"FBC" (space) message & send to 7575

جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا

کوئی تو بتائے کہ آخر یہ سب مل کر کرنا کیا چاہتے ہیں ؟ پہلے کیا کرلیا‘ جو اب ترکی میں ملنے کے بعد کرلیں گے ‘ کوئی تو انہیں بتائے کہ کچھ کرنہیں کرسکتے‘ تو مت کرو‘ لیکن بے درماں فلسطینیوں کو دھوکے میں رکھ کر مرواؤ بھی مت۔کیوں انہیں دھوکے میں رکھ کر بار بار فلسطین کو مقتل میں تبدیل کردیتے ہو؟ صاف بتا دو فلسطینیوں کو کہ وہ اسرائیل کو ایک زمینی حقیقت سمجھ کر قبول کرلیں‘ مان لیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ‘ اس لیے نہیں کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے ‘ اس لیے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے ‘ ہاں ایک کام بخوبی کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے باتیں کرنااور وہ اُن کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں ۔
ترکی میں ہونے والے اوآئی سی کے اجلاس میں بھی توباتیں ہی ہوئیں ‘جہاں اڑتالیس اسلامی ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندے موجود تھے ۔ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی مظالم پر اقوام متحدہ کا خصوصی سیشن بلایاجائے اور اسرائیل کے خلاف سیاسی و معاشی اقدامات کئے جائیں‘ لیکن یہ بتانے سے چوک گئے کہ اسرائیل کے خلاف سیاسی اور معاشی اقدامات کرے گا‘ کون؟ اقوام متحدہ‘ امریکہ‘ برطانیہ ‘لبنان‘ اُردن‘ مصر‘ایران‘شام یا پھر سعودی عرب؟ہاں! سعودی عرب شاید اس نیک کام میں پہل کرلے ‘لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے معاملات کو سعودی عرب اور اسرائیل ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل گیڈی ائزنکوٹ کا اخبار ایلاف کو دیا گیا انٹرویو تو ابھی کافی ذہنوں میں محفوظ ہوگا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ انٹیلی جنس کا تبادلہ کرنے پر تیار ہے ‘ خیر ہم بھلا اسرائیلیوں کا یقین کیوں کریں‘ یہ تو سدا کے جھوٹے ہیں۔
سعودی عرب اور امریکہ ‘دونوں ممالک کا ہی اصرار ہے کہ ایران کو جوہری طاقت کی حامل ریاست بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور دونوں ہی لبنان میں حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اور بھرپور طور پر مسلح ہونے کو خطے میں عدم استحکام کی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں‘ تو ایران بھی کہاں چوکنے والا ہے کہ اُس کے لیے بھی خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ شاید سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے ۔لبنان میں طاقتور حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور دوسرے ہمسایہ عرب ممالک بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ لیکن ایران کے لیے اس کی پشت پناہی ضروری ہے تاکہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہااور یہ سوچ شام میں بھی کارفرما ہے‘ جس نے اس خوب صورت ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔ روس کی فضائی طاقت اور آلات کے ساتھ شام کی خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کا ساتھ دینے کے ایرانی فیصلے سے ہی شامی صدر کو حالات اپنے حق میں کرنے میں مدد ملی‘ تو اس کے نتیجے میں ایران کو بحیرۂ روم تک راہداری حاصل ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے اور یہ ایک ایسا امکان ہے‘ جو خطے کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کو کسی طور بھی قبو ل نہیں ۔سو‘شام میں بھی ان ریاستوں کا ٹکراؤزورشور سے جاری ہے اور نتیجہ شامیوں کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ مطلب یہ کہ فلسطینیوں کی تو کیا مدد کی جاتی‘ اُلٹا ایک اچھے بھلے بسے بسائے ملک کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ‘جب مفادات کے ٹکراؤ کا یہ عالم ہو تو پھر کیسے ‘ فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے خلاف متحد ہوا جاسکتا ہے ؟سوائے اس کے کہ اجلاسوں کے ذریعے فلسطینیوں کو یہ پیغام دیا جاتا رہے کہ ڈٹے رہو‘ تب تک ‘ جب تک ایک بھی فلسطینی زندہ ہے اور ترکی میں ہونے والے او آئی سی کے حالیہ اجلاس کے ذریعے بھی ایک مرتبہ پھرشاید یہی پیغام دیا گیا ہے ۔
اجلاس کے دوران ترکی کے صدر طیب اردوان بھی کافی رنجیدہ دیکھے گئے‘ جن کا کہنا تھا کہ حالیہ وحشیانہ کارروائیوں پر اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے ۔ اسرائیل نے فلسطین میں جو کیا وہ سراسر بدمعاشی‘ ظلم اور ریاستی دہشت گردی ہے‘ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہ احتساب کرے گا کون؟اگر اس کا جواب مل جائے‘ تو جانیے سب کچھ ٹھیک ہوجائے ‘اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیل کے خلاف کھڑا ہوکر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دنیا میں ابھی انسانیت زندہ ہے وغیرہ ‘وغیرہ ۔ اور پھر اجلاس اختتام پذیر ہوگیا۔غرضیکہ کے اس اجلاس میں کوئی ایسی نئی بات نہیں تھی‘ جو ماضی میں ہونے والے اجلاسوں میں نہیں کی جاتی رہی اور جو نتیجہ اُن اجلاسوں کا نکلا ‘ یقین جانیے کہ اس اجلاس کا نتیجہ بھی اُن سے رتی برابر مختلف نہیں نکلے گا کہ اب تو فلسطینی بھی ‘اس کے عادی ہوچکے ہیں کیونکہ 1948 ء سے آج تک جتنی تسلیاں فلسطینیوں کو دی گئی ہیں ‘جتنی بار اُنہیں امن سے رہنے کی نصیحتیں کی گئی ہیں اور جتنی بار انہیں جبری سمجھوتوں کے تھپڑ رسید کیے گئے ہیں‘ ایسا تو شاید ہی کسی اور گروہ کے ساتھ ہوا ہو۔
دوستو! سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم سے اب فلسطینیوں کا بوجھ مزید برداشت نہیں ہوتا‘یہ بات فلسطینیوں کو بھی بتا دو کہ وہ بیچارے خود ہی اپنے لیے کوئی اچھا اچھا سوچ لیں ‘کیوں یہ راز طشت ِاز بام نہیں کردیتے کہ صرف بائیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور 88 لاکھ 58 ہزار آبادی پر مشتمل اسرائیل کو سبق سکھانا‘ فلسطینیوں پر مظالم سے روکنا اب 21 لاکھ 49 ہزار مربع کلومیٹر رقبے مشتمل سعودی عرب نہ 10 لاکھ دس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل مصر کے لیے ممکن ہے ۔ رہا تیسرا قدرے طاقتور ملک شام تو وہ اس وقت خود اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہا ہے‘ جسے عالمی طاقتوں کے ساتھ خود علاقائی اور اسلامی طاقتوں نے ایک تختہ ستم بنا رکھا ہے کہ اُس کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ ملک تو اپنا وجود ہی قائم رکھ پائے تو غنیمت ہوگا ‘ باقی رہ گئے اُردن اور لبنان جیسے چھوٹے ہمسایہ ممالک ‘تو یہ بیچارے تو ویسے ہی کسی قطار شمار میں ہیں‘ تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کیا عار ہے کہ بھائی لوگو! اب تم خود ہی نمٹو ‘ ہمارے آسرے پر مت رہنا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو اسرائیل کی طرف سے تشدد کی ہرلہر کے دوران یا اس کے بعدجس طرح سب کے سب سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ‘ اُس سے شاید فلسطینیوں کو غلط پیغام ملتا ہے کہ اب کہ ضرور سب اُن کی مدد کو آئیں گے اور وہ پھر سے نئے جوش اور عزم کے ساتھ اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں ‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اُنہیں بھی اپنے آبائی علاقوں میں رہنے کا حق ہے ‘جہاں سے اُنہیں زورزبردستی سے نکال دیا گیا تھا‘وہ فلسطینی جن کا مانگے تانگے کا وطن صرف چھ ہزار بیس مربع کلومیٹر پر محیط ہے ‘تو آبادی صرف پینتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔
فیصلہ ہوگیا کہ اب فلسطینیوں کو مزید دھوکے میں نہیں رکھا جائے گا ‘اُنہیں صاف بتا دیا جائے گا کہ بھئی‘آج تک تم یہی سمجھتے رہے کہ شاید ہم تمہارے لیے کچھ کرسکیں ‘لیکن اب ہم سے اور نہیں ہوسکتا اورویسے بھی مرد مومن ضیاالحق کی قیادت میں اُردن میں فلسطینیوں کو ایک سبق تو کئی دہائیاں پہلے ہی پڑھا دیا گیا اور پھر لبنان میں صابرہ اور شطیلہ کے کیمپوں میں بھی انہیں ایک سبق سکھایا گیا تھا‘ لیکن یہ فلسطینی بھی اتنے کوڑھ مغز ہیں کہ تمام تر حالات سامنے ہونے کے باوجود شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے ہوئے ہیں‘ تو بھئی! اگر تم لوگ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوں‘ تو پھر ہم کیا کریں کتنی بار تو تمہیں اشاروں‘ کنایوں سے سمجھا چکے ہیں اور اب جو ترکی میں او آئی سی کا اجلاس ہوا ہے‘ تو اس میں کی جانے والی باتوں پر کچھ زیادہ یقین مت کرنا ‘ بالکل ویسے ہی جیسے کام چور چوکیدار آواز لگاتے ہیں کہ 
''جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں