"FBC" (space) message & send to 7575

’’لاشوں کا سایہ ‘‘

مارچ 1993کے دن تھے،،شدید قحط سالی کے شکار افریقی ملک سوڈان کے جنوبی علاقے میں ایک چودہ ، پندرہ سال کا بچہ شدید گرمی میں لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن دو، تین قدم ہی آگے بڑھ سکا تھا کہ گر گیا اور پھر جھکتے جھکتے اْس کا سر زمین کے ساتھ آن لگا...بچے کے عقب میں بیٹھا ہوشیار گدھ بھانپ چکا تھا کہ اب کوئی بھی اِس بچے کو اْس کا نوالہ بننے سے نہیں بچا سکتاتھا ۔اتفاق سے اپنی ٹھنڈی ٹھار کار میں وہاں سے گزرتے ہوئے ایک امریکی فوٹوگرافر کیون کارٹر نے اِس منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔ کیون کارٹر کے مطابق وہ ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کیے گئے خوراک کے مراکز کی فوٹو گرافی کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں اْس نے یہ منظر دیکھا،کیون کارٹر نے یہ تصویر نیو یارک ٹائمز کو بیچی اور نیویارک ٹائمز کے مطابق جب یہ تصویر شائع ہوئی توصرف ایک دن میں ہزاروں لوگوں نے اْن سے رابطہ کیا اور اس لڑکے کا انجام جاننا چاہا کہ کیایہ بچ گیا تھا؟لیکن نیو یارک ٹائمز والے خود اس کے انجام سے بے خبر تھے لیکن کیون کارٹر کا انجام پوری دنیا نے دیکھا جو اِس تصویر کے بعد سے اکثر اداس رہنے لگا اور ہوتے ہوتے ڈپریشن کا مریض بن گیا آخر اس نے تینتیس سال کی عمر میں خود کشی کر لی جس کا طریقہ بھی بہت عجیب تھا۔وہ اپنے گھر کے پاس والے اس میدان میں گیا جہاں وہ بچپن میں کھیلتا تھا اس نے اپنے کار کے سائلنسرمیں ایک ٹیوب فکس کی اور اس ٹیوب کو ڈرائیونگ سیٹ والی کھڑکی سے کار کے اندر لے آیا تمام کھڑکیاں تمام دروزے لاک کر دیے اور گاڑی اسٹارٹ کر دی،گاڑی میں سائلنسر سے نکلتا ہوا دھواں بھرنا شروع ہوگیا اور کاربن مونوآکسائیڈ نے کیون کی جان لے لی۔مرتے ہوئے کیون نے اپنے پیچھے صرف یہ تحریر چھوڑی،" درد،بھوک ،اور فاقوں سے مرتے بچوں کی لاشوں کا مجھ پر سایہ ہے۔
کھانا کھل گیا تھا جس کے بعد ہرکسی کی زندگی کی آخری خواہش صرف کھانے کا حصول ہی بن گئی تھی،دھکم پیل ہورہی تھی اور ہمارے جیسے رکھ رکھاو والے احباب بھی اِس میں کسی سے پیچھے نہیں تھے ، ہنگامہ تھوڑا سا تھماتو سب اپنی ٹھونس ٹھونس کر بھری پلیٹیں لے کر اپنی اپنی نشستوں پر جا بیٹھے لیکن ذہن میں یہی سوچ کلبلا رہی تھی کہ جلدی اِسے کھانے کو ختم کریں اور پھر باقی کھانے سے انصاف کریں لیکن پہلے ہی اتنا زیادہ کھانا ڈال لیا گیا تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا اور پھر حسب روایت، حسب دستور، حسب نیت ، کھانے کی کافی بڑی مقدار پلیٹوں میں ہی چھوڑ دی گئی، بہت سی صورتوں میں یہ کہتے ہوئے کہ ، مزا نہیں آیا، کھانے میں گھی کچھ زیادہ تھا لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ شکم پر ہوچکے تھے، اتنے کہ چورن کھانے کی گنجائش بھی نہیں رہی تھی کہ کھانا پہلے ہی اپنی بھوک سے بہت زیادہ ڈال لیا گیا تھا اور وہ خوراک گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق ، ہرسال ضائع کردی جانے والی 28 سے 30 کروڑ ٹن خوراک کا حصہ بن گئی ، اْس خوراک کا حصہ جو ہم جیسے پیٹ بھرے ضائع کرتے ہیں تو جنوبی سوڈان کے گرم تپتے اور قحط کے شکار علاقے میں چودہ، پندرہ سال کا بچہ موت کا لقمہ بن جاتا ہے اور صرف جنوبی سوڈان کے اِس بچے کا ہی ذکر کیوں، گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کل نوسو پچیس ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں بائیس ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں۔
یہ کچھ ذہن میں اِس لیے ہیجان برپا کررہا ہے کہ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جاری ہونے والی نئی رپورٹ اتفاقاً نظر سے گزری ہے اور ایسی گزری ہے کہ اِس نے دل و دماغ میں زلزلہ سا برپا کردیا ہے ،رپورٹ کے مطابق حضرت انسان ہرسال پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی یا تینتیس فیصد ضائع کردیتا ہے جس کی سب سے زیادہ مقدار ایشیا میں ضائع کی جاتی ہے برطانوی ادارے ویسٹ اینڈ ریسورس ایکشن پروگرام کے مطابق ایشیا کے بعد یورپ اور شمالی امریکہ کا نمبر آتا ہے اور بات اگرجنوب ایشیائی ممالک کی حد تک کی جائے تو رپورٹ کے مطابق افغانستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کو بھی بڑھتے ہوئے غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے انتہائی کوششیں کرنا ہوں گی کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی میں سے پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں پیٹ بھر کھانا میسر نہیں لیکن ایک بڑا طبقہ خوراک وافر مقدار میں میسر ہونے کے باعث اِسے استعمال نہ کرسکنے کی وجہ سے ضائع کردیتا ہے گویا جب ہم گھر میں ، کسی تقریب یا پھر ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے اِس کی کچھ مقدار ضائع کرتے ہیں تو دراصل ہم بھوکے انسانوں کی بھوک میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں، ہم چاند سے چہروں پر بھوک سے پیدا ہونے والی نقاہت کو مزید بڑھا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھوکا رہے ، ہم میں سے کسی کو بھی بھوکے افراد کی لگی قطاریں دیکھ کر مسرت حاصل نہیں ہوتی ، ہم میں سے کوئی بھی تو ایسا نہیں ہوگا جو چاہے گا کہ ایک ایسے ملک کا کوئی بھی فرد بھوکا رہے،، جسے قدرت الٰہی نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے،جس کے پاس تقریباً 55 ملین ایکڑ قابل کاشت زمین ہے لیکن پھر بھی بھوک کا عفریت منہ زور ہوتا چلا جارہا ہے۔
ایسے میں اکثر یہ سوچ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ایسی صورت حال میں بہتری لانا تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے میں بھلا کیا کرسکتا ہوں، صرف میرے کھانا کم کھانے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟فرق پڑ سکتا ہے ، فرق پڑ سکتا ہے اگر نہیں یقین آتا تو صرف دوتین چھوٹے چھوٹے کام کیجئے، آج سے گھر میں جتنے نفوس ہیں ان سے زیادہ کا کھانا نہیں پکے گا،اگر پکے گا تو اگلے وقت وہی کھایا جائے گا یا اِس کا کچھ حصہ کسی ضرورت مند کو دیا جائے گا، صرف اتنا کرنے سے ہی معلوم ہے کیا ہوگا ، کم ازکم ایک ملین لوگوں کی بھوک مٹا ئی جاسکے گی ، بھوک نہ ہو تو کچھ مت کھائیے اور تھوڑا مزید کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہو تو ویسٹ اینڈ ریسورس ایجنسی کے مطابق صرف فریج کا مناسب درجہ حرارت اور پیکنگ کا بہتر معیار ہی اربوں ڈالر کی خوراک ضائع ہونے سے بچا سکتا ہے، تیسری دنیا میں ریفریجریٹر اور ٹھنڈک کی فراہمی سے کم از کم ایک چوتھائی خوراک خراب ہونے سے محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔۔یہ سب کرنے کے لیے کوئی کسی خاص تردد کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن ایسی کوششوں کے نتائج شاندار برآمد ہوں گے جس کی ایک قابل تقلید مثال ڈنمارک کی روسی نژاد شہری سلینا جول نے قائم کی ہے ، چلتے چلتے تھوڑی سی بات سلینا کے بارے میں بھی کرلیتے ہیں۔
سلینا جول ، روس سے ڈنمارک آئی تو یہاں وہ خوراک کی فراوانی دیکھ حیران اور اِس کی ضائع ہونے والی مقدار دیکھ پریشان ہوگئی جو روس میں اکثر اِس بات سے لاعلم ہوتی تھی کہ آج اْسے پیٹ بھر کھانا ملے گا یا نہیں۔ سلینا نے فیس بک پر ، سٹاپ ویسٹنگ فوڈ، کے نام سے پیج بنایا،لوگوں کی سوچ کو بدلا، ڈنمارک کے 283 سٹورز نے اِس ترغیب کے نتیجے میں خوراک کی اضافی خریداری پر آفرز کو ختم کردیا اور آج اْس کے باعث ڈنمارک میں خوراک کے ضیاع میں 25 فیصد کمی آچکی ہے، یہ خاتون کسی دن چھٹی نہیں کرتی ۔اس کا کہنا ہے کہ خوراک کا ضیاع، قدرت، معاشرے اور خوراک تیار کرنے والوں کی بے عزتی ہے اور ایسا کسی صورت نہیں ہونا چاہیے، تو بس پھر ہمیں بھی اِس حوالے سے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا یا پھر یہ الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار ہوجانا چاہے کہ ہم پر... درد،بھوک ،اور فاقوں سے مرنے والوں کی لاشوں کا سایہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں