"FBC" (space) message & send to 7575

مقام شکرا ور امتحان!!

25 جولائی کو منعقد ہونے والے گیارہویں عام انتخابات بخیروخوبی اختتام کو پہنچے‘اور اب نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوچکا ۔اہل ِپاکستان کے لیے اس سے زیادہ خوش آئند بات کیا ہوگی کہ دوسیاسی حکومتیں اپنے ادوار مکمل کرچکیں اور یہ تسلسل بدستور جاری ہے۔2008ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلزپارٹی کو مینڈیٹ سے نوازا‘ لیکن اس کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کے باعث2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا۔اب اگر ووٹرز نے پاکستان تحریک ِانصاف کو اعتماد سے نوازا ہے‘ تو اس کا احترام کیا جانا چاہیے‘ لیکن انتخابی نتائج پر بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہاہے۔
بہرحال اگر سیاسی تسلسل اسی طرح سے جاری رہتا ہے‘ تو پھر وہ دن بھی دُور نہیں‘ جب اس طرح کی شکایات بھی سامنے نہیں آئیں گی اور اسی منزل کا حصول سب کا مقصد ہونا چاہیے۔دراصل سیاسی تسلسل ہی اُن قوتوں کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے ‘جو ووٹوں کی طاقت کے بغیر برسراقتدار آتی ہیں اور ملک کو کئی لحاظ سے دہائیوں تک پیچھے دھکیل دیتی ہیں‘جس کے بعد جمہوریت کا سفر نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے۔تمام اختلافات کے باوجود اس حوالے سے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہم سب کے سامنے ہے کہ وہاں بھی وہی خرابیاں زیادہ شدت سے پائی جاتی ہیں‘ جن کا شکار ہم ہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہاں جمہوری تسلسل میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مذکورہ تمام تربحث سے ہٹ کر یہ مقام شکر ہے کہ انتخابات نہ صرف مقررہ وقت پر ہوئے‘ بلکہ ان میں 51 فیصد سے زائد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ خصوصا ًاہل ِکراچی نے توگویا ایک نئی تاریخ رقم کردی‘ جن کے لیے لندن سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم آیا تھا ‘لیکن اہل ِکراچی نے اسے ٹھکرادیااور بھرپور طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔یہ ٹرن آوٹ‘ ووٹر کے بحال ہوتے اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے‘ وہی اعتماد جو بار بار غیرسیاسی حکومتوں کے برسراقتدار آنے کے باعث بری طرح مجروح ہوچکا تھا۔25جولائی کو پولنگ اسٹیشنز کے باہر دکھائی دینے والا نظارہ بہت ہی دیدنی تھا۔ ووٹرحضرات لمبی قطاروں میں لگے ہوئے اپنی باری کا انتظارکرتے نظرآرہے تھے۔ صرف مرد حضرات ہی نہیں‘ بلکہ ان میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھیں۔ ووٹرز نے پورے اعتماد سے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‘ جو سب کے لیے مقام شکر ہے۔
انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اب عمران خان کے وزیراعظم بننے میں بظاہر کوئی رکاؤٹ باقی نہیں رہ گئی۔اسی تناظر میں اُنہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں وہ خدوخال بھی واضح کردئیے ہیں‘ جن پر ملکی پالیسیاں ترتیب دی جائیں گی۔اُن کی طرف سے بہت واضح طور پر قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر اُس حلقے کو کھولنے کے لیے تیار ہیں‘ جہاں کچھ جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک ِانصاف اور حکومت کے درمیان پہلا یہی نکتہ تھا ‘جس پر اختلافات پیدا ہوئے اور پھر بات بڑھتے بڑھتے دھرنوں تک جا پہنچی تھی۔شاید عمران خان اپوزیشن کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احتجاج کی سیاست شروع کردے۔ امریکا کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے چین کے ماڈل کو اپنانے کا اعلان کرنے کے ساتھ اُن کی طرف سے سعودی عرب سے بھی تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بیان کا اہم ترین نکتہ‘ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قرار دیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا ‘تو وہ دوقدم آگے بڑھائیں گے اور یہ بھی واضح کردینا کہ مسئلہ کشمیر میز پر بیٹھ کر بھی حل کیا جاسکتا ہے‘ حقیقت کے قریب ترین ہے۔ ماضی میںجتنی بھی سیاسی حکومتیں برسراقتدار رہیں‘ اُن سب کی طرف سے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے تقریباًیہی موقف اپنایا جاتا رہا ہے‘ کیونکہ اس حقیقت سے کسی بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے ‘تو پھر کیوں نا اُن کے ساتھ‘ اپنے مفادات کی قربانی دئیے بغیر‘ بہتر تعلقات استوار کیے جائیں!!
ملک کے متوقع وزیراعظم کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کا عندیہ دیا جانا بھی خوش آئند ہے‘ جسے حقیقت پسندانہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔اب جبکہ پاکستان تحریک ِانصاف نا صرف مرکز‘ بلکہ کے پی کے اور پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے‘ تو اُس کے لیے گویا ایک امتحان کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان کو اپنے اُن گیارہ نکات کو بھی یاد رکھنا ہوگا‘ جو اُنہو ں نے انتخابی مہم کے دوران گریٹر اقبال پارک میں اپنے ایک خطاب کے دوران دئیے تھے۔تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے اُن کی طرف سے ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے ساتھ سب کے لیے ہیلتھ کارڈ متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔نواز حکومت کے مقابلے میں دُگنا ٹیکس جمع کرنے اورغریبو ں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنانے کا اعلان بھی آن ریکارڈ ہے‘ تو ماحولیات کی بہتری اور کسانوں کے لیے انقلابی اقدامات اُٹھانے کا بھی عندیہ دیا گیا تھا۔محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کے خاتمے اور خواتین کے لیے تعلیمی مواقع کو بڑھانا بھی اُن کے گیارہ نکات میں شامل تھا۔ان گیارہ نکات سے ہٹ کر جو سب سے اہم مسئلہ نئی حکومت کا امتحان لے گا ‘وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ جس کے لیے ابتدائی طور پر دس سے پندرہ ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔اتنی بڑی رقم حاصل کرنے کے لیے لامحالہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہی لینا پڑے گا‘ جو اتنا آسان نہیں ہوگا۔
نئی حکومت کے لیے جوڈیشل ایکٹوازم کا سامنا کرنا بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے‘ تو دبے لفظوں میں اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ نئے پولیٹکل سیناریومیںانتہائی اہمیت کے حامل عناصر کی اراء کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ دوسرے نکات کے حوالے سے بھی اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے‘ تو ان سب وعدوں کی تکمیل پر سوالات کا اُٹھنا لازمی امر ہے ۔ہاں! یہ ضرور ہے کہ ابھی سے منفی باتیں شروع کردینا بھی مناسب بات نہیں‘ کیونکہ اگر اُن کی جماعت نے 22 سال کی محنت کے بعد اقتدار حاصل کرلیا ہے‘ تو پھر پہلے اُسے کام کرنے کا موقع دینا چاہیے ‘جس کے بعد ہی سوالات کا اُٹھایا جانا مناسب ہوگا؛البتہ اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ آنے والی حکومت کے لیے ایک ایسا امتحان شروع ہونے والا ہے‘ جس میں کامیابی حاصل کرنا ‘جوئے شیر لانے کے مترادف ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی ان حالات میںکہ ووٹرز نے تبدیلی کے نام پر ہی پاکستان تحریک ِانصاف کو مینڈیٹ سے نوازا ہے اور اگرتبدیلی نہیں آتی ‘تو پھر نہ جانے حالات کیا رخ اختیار کرجائیں؟؟
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعد جو تیسری سیاسی قوت میدان میں اُتری ہے ‘ اگر اُس کے بارے میں بھی یہی تاثر پیدا ہوگیا کہ وہ ملکی مسائل حل نہیں کرسکتی ‘تو کیا سیاسی جماعتوں پر سے عوام کا اعتماد بالکل ہی نہ اٹھ جائے گا؟کیا یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ سیاسی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں؟یہ وہ تاثر ہے‘ جسے پیدا کرنے میں پہلے بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی گئی کہ کسی بھی حوالے سے بدنامی سیاستدانوں کے ہی حصے میں آتی ہے‘ معاملہ کوئی بھی ہو‘ نزلہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر ہی گرتا ہے۔اس تاثر کو زائل کرنے اور جمہوری تسلسل کو مضبوط تر بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اوراپوزیشن برائے اپوزیشن کی روش سے بچنا ہوگا۔

 

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں