"FBC" (space) message & send to 7575

ون وے

میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، بقائمی ہوش و حواس لکھ رہا ہوں لہٰذا آپ کو یہ تصور کرنے کی ضرورت نہیں کہ میرے دماغ کا کوئی پیچ ڈھیلا ہے ہاں البتہ میں ضرور دوسروں کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہوں، وجہ، وجہ بہت ہی سیدھی سی ہے کہ اِس بیس، بائیس کروڑ کی آبادی میں ایک میں ہی تو پڑھا لکھا ہوں، ایک میں ہی تو ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے نواز ہے ورنہ یہاں تو اکثریت بس ایسے ہی ہے،نہیں یقین آتا تو بیٹھئے میرے ساتھ گاڑی میں اور چلئے میں آپ کو سڑکوں پر بھیڑ بکریوں کا ہجوم دکھاتا ہوں،ارے باپ رے ، دیکھئے ہے کوئی اِن لوگوں کو تمیز ، نہ اِنہیں ٹریفک قوانین سے کوئی آگاہی ہے نہ ٹریفک سگنل کی پابندی کرنے کی تمیز ہے ، اوہ ، دوسری سڑک پر جانے کے لیے تو بہت طویل چکر کاٹنا پڑے گا اوراِس میں تونہ صرف بہت وقت بلکہ اچھا خاصا پٹرول بھی صرف ہوجائے گا ،چلیں کوئی بات نہیں مجبوری میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے ،لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ یہ بے شمار دوسرے لوگ کیوں ون وے کی خلاف ورزی کررہے ہیں، اُنہیں کیا مجبوری ہے ،ابے ، اوئے ،اندھا ہوگیا ہے نظرنہیں آتا، سیدھا میرے گاڑی کو ٹھوک دیا ہے جاہل ، بد تمیز، جواب آں غزل کے طور پر جواب ملا، حد ہوگئی ہے، ون وے کی خلاف ورزی آپ کررہے ہیں اور اُلٹا مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں،ہاں تو تمہیں تو دھیان سے گاڑی چلانی چاہیے تھی نا،اُس کی بدتمیزی پر جو غصہ آیا تو جواباً میں نے اُس سے بھی اونچی آواز میں کہا کہ ،اوئے چل چل اپنا کام کر خواہ مخوا مجھ سے بحث مت کرو بھئی کیسے کیسے جاہل لوگ ہیں اِس ملک میں جنہیں بات کرنے کی تمیز بھی نہیں ہے ،ابھی یہ بلا ہی نہیں ٹلی تھی کہ ٹریفک وارڈن بھی آن دھمکا اور جیسے ہی اُس نے اپنی چالان بک نکالی تو میں غصے سے لال بھبھوکا ہوگیا لیکن اُس گھٹیا شخص نے میری ایک نہ سنی اور میرا چالان کردیا،، خیر چھوڑا تو میں نے بھی نہیں اُس کو ، میری بھی اوپر تک پہنچ ہے چنانچہ معطل کرا کے ہی دم لیا، اُس کی ہمت کیسے ہوئی کہ میرے جیسے پڑھے لکھے ،قانون اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے و الی شخصیت کا چالان کرے۔
یہی حال ہمارے ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کا بھی ہے،،یہ کیا سیاستدان ہیں، ہے کوئی اِن میں ایک بھی ڈھنگ کا آدمی ، اگر یہ لوگ ڈھنگ کے ہوتے اور کچھ عقل رکھتے تو کیا اِنہیں انگلی پکڑ کر چلانا پڑتا 70 سال ہوگئے ہیں حالانکہ اِنہیں آغاز سیاست سے ہی سکھایا جاتا ہے ، بتایا جاتا ہے کہ اُس راستے پر نہیں ، اِس راستے پر چلو، لیکن معلوم نہیں سیدھے راستے پر چلتے چلتے کیوں ،غلط راہ پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر نتیجہ بھگتتے ہیں،ہاں اِن کے ساتھ ایسا تو ہونا ہی چاہیے ، آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ قیام پاکستان سے ہی اِن سیاستدانوں نے سب کا ناک میں دم کیے رکھا، ایک کے بعد ایک حکومت،لیکن جب ہمارے ہمسایہ ملک کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے یہ پھبتی کسی کہ اتنی تو میں نے دھوتیا ں نہیں بدلیں جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل چکی ہیں تو پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا لہٰذا ، نہ چاہتے ہوئے بھی ،بہت ہی بوجھل دل کے ساتھ 7اکتوبر 1958 ء کی شام کو مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ کرنا پڑا تو تب کہیں جا کر سیاسی حکومتوں کے آنے جانے کا سلسلہ تھم پایا ورنہ تو اِن لوگوں نے ملک کو دنیا بھر میں مذاق بنا کررکھ دیا تھا،اور یہ جو بوجھل دل والی بات ہے اِس کو تقویت جنرل امراؤخان کی کتاب ایک جرنیل کی سرگزشت میں لکھے ہوئے ایک باب سے بھی ملتی ہے کہ بقول میجرجنرل امراؤخان کے، وہ تو جیسے کانپ سے اُٹھے ، اِس حوالے سے وہ خود اپنی کتاب،ایک جرنیل کی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ7 اکتوبر کی شام مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ ہونے کے بعد میں نے نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت و رہنمائی کی دعا کی کہ مارشل لاء نے مجھے بے انتہا اختیارات دے دیئے تھے چنانچہ میرے لیے ان کو انصاف سے استعمال کرنے کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہو گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ میں نے خدا سے ہدایت اور رہنمائی کی دعا مانگی تھی ،میں نے محسوس کیا کہ اگرملک کے کسی کونے میں فوجیوں نے کوئی بے انصافی یا جرم کیا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی،اور پھر جب 8 اکتوبر 1958 ء کی صبح کو مارشل لا نافذ کیا گیا تو جنرل امراؤ خان خود بھیس بدل کرعوام میں گھومتے پھرتے رہے تاکہ عوام کا رد عمل معلوم کرسکیں ،لیکن راوی تو ہرطرف چین ہی چین لکھ رہا تھا، عوام خوش تھے کہ سیاستدانوں سے جان چھوٹی،،سیاست دان ناعاقبت اندیش نہ ہوتے تو 25 مارچ 1969 ء کو ایوب خان اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد تو نہ کرکے جاتے ۔خیر ہمیں اِس بحث سے کیا لینا دینا کہ یحییٰ کے بعد طویل عرصے بعد بحال ہونے والی جمہوریت اور اِس کے نتیجے میں منتخب ہونے و الے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کون سا تیر مارلیا تھا،اگر اُن کے حمایتی اُن کا سب سے بڑا کارنامہ 1973 ء کا متفقہ آئین دینا قرار دیتے ہیں تو اِس میں ایسی کیا بڑی بات ہے ،، کیا خا ک متفقہ آئین دیا تھا اُنہوں نے قوم کو کہ خود ہی اُنہوں نے اِس کے ابتدائی پانچ برسوں میں ہی اِس میں سات ترامیم کردی تھیں تو پھرآپ ہی بتایا کہ یہ متفقہ کیسے رہ گیا جسے ایسے ہی آج بھی خواہ مخواہ ملکی سالمیت کا ضامن سمجھا جاتا ہے اگرچہ بعد میں اِسے اپنے اپنے مفادات کے لیے بھی جمہوری اور غیرجمہوری حکومتوں نے بھی اِسے تختہ ستم بنائے رکھا، اور ویسے بھی اگر عوام ایک جمہوری وزیراعظم سے خوش ہوتے تو پھر 1977 ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد اِن میں ہونے و الی دھاندلی کے خلاف اِس طرح جوق در جوق باہر نکلتے کہ سڑکیں مظاہرین سے بھرگئیں اور ہرطرف انتشار پھیلنے لگا اور مجبوراً جنرل ضیاء الحق کو 5جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ کرنا اور ملک کے تیسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنا پڑا،اب اِس میں بھی دیکھ لیجئے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے سیاستدانوں کا ہی ہاتھ تھا جنہوں نے باہم دست و گریباں ہوکر صلح صفائی میں اتنی دیر کردی کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنا پڑی اگرچہ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات شب پاکستان قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کسی حد تک یہ طے ہوگیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوجائیں گے ، اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی، نگران سیٹ اپ لایا جائے گا اور ملک بھر میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے، لیکن جب کوئی فیصلہ دیر سے کیا جائے گا تو اُس کا نتیجہ بھی بھگتنا ہی پڑے گا ۔
خیر یہ بحث تو بہت ہی طویل ہے کہ جنرل ضیاالحق کے 11سالہ دوراقتدار کے بعد جو جمہوریت بحال ہوئی تھی تو پھر کیسے جوتیوں میں دال بٹنے لگی تھی اور پھر جنرل مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت اور جمہوری حکومتوں نے کون سا تیر مارلیا ہے،ہاں پیپلزپارٹی نے قدرے ہوش کے ناخن لیے تھے اور وہ اپنا پانچ سالہ دوراقتدار پورا کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ سیدھے راستے سے بھٹکنے والوں کو تین مرتبہ اپنے کیے کی سزا مل بھی چکی ہے، لیکن لگتا ہے کہ وہ سدھرنے کے قابل نہیں اور یہی ہمارا بھی اِن سے اختلاف ہے کہ بھئی جب آپ اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز میں ملنے والی تربیت کو فراموش کریں گے تو پھر اِس کی خلاف ورزی کی پاداش میں ملنے والی سزا کا گلہ کیوں کرتے ہیں،،ٹھیک ہے مجبوری میں انسان ون وے کی خلاف ورزی کرلیتا ہے، لیکن اب آپ اِس کو عادت ہی بنا لیں تو یہ تو اچھی بات نہیں ہے اور میں تو ویسے بھی اتنی پہنچ رکھتا تھا کہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود ٹریفک وارڈن میرا چالان کرنے کی ہمت نہ کرسکا بلکہ بیچارے کو معطل بھی ہونا پڑا ،لیکن جب آپ چالان ہونے سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تو پھر کیوں بار بار پنگا لیتے ہیں، اور جب آپ بار بار پنگا لیں گے تو پھر اُس کا خمیازہ بھی بھگتنا ہی پڑے گا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اِس تمام صورت حال کے لیے کسی ایک فریق کو مکمل طورپر مورد الزام تو نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ تالی ایک سے نہیں بلکہ ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں