"FBC" (space) message & send to 7575

نقار خانے میں طوطی کی آوازکہاں

آخری سیڑھی تک پہنچنے سے پہلے ‘پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ انسان جب آنکھ کھولتا ہے‘ تو پہلے اپنے اردگرد کے ماحول کو ہی دیکھتا ہے اور یہی ماحول کا چلن ہی‘ اُس کی شخصیت کا پرتو بنتا ہے اور اس ماحول کو اچھا اور خوبصورت ہونا چاہیے ‘ یہ سب کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ ہم معمولی سے اعمال سے یہ انقلاب برپا کرسکتے ہیں:
1۔ہرکسی سے مسکرا کر ملنا:ملنے والوں سے مسکرا کر ملنے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے کہ جب بھی کسی سے ملاقات ہو تو اُسے یہ احساس ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اُس سے مل کر آپ کو کوفت ہوئی ہے‘ نہ اُسے دیکھ کر چہرے پر شکنیں اُبھرنی چاہیے‘ جو ہم میں سے بیشتر کے چہروں پر ہمہ وقت ہی نظرآتی رہتی ہیں۔ ہاتھ بھی اس طرح سے ملایا جاتا ہے کہ جیسے ہم دوسروں پر احسان کررہے ہوں ‘اگر سبھی کے ساتھ ہم خوش دلی سے ملیں‘ تو یقین جانیے کہ زندگی میں آسانی پیدا ہوجائے گی اور یہ جو ہم ایک دوسرے سے لیے دئیے رہتے ہیں‘ اُن رویوں میں بہتری آئے گی‘ لڑائی جھگڑوں اور تلخیوں میں کمی آئے گی۔
2۔راستے کھلے رکھنا:راستے میں پڑی کسی رکاوٹ کو دور کردینا بھی زندگیوں کو سہل اور آسان بناتا ہے ‘جس راستے سے گزرنے والوں کو وہاں کسی رکاوٹ کے باعث مشکل کا سامنا ہو‘ اُسے ہٹا دینا دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اور یہ بات تو طے ہے کہ جب ہم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘ تو اللہ تعالیٰ ہمارے راستے کی رکاوٹیں دور فرما دیتے ہیں‘ اب یہ الگ بات کہ ہم خود ہی اپنی زندگیوں کو مشکل بنانے پر تلے ہوئے ہیں ‘تو کسی دوسرے کا کیا قصور۔کہیں پر بھی ایسے دھڑلے سے تجاوزات قائم کرکے راستوں کو تنگ کردیا جاتا ہے‘ تو کیا اس سے گریز معاشرے میں بہتری کا باعث نہیں بنے گا۔
3۔گاڑی ٹھیک پارک کرنا:آٹھ لاکھ سے لے کروڑوں روپے کی گاڑیاں خرید کر بھی ‘اگر ہمیں انہیں پارک کرنے کی تمیز بھی نہ ہو تو دیواروں سے ہی ٹکریں ماری جاسکتی ہیں۔ جس کی گاڑی جتنی بڑی‘اُس کی دھونس اُتنی ہی زیادہ‘ اُسے کہیں بھی گاڑی پارک کرنے کی اُتنی ہی اجازت ‘جس نے روکنے کی کوشش کی‘ اُس کی خیر نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سڑک ‘ ہر مارکیٹ میں ایسی بے ہنگم پارکنگ نظرآتی ہے کہ دل سے بے اختیار دعا نکلتی ہے کہ خدایا... ایسا کرنے والوں کو ہدایت سے نواز دے! 
4۔گفتگو میں نرمی اختیار کرنا:نہ اتنی اونچی آواز کہ سننے والے کی سماعتیں جواب دینے لگیں اور نہ لہجہ اتنا دھیما کہ دوسرے کو ہماری آواز سنائی ہی نہ دے ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں ‘جو گفتگو کا سلیقہ جانتے ہیں؟ خصوصاً جب ہم اپنے سے کمزوروں سے بات کررہے ہوتے ہیں‘ تو گویا اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے لہجوں سے دہل جائیں‘ تھر تھر کانپنے لگیں‘ گفتگو میں بدتمیزی کے عنصر کی حوصلہ شکنی ہمارا مذہب بھی کرتا ہے‘ تو کوئی دوسری تہذیب بھی اس بدتہذیبی کی اجازت نہیں دیتی۔یاد رکھیے کہ نرمی سے گفتگو کرنے سے دوسروں کے دلوں میں ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔
5۔دوسروں کا پردہ رکھنا:جو بات جس حد تک ہو‘ اُسے اُسی حد تک ہی رکھنا چاہیے‘ اور اپنے کسی مقصد کی خاطر‘ بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر آگے پیش کیا جائے کہ کسی کی عزت ہی تار تار ہوجائے۔دوسروں کے بارے میں سچ بولنا اور اپنے بارے میں سچ کو چھپانے کی روش تباہی کا باعث بنتی ہے اور بقول ،اشفاق احمد کے‘ اگر سچ بولنا ہی ہے‘ تو اپنے بارے میں بولنے کی ہمت ہونی چاہیے ‘ورنہ دوسروں کی خامیوں اور برائیوں کو سامنے لانے میں ‘تو ہم سب ہی یکتا ہیں ۔
6۔ شو آف سے پرہیز:اپنے مال و دولت کی نمائش کرتے پھرنا‘ ہمارے ہاں ایسی معاشرتی برائی کی صورت اختیار کرچکی ہے‘ جس نے کسی نہ کسی صورت سبھی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے؛ حتیٰ کہ دستر خوان میں قسم قسم کے خوان سجا کر اُس کی تصاویر‘ سوشل میڈیا پر لگائی جاتی ہیں۔اس بات کا احساس کیے بغیر کہ غربا پر ہماری ایسی اوچھی حرکتوں کیا اثر پڑتا ہے؟‘ کیسے اُن کے دلوں پر آرے چلتے ہیں ‘ ہماری حرکتوں کو دیکھ کر وہ کیسے دل ہی دل میں کڑھتے ہیں‘ لیکن ہمیں اس سے کیا غرض؟‘ ہمارا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح دوسروں پر ہمارا رعب اور دبدبہ قائم ہو۔ اس چلن سے گریز کریں‘ تودوسروں کی محرومیوں کے احساس کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
7۔اپنے ارد گرد کو صاف رکھنا:صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے‘ لیکن خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ کیا ہمارا نصف ایمان برقرار ہے ؟گندے شہر اور گندے گلی محلے چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ صفائی سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ دکانوں اور گھروں کا کوڑا کرکٹ گلیوں اور بازاروں میں پھینک دینا‘ ہمارا چلن بن چکا ہے۔ ایسا چلن‘ جس نے ہمارے گلی محلوں کے ساتھ ساتھ ہماری روحوں تک کو پراگندہ کردیا ہے اور کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ ہماری پھیلائی ہوئی گندگی اُٹھاتے ہیں‘ وہ گندے اور ہم پھر بھی صاف ‘ کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ اپنے اردگرد صفائی برقرار رکھنا ہمارے مزاجوں پر بھی خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے ۔آزمائش شرط ہے ۔
8۔دوسروں کا حق نہ مارنا:ہمارا یقین ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں اگر کوئی کوتاہی ہوجائے ‘تو وہ ذات رحیم و کریم ہے‘ لیکن اگر کسی کی حق تلفی ہوجائے ‘تو صرف وہی شخص ہمیں معاف کرنے کا حق رکھتا ہے‘ لیکن کیا غضب ہے کہ دوسروں کے حق کو اپنا حق سمجھ کر مارتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔ہمارے ملک کی عدالتوں میں اٹھارہ لاکھ کے قریب مقدمات زیرسماعت ہیں‘ جن کی اکثریت اس بابت ہے اور حق مارنا صرف کسی کی جائیداد پر قبضہ کرلینا ہی نہیں ہوتا‘ بلکہ ٹریفک سگنل کو توڑنا اورراستوں کو بند کردیناوغیرہ بھی اس سلسلے کی کڑیاں ہیں‘ جن سے گریز کرنے کی کوشش کرکے دیکھئے‘ کیسے زندگی کی گاڑی میں روانی آتی ہے ۔
9۔کم بولنا اور تجسس سے گریز:اہل اسلام کو کم گوئی کی تلقین کی گئی ہے‘ لیکن دوسری بہت سی ہدایات کی طرح اس ہدایت کو بھی یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً لاف زنی نے ہمارے روز مرہ کے معمولات میں اپنی ایسی جگہ بنا لی ہے کہ ڈینگیں مارنا‘ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ‘ مبالغہ آرائی سے کام لینا ‘ بیشتر صورتوں میں ہماری پہچان بن چکی ہے اور مجال ہے‘ جو ہمیں اس پر کوئی شرمندگی بھی ہوتی ہو‘دوسروں کے بارے میں تجسس کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرکے دیکھئے‘ ہمارے گھرکتنے پرُسکون ہوجائیں گے ۔
10۔کھانے پینے کی اچھی عادات اپنانا:صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہوتی‘ لیکن اسے برباد کرنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کھانے پینے سے لے ہمارے آرام تک کے طریقے صحت کی بربادی کو دعوت دیتے ہیں۔ پیٹ میں جگہ ہو نہ ہو ‘ ٹھونس ٹھونس کر ضرور کھانا ہوتا ہے۔ خصوصا ًشادی بیاہ جیسے فنکشنز میں یہ سب کچھ ایسے نظرآتا ہے کہ دیکھ کو شرمندگی ہونے لگتی ہے۔یقین رکھیے کم کھانے سے کوئی نہیں مرتا‘ بلکہ کم کھانا صحت کو تو برقرار رکھتا ہی ہے‘ اس کے ساتھ بچا ہو اناج اُن لوگوں کے بھی کام آتا ہے‘جنہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
11۔بیماروں اور ہمسایوں کا خیال رکھنا:کتنے فخر سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو آج تک یہی علم نہیں ہوسکا کہ ہمارے ہمسائے میں کون رہتا ہے ‘ جب چلن ایسا ہو تو یہ اندازہ لگانا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ ہمارا ہمسایہ کہیں بھوکا تو نہیں سویااور اگر ایسا ہوگیا ‘تو جان لیجئے کہ اس کا جواب دینا ہمارے لیے ممکن نہ ہوگا ۔ 
مذکورہ بالا نکات پر عمل پیرا ہو کر تو دیکھیں کہ کس طرح آپ کی زندگی پر ان اعمال کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں