر بات لکھی جا سکتی ہے لیکن ہوش کے ناخن لے کر۔ میں نے مذکورہ ادارے کے بارے میں ہوش کے ناخن لے کر ہی لکھا تھا لیکن (سابق) اعلیٰ افسر نے کچھ زیادہ ہی جوش دکھا دیا تھا۔ مجھے ساڑھے چار سال میں ادارے کی جانب سے کبھی سنسرشپ کی پریشانی ہوئی نہ پیسوں کی۔
میں نے سنا ہے کہ کچھ اداروں کی مینجمنٹ کافی سخت ہے‘ یہاں مجھے ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ بہت سی باتیں احمقانہ افواہیں ہیں۔ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ ہاں! یہ بات سمجھنے کی ہے‘جو میں ہر جگہ کہتا ہوں کہ جب کسی بھی ادارے کا مالک ہلکے سے کہہ دے کہ ''یہ کیا ہو گیا؟‘‘ تو اس میں کتنا وزن ہوتا ہے‘ یہ وہی جانتا ہے جس سے بات کی جاتی ہے۔ میں اور آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ مینجمنٹ کے اس اصول کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی سے ٹاپ پر بیٹھے ہوئے افسر کے بارے میں حقیقی رائے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
میں آخر میں ایک ہی بات کہہ سکتا ہوں‘ اور شاید بار بار کہہ سکتا ہوں...میں نے بہت ہی اچھے ماحول میں کام کیا‘ مجھے یہاں بہت عزت ملی‘اتنی عزت ملی کہ کبھی کبھی تو شرمندگی سی ہونے لگتی تھی کہ بات سچ ہے یا مذاق ہو رہا ہے!
میرے ساتھ ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔ میں نے متعدد مذہبی اور تعلیمی ذہن کے حامل لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ چھوٹا موٹا چینل کھولیں‘ میں فری میں کچھ نہ کچھ کام کر دوں گا۔اب کئی اطراف سے دبائو ہے کہ ہم نے انویسٹمنٹ کر لی ہے تم کہاں ہو؟میں نے ان دو مقاصد کے لئے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا۔ کئی تعلیمی اداروں سے تعاون کیا ہے لیکن دل سے خوشی کے ساتھ۔ اب یہی نئی منزل ہے۔
یہیں تک تھا سفر اپنا! (ختم)