"FBC" (space) message & send to 7575

گریبان میرا... میں جھانکوں نہ جھانکوں

جھوٹ‘ فریب‘ خودستائشی ‘ ہروقت دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے اور معلوم نہیں ایسی کتنی ہی عادات کا جو عفریت ہمارے ہاں پوری طرح سے اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے ‘ اب تو اُس کی شاخیں بھی اتنی مضبوط اور طاقتور ہوچکی ہیں کہ انہیں کاٹنے کے لیے شاید صدیوں کا نہیں ‘تو کم از کم دہائیوں کا سفر تو کرنا ہی پڑے گا یا معلوم نہیں یہ سفر کبھی ختم بھی ہوگا یا نہیں کیونکہ سدھرنے کے کوئی غیبی آثار دکھائی دے رہے ہیں ‘تا ہم اپنی حالت خود سنوارنے کے لیے تیار نظرآتے ہیں‘ تو پھر کسی سے شکوہ کیسا؟سوائے خود ستائشی کے ہمارے اندر شاید کچھ اور باقی رہا ہی نہیں ۔ 
فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق کرپٹ ایشیائی ممالک کی فہرست میں ہمارا ملک چوتھے نمبر پر براجمان ہے‘ لیکن پھر بھی ہرشخص دودھ کا دھلا ہے ۔کورٹ کچہری‘تھانہ ہسپتال ‘ ہرجگہ قدم قدم پر رشوت اور سفارش کا چلن عام ہے‘ لیکن پھر بھی ہرکوئی ایمانداری کا ڈھونڈرا پیٹتا نظرآتا ہے۔صبح وٹس ایپ میسجز کھولیں‘ تو ہردوسرا پیغام کسی نصیحت پر مبنی ہوتا ہے ‘ اچھی بات بتائی گئی ہوتی ہے ‘ ٹی وی پر بیٹھے اینکرز دن رات سچ اور سچائی کا ڈھنڈورا پیٹتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں‘ منبروں سے صبح شام ایمانداری اور اچھی باتوں کے درس دئیے جاتے ہیں ‘ سیاست کے ایوانوں سے کر بھلا ہو‘بھلا کی صدائیں سنائی دیتی ہیں‘ لیکن مجال ہے کہ کوئی اثر ہوتا ہواور اثر ہوبھی نہیں سکتا کہ ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں سے بیشتر خود بھی جھوٹ کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف سطحی باتیں کررہے ہیں ‘جن کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہونے والا‘ بالکل ویسے ہی جیسے میں بھی تو آپ کو اچھی باتوں کا درس ہی دے رہا ہوں‘یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم سب کو بہت ایماندار ہونا چاہیے ‘ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ‘ دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے ‘ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دینی چاہیے ‘ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہیے ‘ اپنے منہ سے نوالہ نکال کر غریب کو کھلانا چاہیے‘ وغیرہ وغیرہ
لیکن متذکرہ بالا باتوں کا بھی اثر کچھ نہیں ہونے والا ‘جس کی وجہ سب جانتے ہیں۔بات ہی تو کرنی ہوتی ہے‘ جو منہ میں آئے ‘بول دو‘ کس نے بعد میں جوابدہی کرنی ہوتی ہے‘ بالکل 1034 سے 1124 کے درمیانی عرصے میں اسلامی سلاطین کا پتہ پانی کردینے والے حسن بن صباح کی مانند ۔وہی حسن بن صباح ‘جس نے سب سے پہلے فدا ئین کی فوج تشکیل دے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا یا ۔ وہ فدائین جو اپنے مرشد کے ایک اشارے پر اپنی جان دے سکتے تھے‘ تو کسی کی جان لے بھی سکتے تھے ۔ حسن بن صباح کی فدائین کی فوج میں بھرتی کرنے کے لیے غریب اور ان پڑھ لڑکوں کو ترجیح دی جاتی کہ غربت کے میدان میں دہشت گردی کے بیج بہت آسانی سے بوئے جاسکتے ہیں ۔بیشتر صورتوں میں تعلیم سے بے بہرہ ہی سوچے سمجھے بنا ‘ بلا چون و چرا اپنے مرشد کے حکم پر کچھ بھی کر گزرتا ہے ۔نا خواندہ ہوں گے‘ نا زیادہ سوچ بچار کریں گے‘ اسی لیے تو آج بھی ہمارے ہاں شرح خواندگی 58 فیصد سے نہیں بڑھ سکی اور خواندہ احباب میں وہ افراد بھی شامل ہیں‘ جو صرف اپنا نام لکھنا اور دستخط کرنا ہی جانتے ہیں۔ جس ملک میں آج بھی تعلیم پر ملک کی مجموعی پیداوار کا لگ بھگ دو فی صد ہی خرچ کیا جاتا ہے‘ جبکہ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس شرح کو کم ازکم چار فی صد تک ہونا چاہیے‘ تو ان پڑھوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کا فارمولا حسن بن صباح بھی بہت مہارت سے کرتا تھا‘ تبھی تو جس کے قتل کا اشارہ ہوجاتا ‘وہ خاک و خون میں نہلا دیا جاتا۔کوئی دہشت سی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ حسن بن صباح نے اور اس کے عوض حسن بن صباح دولت بھی کماتا اور اثرورسوخ بھی حاصل کرتا ۔ اس کے اشارے پر قتل و غارت کرنے والوں کو انعام کے طور پر چند روز حسن بن
صباح کی بنائی ہوئی جنت میں رکھا جاتا‘ جہاں دوبارہ جانے کی آرزو میں فدائین کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے اور اُس کے ان حربوں کی افادیت آج بھی مسلمہ ہے۔ اُسی حسن بن صباح سے ایک بحری سفر کے دوران طوفان آنے پر پوچھا گیا تھا کہ جہاز ڈوبے گا یا بچ جائے گا تو جواب ملا یہ نہیں ڈوبے گا اور ایسا ہی ہوا ۔سب کے سب حسن بن صباح کی مستقبل میں جھانک لینے کی صلاحیت کو خراج ِتحسین پیش کرنے کے لیے اُس کے قدموں میں گر پڑے‘ تواس کی استہزائیہ ہنسی نے اُن کا مذاق اُڑایا کہ بیوقوفو‘ اگر جہاز ڈوب جاتا تو بھلا تم میں کوئی زندہ بچتا‘ جومجھ سے آکر پوچھتا کہ تم نے تو کہا تھا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا ۔
ہم کیوں نہیں مان لیتے کہ ہم خود کوبھی بے وقوف بنا رہے ہیں اور دوسروں کو بھی ۔ اس بے انتہاکرپشن‘ جھوٹ اور خودستائشی کے سمندر میں ہم تو غوطہ زن ہیں ہی‘ لیکن جانے نا انجانے میں ہم اپنے ساتھ میں اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی سمندر میں دھکیل رہے ہیں ۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک عجیب سی بے یقینی ہے اور ہر طرف ایک ہنگام سا برپا ہے ۔ سڑک پر نکل جائیں ‘تو مجھ سمیت ہرکوئی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ‘ دوسروں کو پیچھے چھوڑ آگے نکلنے کے چکر میں ہے ۔ٹریفک سگنل پر رکنا تو جیسے ہمیں قیامت نظرآتا ہے ۔مار دو ‘کچل دو ‘ نکل جاؤ سب کو پیچھے چھوڑ دو ۔ صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن کوئی گلی کوچہ نظرنہیں آتا‘ جہاں گندگی دکھائی نہ دے ۔ کوئی بازار ایسا نہیں ملتا ‘جہاں کے دکاندار رات کو اپنی دکان بند کرنے سے پہلے صفائی کرکے کوڑا کرکٹ بازار میں ہی نہ پھینک دیں‘ لیکن پھر بھی گندے وہ ہیں‘ جوہماری پھیلائی ہوئی گندگی اُٹھائیں اور ہم صاف ستھرے ۔ہم کسی بھی صورت‘ کسی بھی قیمت پر بس دوسروں کو غلط ثابت کرنا جانتے ہیں ۔ کیا کریں
کہاں چلے جائیں‘ شاید ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔بہت مشکل راستہ ہے‘ جس پر چلنے کے لیے سب سے پہلے '' میں‘‘ کو مارنا پڑے گا اور اُسے ہم مار نہیں سکیں گے ‘چاہے معاملہ انفرادی سطح پر ہو یا اداروں کے درمیان کا۔جہاں ذرا سی انا ‘ ذرا سی'' میں‘‘ کا سوال اُٹھا‘ تو بس لٹھ لے کر پڑ گئے‘ ایک دوسرے کے پیچھے ۔اور تب تک چین سے نہ بیٹھے ‘جب تک دشمن کو چاروں شانے چت نہ کردیا ۔چاہے اس میں اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے ۔ کوئی ہمیں ڈھنگ کی بات بتانے کی کوشش کرے تو سہی‘ اُلٹا اُسے ہی لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ کسی کی شکل پسند نہیں آتی‘ تو کسی کی ادائیں نہیں بھاتیں ‘تو پھر ایسی طاقت کا فائدہ بھی کیا‘ جو دوسروں کو مرعوب نہ کرسکے ۔ ایسی دولت کس کام کی‘ جس کی نمودونمائش ہی نہ کی جاسکے۔ بس یہ وہ مظاہر ہیں کہ ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ وبازار میں اور بس جنتا ہی چلا جارہا ہے اور کہنے کو تو عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے‘ جو شاید اپنے تئیں ہے بھی‘ لیکن معلوم نہیں انصاف کی یہ اولادیں ‘ انصاف کے متلاشی افراد کو کیوں نہیں ملتیں‘ کیوں نظر نہیں آتیں؟اُن کو جن کی نسلوں کی نسلیں انصاف کی اولادوں کو ڈھونڈتے ڈھوتے رزق خاک ہوجاتی ہیں۔
باتیں تلخ ہیں ‘باتیں بہت کڑوی ہیں‘ پر ''کِتے سچّی گل وی رُکدی اے ‘اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے ‘‘دل کے پھپھولے جلتے ہی چلے جارہے ہیں ‘ ان کی شدت جلائے ہی چلی جارہی ہے‘ جو معلوم نہیں کب تک جلاتی رہے گی‘ لیکن حالات کچھ بھی ہوں وقت کو تو آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے ‘ گھڑی کی سوئیوں کو تو ٹک ٹک کرتے ہی رہنا ہے ‘ وہ تو بس چلتی ہی چلی جارہی ہیں‘ لیکن ہم نے ان سے کچھ سیکھنا ہے نا سیکھا ''اک جنگل‘ بحریں جاندے نیں‘اِک دانہ روز دا کھاندے نیں‘بے سمجھ وجود تھکاندے نیں‘‘ بس رہے ہم بے سمجھ کے بے سمجھ ہی ‘ بس تمام عمر اسی چلن میں گزر جاتی ہے کہ گریبان میرا...میں جھانکوں نہ جھانکوں!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں