"FBC" (space) message & send to 7575

ایک اور ناقابل معافی جرم

''زور لگا کے ہیا‘ کوئی کسر باقی نہ رہ جائے ‘ بس چھوڑنا نہیں ‘ شاوا شاوا‘‘ آئی ایس آئی کے سابق چیف نے ''را ‘‘کے سابق چیف سے مل کر کتاب ہی لکھ ڈالی‘ توبہ توبہ‘ یہ تو ناقابل معافی ہے اوردیکھئے تو کہ ابھی پچھلے دنوں ہی سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی تو ایسی باتیں کہہ ڈالی تھیں‘ جن کے بارے میں دنیا میں پہلے کوئی بھی نہیں جانتا تھا‘ بس یہ ہم تک ہی محدود تھیں ۔ اور اب جنرل درانی میدان میں آگئے ہیں۔ہاں! البتہ درانی صاحب کے لیے یہ بات سجدہ شکر بجا لانے کی ہے کہ نواز شریف کی طرح سڑکوں پر اُن کی غدار ی کے بینرز نہیں لگے اور ان کی جان سوشل میڈیا پر تنقید کے وار سہنے کے عوض ہی بڑی حد تک چھوٹ گئی ہے ۔رہا ای سی ایل میں نام ڈالے جانے یا پھر اُن کے خلاف تحقیقات کا ‘تو یہ معاملہ بھی حل ہوہی جائے گا کہ پہلے ایسی تحقیقات کا کبھی کوئی نتیجہ نکلا ہے ؟ ورنہ ایک طبقے کی خواہش تو یہی تھی کہ اس مقابلے میں کم از کم اتنا تو ہونا ہی چاہیے ‘ جتنا نواز شریف کے ساتھ ہوا اور ہورہا ہے۔ ویسے مسلم لیگ ن ‘ خصوصاً میاں نواز شریف صاحب کو جنرل درانی کا شکرگزار ہونا چاہیے‘ جنہوں نے اُن پرسے نہ صرف بوجھ کسی حد تک کم کردیا ہے بلکہ انہیںیہ کہنے کا موقع بھی فراہم کردیا کہ اب دیکھتے ہیں کہ جنرل درانی کے خلاف کیا اقدام کیاجاتا ہے ‘یعنی درانی صاحب‘ نواز شریف کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں ؛حالانکہ خود بقول اسد درانی کے ‘اُن کی نواز شریف سے کبھی نہیں بنی ‘ وہ تو کتاب میں یہاں تک کہہ گئے کہ اُن کے خیال میں نواز شریف اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیتیں نہیں رکھتے بلکہ بعض چیزوں کے بارے میں تو اُنہیں مالیخولیا تھا اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے کہ پتہ نہیں ایجنسیاں اُن کے خلاف کسی بھی وقت کیا کر گزرے گئیں‘ لیکن سوچنے کی بات تو ہے کہ اگر میاں نواز شریف ایسی سوچ رکھتے تھے‘ تو کیا میاں نواز شریف کا یہ وہم تھا؟تین بار وزارتِ عظمیٰ اور تینوں بارہی.... بلکہ تیسری بار تو یہ ستم بھی ہوا کہ اب وہ عمر بھر کرسی ٔوزارت ِعظمیٰ کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے بلکہ اپنی جماعت کی قیادت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔
بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف کا تین سطری بیان اور اسد درانی کی کتاب کے معاملات ساتھ ساتھ ہی چلیں گے اور خصوصاً ''سپائی کرانیکلز‘‘سے تادیر مرچ مصالحہ حاصل ہوتا رہے گا اور بہتوں کا دانہ پانی چلتا رہے گا؛ حالانکہ کتاب میں جنرل درانی کے اینڈ پر کتاب کا زیادہ تر حصہ شاید ‘ ایسے ہوا ہوگا‘ ویسے ہوا ہوگا‘ جیسی اصطلاحوں کے اردگرد ہی گھومتا ہے ۔ جیسے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ کسی مرحلے پر ہمیں پتہ تھا کہ اسامہ پاکستان میں ہے ‘ شاید ہم نے امریکیوں سے کہا ہو کہ اسامہ کو لے جاؤ اور ہم ایسے ظاہر کریں گے کہ جیسے ہمیں پتہ نہیں تھا اور اگر ہم نے اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کیا تھا‘ تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت کے لیے بہت سے مسائل کھڑے ہوسکتے تھے ۔ ایسے ہی ایک اور جگہ جنرل درانی نے اپنے بیٹے کے حوالے سے واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح وہ ممبئی میں پھنس گیا تھا‘ تو اُن کے فون کرنے پر ''را‘‘ نے اُسے وہاں سے نکالنے میں مدد دی تھی‘ وغیرہ وغیرہ۔ مطلب ابھی تک جتنی کتاب کا مطالعہ کیا ہے ‘ افسوس کہ اُس میں سے تو کچھ زیادہ قابل اعتراض ‘ مواد ہاتھ نہیں لگ سکا ۔ ہاں البتہ اُن کی طرف سے کارگل کی جنگ کو پاکستان کی غلطی قرار دیا جانا‘ بعض حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے‘ لیکن یہی وہ بات ہے‘ جو کارگل آپریشن کے جنرل( ر) شاہد عزیز 2013 ء میں لکھی گئی اپنی کتاب''یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں لکھ چکے ہیں‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ سوائے چار جرنیلوں کے کسی کوکارگل آپریشن کا نہیں پتہ تھا اور یہ آپریشن اس لیے ناکام ہوا کہ دشمن کے ممکنہ ردِعمل کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا تھا‘ پھر جنرل پرویز مشرف نے صدر اورآرمی چیف ہوتے ہوئے اپنی کتاب ''ان دی لائن آف فائر ‘‘ میں واضح طور پرایسی بہت سی باتیں کہیں‘ جو ہماری سرکاری پالیسی سے متصادم تھیں‘ جیسے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مطلوب بندے ‘امریکہ کے حوالے کیے اور نہ صرف بندے ‘اُن کے حوالے کیے بلکہ اُن سے پیسے بھی لیے ۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ببانگ دہل یہ کہتے رہے کہ اسامہ بن لادن‘ الظواہری‘ طالبان اور حافظ سعید ہمارے ہیرو تھے اور کشمیر میں ہماری بنائی تنظیمیں مظلوموں کی مدد کر رہی تھیں‘ لیکن اُن سے پوچھ گچھ نہ ہوسکی ‘ لیکن اگر لگے ہاتھوں ''یہ خاموشی کہاں تک‘‘ اور ''اِن دی لائن آف فائر‘‘کے بارے میں بھی حساب کتاب کر لیا جائے‘ تو اعتماد کی فضا بڑی حدتک بحال ہوسکتی ہے ؛اگرچہ اس کی توقع نہیں ہے ۔
دوسری طرف سرحد کے اُس پار بھی کچھ حلقوں کی طرف سے ایس کے دلت کی ذلت کا سامان بھی کیا گیا ہے‘ لیکن وہاں ابھی تک مارا ماری اُس نہج پر نہیں پہنچی‘ جہاں تک ہمارے ہاں پہنچ چکی ہے۔ موصوف نے تو ایک موقع پر یہاں تک بھی کہہ دیا کہ بھارتی ایجنسیاں کشمیر میں پیسہ استعمال کرتی ہیں۔اُن کے اس بیان پر بہت لے دے ہوئی اور اُنہیں تہاڑ جیل تک میں بھیجنے کی دھمکیاں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ایک موقع پر جب کتاب کا مصنف سنہاادتیا‘ دلت سے پوچھتا ہے کہ آپ نے ا پنی ایک کتاب میں آئی ایس آئی کو بہترین انٹیلی جنس ایجنسی قرار دیا تھا؟ تو دلت جواباً کہتا ہے کہ میں اپنی کہی ہوئی بات پر قائم ہوں اور ویسے بھی حقیقت یہی ہے کہ مخالف کے بارے میں جو کچھ ہم سوچتے ہیں‘ وہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا‘ جب میں نے اور انہوں(جنرل درانی) نے بات کی کہ ہم ایماندار ہیں‘ تبھی تو ہم حقائق پر بات کررہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ دونوں شخصیات نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی اور اُس دوران حاصل ہونے والے تجربات پر مبنی جو انٹرویوز دئیے ہیں ‘ اُن میں کچھ نیا تو پڑھنے کو نہیں ملا ‘لیکن ''سپائی کرانیکلز‘‘ نے ہمارے ہاں جو نئی بحث چھیڑی ہے ‘اُس میں سیاستدانوں کا پلڑا کچھ بھاری نظرآرہا ہے ‘کیونکہ کتاب کی ٹائمنگ ایسی رہی ‘جب ایک سیاستدان کے خوب لتے لیے جارہے تھے ‘ ایسے میں جنرل درانی اور ایس کے دلت کی کتاب نے اُن کے لیے ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ‘‘جیسی صورت حال پیدا کردی ہے۔ نئی صورت حال میں جب عام انتخابات کے لیے 25جولائی کی تاریخ سامنے آچکی ‘ تو یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ اب ''سپائی کرانیکلز‘‘ بھی مسلم لیگ( ن) کے بیانیے کا حصہ ہوگی؛ اگرچہ ابھی تک اس پر سب سے زیادہ کھل کرچیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ہی اظہار خیال کیا ہے‘ جن کے مطابق اگر یہ کتاب کسی سویلین نے لکھی ہوتی‘ تو طوفان برپا ہوجاتا ۔ طوفان تو برپا ہوا ہے‘ لیکن یہ پیالی والا طوفان ہے‘ جس کی جھاگ جلد ہی بیٹھ جائے گی‘ تاہم اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت بھی آگیا ہے کہ یہ جو ہم غداری غداری کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں ‘کیا ہمارا یہی چلن ہونا چاہیے ؟حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین پاکستان کا آرٹیکل 6 تو اُس شخص کو غدار قرار دیتا ہے‘ جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئین ِپاکستان کو منسوخ‘ تحلیل‘ معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے یا ایسا کرنے کی سازش میں بھی شریک ہوتا ہے؛ البتہ وہ شخص جو ملکی مفاد کے خلاف کام کررہا ہو‘ تو اُس کے خلاف ایکشن لیا جانا‘ قومی سلامتی کے زمرے میں آتا ہے؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں