"FBC" (space) message & send to 7575

تبدیلی تو آگئی مگر…!

25 جولائی کے بعد سے ملکی سیاست میں ارتعاش بدستور برقرار ہے کہ حکومت سازی کے مراحل نے مختلف جماعتوں کو جیسے ‘حواس باختہ سا کررکھا ہے۔انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی مرکزاور کے پی کے میں تو پاکستان تحریک ِانصاف کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ پیپلزپارٹی سندھ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی‘ جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے خدوخال اُبھرے۔اصل میچ اہم ترین صوبہ پنجاب میںکھیلا گیا ‘ جس کے سامنے آنے والے نتائج نے شاید تحریک ِانصاف کے رہنماؤں کی روح تک کو سرشار کردیا ہے۔یہاں تحریک ِانصاف اپنے دعوؤں کے مطابق اب حکومت سازی کی پوزیشن میں آچکی ہے ۔یہ کامیابی اُس کے لیے مرکز میں کامیابی کی خوشی جیسی ہی ہے یا شاید اُس سے بھی کچھ بڑھ کرہے۔اپنی اس کامیابی کے لیے وہ بجا طور پر خوشی منانے کی حقدار ہے کہ اس نے بظاہر ایسے صوبے میں حکومت سازی کی پوزیشن حاصل کرلی ہے‘ جو مسلم لیگ ن کا پاورہاؤس تھا؛حتی کہ تحریک ِانصاف لاہور میں بھی اپنی موجودگی کا بھرپوراحساس دلانے میں کامیاب رہی ۔2013ء کے انتخابات میں تحریک ِانصاف لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کرسکی تھی۔اس مرتبہ اُس کے اُمیدوار قومی اسمبلی کی چودہ میں سے چار اور صوبائی اسمبلی کی تیس میں آٹھ نشستیں لے اُڑے ۔ گویا مسلم لیگ ن کو اچھی طرح سمجھ آگئی کہ اب وہ لاہور کو اپنا گڑھ سمجھنے کی غلطی نہ کرے‘ مطلب پنجاب میں انتخابات سے پہلے جو کچھ ہوا‘ اُس کے نتائج تو سامنے آچکے ہیں اور انتخابات کے بعد جو کچھ ہورہا ہے‘ اُس کے نتائج سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت صرف ہوگا ۔
عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں میں سے(دونشستوں پر انتخاب نہیں ہوسکا تھا) 270 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی واضح ہوگیا تھا کہ پنجاب‘ مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔تمام تر جمع تفریق کے بعد ‘نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون 139 تو تحریک ِانصاف 123 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔28 آزاد اراکین تیسری قوت کے طور پر سامنے آئے‘ جن کی اکثریت نے تحریک ِ ِانصاف کے پلڑے میں وزن ڈالا‘ تو مسلم لیگ ق بھی اپنے سات اراکین سمیت تحریک ِانصاف کے کیمپ میں آگئی‘ جس کے بعد تحریک ِانصاف کو کم از کم سادہ اکثریت تو بہرحال حاصل ہوچکی ہے۔پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے پہلے 74 مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوجائے گا‘ جس کے ساتھ ہی ایوان کی گنتی پوری ہوجائے گی۔نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ایوان میں موجود تمام اراکین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور کم از کم 185 ووٹ حاصل کرنے والا وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لے گا۔گویا صوبے میں مسلم لیگ ن کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو ہے‘وہیں پنجاب سے جہاں نواز شریف پہلے وزیر خزانہ اور پھر1985ء میں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔یہیں سے آگے چل کروہ ملک کے وزیراعظم بنے‘ تو میاں شہباز شریف نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔اسی تخت سے شریف برادران نے مرکز میں پیپلزپارٹی کے دونوں ادوار کے دوران اُسے ناکوں چنے چبوائے ۔اس عرصے کے دوران میاں نواز شریف تین مرتبہ وزارت ِعظمیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔
یہ تو رہا تصویر کا ایک رخ ‘ دوسرا رخ یہ ہے کہ کیا تحریک ِانصاف نے یہ معرکہ اپنے بل بوتے پر سر کیا ہے؟بظاہر تو اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے کہ اہل پنجاب کی ایک بڑی تعدادمسلم لیگ ن کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی یا پھر تبدیلی کی خواہش اتنی شدید تھی ‘جس کے باعث تحریک ِانصاف مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی اپنی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں آگئی۔یہ بات طے ہے کہ جب تک پنجاب ‘مسلم لیگ ن کے پاس رہتا‘تب تک مرکز میں کسی بھی مخالف حکومت کے لیے سکون کا سانس لینا آسان نہیں تھا۔اسی تناظر میں جب انتخابات کے قریب آتے ہی فصلی بٹیروں کے متوقع طور پر فاتح ہونے والی جماعت کا حصہ بننے کا عمل شروع ہوا‘تو تب ہی بہت سی باتیں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں کہ اب کے کھیل کچھ اور ہے۔جماعت کی صفوں میں اختلافات کو تلاش کرتے ہوئے ‘ ایسے رہنماؤں کو تلاش کیا گیا‘ جنہیں پارٹی قیادت سے گلے شکوے تھے۔ جنوبی پنجاب میں بھی نقب لگائی گئی‘ جس کے بعد عمران خان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘مطلب یہ کہ ابھی تو توڑ پھوڑ کا آغاز ہوا ہے اور یہ سلسلہ انتخابات سے پہلے پہلے مزید آگے بڑھے گا۔
بالکل2013ء کی طرح‘ جب ایسے ہی الیکٹ ایبلز بڑی تعداد میں مسلم لیگ کا حصہ بنے ‘تو اُن کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیاگیا تھا اور2018ء میں ان کے جانے پر کہا گیا کہ یہ مسلم لیگی تھے ہی نہیں۔یہ سب کچھ ہونے کے دوران ہی نظرآنے لگا تھا کہ اب وقت تبدیل ہورہا ہے‘ مرکز تو ایک طرف رہا پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں بن سکے گی ۔ چوہدری نثارفیکٹر نے بھی سیاست میں خوب ہلچل مچائی ‘لیکن اُن کے ہاتھ بمشکل صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہی آسکی ‘قومی اسمبلی کے دوحلقوں میں شکست کے بعد وہ مسلسل خاموش ہیں۔شاید جس طرح اُنہوں نے نواز شریف سے اپنی 35سالہ رفاقت کے راز افشا کیے تھے‘تھوڑا سنبھلنے کے بعد کسی روز وہ اپنی شکست کے راز بھی سامنے لے آئیں گے۔بہرحال نئے پولیٹکل سیناریو کی تشکیل کے تمام مراحل تقریباًکامیابی سے اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔اب تو سیاسی قوتوں ‘ خصوصاً تحریک ِانصاف کو اس سے آگے کاسوچنا ہوگا‘اُسے سوچنا ہوگا کہ کچھ اپنے اور کچھ دوسروں کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی کامیابی کو کس طرح سے جسٹی فائی کرنا ہے۔اُسے سوچنا ہوگا کہ اگر مستقبل میں اُس کے لیے بھی نون لیگی جیسی ہی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے یا کردی جاتی ہے‘ تو تب اُس کی حکمت عملی کیا ہوگی۔نئے پولیٹکل سیناریو کے تحت مستقبل کے کچھ کچھ خدوخال تو ابھی سے واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔اگر تحریک ِانصاف مرکز اورپنجاب میں حکومت بنا بھی لیتی ہے تو اُسے دونوں جگہ ہی بہت ہی تگڑی اپوزیشن کا سامنا رہے گا۔انتہائی مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں اُس کے لیے اُمور حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا‘ جس سے نمٹتے نمٹتے اُسے شاید اپنا منشور بھی یاد نہ رہے ۔ایسا ہوتا ہے تو پھر لامحالہ اس سے یہی تاثر مضبوط ہوگا کہ سیاسی قوتیں اُمور حکومت چلانے کی اہل نہیں ہیں۔لامحالہ جب دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے گی‘ تو پھر ساتھ ملنے والوں کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا پڑے گا۔مطلب یہ کہ نون لیگ کو بھی اُس کی جرأت کی سزا مل گئی اورتحریک ِانصاف کو بھی جائے رفتن نہ پانے ماندن جیسی نہج پر لا کر کھڑا کردیا گیا ہے۔آغاز پر ہی جو منڈی لگ چکی ہے وہ چھانگا مانگا پارٹ ٹو کی یاد دلا رہی ہے۔حکومت بنانے کی خواہش میں ابھی سے کوئی اصول باقی رہ گئے ہیں‘ نہ نظریات۔ان حالات میں جو بھی حکومت بنے گی‘ اُس کا بیشتر وقت تو اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے ‘ صورت حال کو قابو میں رکھنے میں ہی صرف ہوجائے گا۔کتنا اچھا ہوتا اگر نئے پولیٹکل سیناریو کے تحت سامنے آنے والی جماعت کو کم از کم اتنی اکثریت تو مل جاتی کہ وہ سسٹم چلانے کے قابل رہتی ۔اتنا تو ہوتا کہ وہ اپنے منشور کو کسی حد تک عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کرلیتی۔اب بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ نئی حکومتی جماعت بھی روایتی سیاست سے ہی کام لے گی کہ اُس کے لیے فی الحال تو کوئی دوسرا چارہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ان تمام تر حالات میں تحریک ِانصاف کو مرکز اور پنجاب ‘ دونوں جگہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے آل آؤٹ جانا ہوگا ‘کیونکہ اُس کی طرف سے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے جاچکے ہیں‘ اگر اُنہیں پورا نہیں کیا جاتا تو عوام میں مایوسی پھیل جائے گی۔یہ تو حقیقت ہے کہ عمران خان کسی بھی طرح کے حالات میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں‘ لیکن اس مرتبہ حکومتی میدان میں جیتنا آسان نہیں ہوگا۔اُ ن کے لیے ایک اہم ٹاسک اپنی جماعت کے اندر پنپنے والے اختلافات سے نمٹنا بھی ہے ۔خصوصا ًپنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کے لیے جماعت کے اندر جو کچھ ہورہا ہے‘ اُس نے اعلیٰ جماعتی قیادت کے سامنے نیا چیلنج لاکھڑا کیا ہے۔گویا مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی تبدیلی تو آگئی ہے ‘لیکن اسے زمین پر منتقل کرنا ہی تحریک ِانصاف کا اصل امتحان ہوگا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں