"FBC" (space) message & send to 7575

سب اتنا بھی ٹھیک نہیں ہے

لوٹا کریسی کی گردانیں سن سن کر سماعتیں جواب دینے لگی ہیں۔ گویا ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہو کہ انتخابات کی آمد پر سیاستدان اپنے ٹھکانے تبدیل کررہے ہیں ۔ایسا بالکل نہیں ہے‘کچھ قطع و برید کے ساتھ ہنوز جاری ‘یہ کہانی تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی ‘جو خدامعلوم کب تک سنی اور سنائی جاتی رہے گی۔چلئے.... آل انڈیا مسلم لیگ سے ہی شروع کرلیتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ سے مسلم لیگ کا روپ دھارنے والے مسلم لیگ پر نزاع کا عالم طاری ہوچکا تھا‘جس کا پہلا نتیجہ 1949ء میں آل پاکستان عوامی مسلم لیگ کی صورت میںسامنے آیا۔بنانے والے جماعت کے نمایاں رہنما حسین شہید سہروردی تھے۔ موقف اُن کا یہ رہا کہ پارٹی قیادت عوام کو نظرانداز کرکے خواص کو ہی نواز رہی ہے ‘جو اُن کے لیے ناقابل قبول ہے۔ 1949ء میں ہی پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ کے صوبائی صدر افتخار حسین ممدوٹ نے جماعت میں ایک اور دھڑے کی داغ بیل ڈال دی۔ممدوٹ صاحب ‘ چونکہ قائد اعظم کے بااعتماد ساتھی شمار کیے جاتے تھے اور اسی سبب جماعت کا نام بھی جناح مسلم لیگ تجویز ہوا۔نیا دھڑا بننے کی وجہ یہ رہی کہ بے لاگ شخصیت کی سی پہچان رکھنے والے افتخار حسین ممدوٹ سے بہت سی شکایات تھیں ۔ جیسے یہ کہ بانیٔ پاکستان کی وفات کے بعد وہ من مانی کرنے لگے تھے۔ پارٹی ہائی کمان کی ہدایات کو خاطر میں لاتے‘ نہ وزیراعظم کے احکامات پر کان دھرتے۔نتیجے کے طور پر پارٹی کے عہدے اور پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ سے محرومی کے حقدار ٹھہرے اور ایک مزید دھڑا مسلم لیگ کا نصیب بنا۔مفادات مشترکہ تھے‘ تو پھر جماعتوں کے ادغام کی سبیل بھی پیدا ہوگئی اور1950ء میں جناح مسلم لیگ اورحسین شہید سہروردی کی آل پاکستان عوامی مسلم لیگ کے ادغام سے جناح عوامی مسلم لیگ وجود میں آگئی۔شومئی قسمت کہ اسی سال میاں افتخار نے مسلم لیگ کو خیرباد کہتے ہوئے آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے اپنی جماعت قائم کرلی‘ تو بائیں بازو کے بہت سے رہنما اور اراکین بھی اس جماعت کا حصہ بنے‘ جس کے بعد 1957ء میں یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی کا روپ دھار گئی۔ بات بڑھتے بڑھتے سندھ مسلم لیگ‘ جناح عوامی لیگ اور ری پبلکن پارٹی تک پہنچ گئی۔
آخر ان کھیل تماشوں کا اختتام 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لا سے ہوا‘ جس کے بطن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ اور پھر پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) وجود میں آئی‘ جس کے شانہ بشانہ پاکستان مسلم لیگ (کونسل)بھی دامے درمے قدمے سخنے چل رہی تھی ۔ دونوں جماعتوں کا جوڑ 1965 ء کے انتخابات میں پڑا۔ ایوب خان کنونشن اور محترمہ فاطمہ جناح پاکستان مسلم لیگ کونسل کی صدارتی اُمیدوار تھیں‘ لیکن انتخابات کا نتیجہ ایوب خان کے حق میں نکلا‘ جس کے بعد 1970ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی تاریخ ساز فتح نے سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ دیا‘ جسے واحد ایسا الیکشن قرار دیا جاسکتا ہے‘ جس میں پیپلزپارٹی نے نمایاں الیکٹیبلز کے بغیر کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد بھی نئی جماعتوں اور اِن میں مختلف دھڑوں کے قیام کا لامتناہی سلسلہ نظرآتا ہے‘ جن میں ایک قدر مشترک دکھائی دیتی ہے؛‘ٹھکانوں کا تبدیل کرنا‘جسے حسب ِمنشا یا حسب ِضرورت لوٹا کریسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ جب جب جس جس نے یہ اندازہ لگایاکہ کون سی جماعت اقتدار میں آرہی ہے ‘ تب تب وہ اس جماعت کا حصہ بنا۔فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سکندرمرزا میڈ ری پبلکن پارٹی کولگائے جانے والے وٹامن کے انجکشن بہت ہی طاقتور تھے۔ سو سردار عبدالحمید دستی‘مخدوم زادہ سید حسن محمود‘قاضی فضل اللہ ‘ جام میر غلام قادر‘اکبر بگٹی اور تمام صوبوں سے نمایاں الیکٹیبلز ری پبلکن کوپیارے ہوگئے۔ بالکل اسی طرح جب 1962ء میں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ نے اپنے رخ روشن کا دیدار کرایا‘ تو اس روشن چہرے کی چکاچوند سے متاثر ہوکر ملک بھر سے الیکٹیبلز نے جماعت کا حصہ بننے میں کوئی سستی نہیں دکھائی۔اسی جماعت کے جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستانیوں کی آنکھ کا تارہ بننے کے بعد اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ‘تو ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی گئی کہ اسمبلیوں کا حصہ رہنے یا پھر ان کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھنے والی بہت کم سیاسی شخصیات جماعت سے باہر رہ گئی تھیں۔1985 ء کی پاکستان مسلم لیگ‘ 1988 ء کی پیپلزپارٹی ‘1990 ء کی مسلم لیگ ن اور اس کے بعدبھی دونوں کے درمیان چلنے والی باریوں میں بھی اِدھر سے اُدھر جانے کا سلسلہ چلتا رہا ۔2002 ء میں ق لیگ‘2008 ء میں پیپلزپارٹی اور پھر 2013 ء میں مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے ادوار میں بھی الیکٹیبلز نے ٹھکانے تبدیل کرنے میں کبھی سستی نہیں دکھائی ‘جنہیں اس حد تک تو رعایت کا مستحق ٹھہرایا ہی جاسکتا ہے کہ سیاست کا پہلا اصول ہی حصول اقتدار کے لیے جدوجہد کرنا اور اقتدار میں پہنچ کر آئندہ پھر سے اقتدار میں پہنچنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا اور اپنے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس سے روگردانی کسی بھی سیاستدان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوسکتی ‘ورنہ تو یہ ہارے ہوئے گھوڑے پر داؤلگانے والی بات ہوجائے ‘اگر اب الیکٹیبلز کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کا رخ کرلیا ہے‘ تو اچنبھا کیسا؟ اس حقیقت سے انکار کون کرے گا کہ ری پبلکن پارٹی کی تشکیل کس کے اشارے پر ہوئی تھی ۔ کون سی جادو کی چھڑی گھومی تھی کہ الیکٹیبلزکی نمایاں اکثریت جنبش ابرو پر جماعت کا حصہ بن گئی تھی۔ 1985 ء کے غیرجماعتی انتخابات اور اُس کے نتیجے میں مسلم لیگ جونیجو کیسے اقتدار میں آئی؟ 1990 ء کا اسلامی جمہوری اتحاد کیسے وجود میں آیا جس کے لیے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم ہوئی اور یہ اتحاد تب تک قائم رہا جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ اس کے بعد اور پہلے بھی سیاست میں مداخلت ہوتی رہی۔آج کے سیاسی منظر نامے میں اگر نواز شریف معتوب ٹھہرے ہیں‘ تو اس کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے بھی کوئی بہت دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بغاوت کا نتیجہ بہرحال بھگتنا ہی پڑتا ہے اور کوئی دم جاتا ہے کہ شاید وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظرآئیں ‘تو پھر دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس مصیبت میں شریف خاندان کا حصہ بنیں۔ رہی بات نظریاتی سیاست کی‘ تو کہاں کے نظریات اور کہاں کی سیاست‘ہمارا تو قومی سطح پر بھی شاید کوئی نظریہ باقی نہیں رہا۔ تبھی تو معاشرہ بھی ایک بے سمت ہجوم کی شکل دھارے نظرآتا ہے ‘پھر سیاستدانوں سے نظریات پر عمل پیرا ہونے کی توقع رکھنا عبث ہے ۔ غلط ہے‘ یہ گمان کرنا کہ ہمارے درمیان سے ہی سیاست اور اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنے والے ہم سے ہٹ کر فرشتوں کی مانند ہوں گے جو معتون بھی ٹھہرائے جاتے ہیں اور جن کا کندھا استعمال کیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہوتا۔ پہلے بالواسطہ طور پر جماعتوں کی تشکیل اور پھر بلاواسطہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے بنا گزارہ نہ ہوسکا۔کسی کو آگے بڑھانے تو کسی کو پیچھے ہٹانے کا چلن جاری ہے ‘تبھی تو اقتدار کی راہ پر گامزن جماعت بھی وہیں سے طاقت حاصل کررہی ہے‘ جہاں سے 2013 ء میں مسلم لیگ ن یا اُس سے پہلے دوسری جماعتوں نے حاصل کی تھی۔ احتساب کی چکی کا بھی ان سے سستا کوئی دوسرا ایندھن نہیں ہوتا ۔ انہی سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرنے سے لیکر میڈیا ٹرائل تک‘ ایبڈو قانون سے لیکر احتساب ایکٹ تک ہر حربہ استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے‘ جس نے عوام میں ان کی قدرومنزلت کم کی ‘ اتنا ضرور ہے کہ اس کے لیے بہرحال سیاستدانوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔خیر وقت تو ابھی نہیں آیا کہ ہم سب بحیثیت قوم دوسروں کے ساتھ اجتماعی اور انفرادی سطح پر اپنے اپنے کردار کا بھی جائزہ لیں ‘چاہے ہمارا تعلق ‘جس بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو‘ پھر بھی یہ بات دھیان میں رکھنا ہوگی کہ سب اتنابھی ٹھیک نہیں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں