"FBC" (space) message & send to 7575

کٹاس راج کی طلسم نگری

دسمبر2008ء کی سرمئی سی دوپہر کو فلائنگ کوچ نے موٹروے چھوڑ کرضلع چکوال کی تحصیل چواسیدن شاہ میں واقع کٹاس راج کا راستہ لیا۔جگہ جگہ فیکٹریوں سے نکلتا ہوا دھواں اورسرسبز کھیت ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ایک پہاڑی کا موڑ مڑتے ہی سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور یکا یک کٹاس راج کا طلسم کدہ آنکھوں کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ہزاروں سال پرانے مندر‘سادھوؤں کے چلوں کے لیے بنائی گئیں گپھائیں ‘ ایک خوب صورت بارہ دری‘اِن سب کے بیچوں بیچ ایک خوب صورت سی جھیل اورہرطرف چھایا ہواسکوت۔یہاں آنے سے پہلے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ جگہ اتنی مسحورکن ہوگی ۔ اِس جگہ ایک مقناطیسی کشش محسوس ہورہی تھی۔ سبزے کے قالین پر چلتے ہوئے رخ ایک چھوٹے پہاڑ کی چوٹی پر بنی عمارت کی طرف ہوا ‘ معلوم ہوا کہ یہ حویلی نما عمارت سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کرائی تھی ‘لیکن یہ کسی طور بھی دیگر تعمیرات سے مماثلت نہیں رکھتی ‘ گویا اِسے صرف تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کے لیے تعمیر کردیا گیا ہو۔سکھ حکمرانوں کو کیوں کر یہ سوچ نہ آتی کہ کٹاس راج ایسی جگہ ہے جس کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں ملتا ہے۔بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی یہاں آنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں‘ کیونکہ بدھوں نے تقریبا تین ہزار سال پہلے یہیں پر ایک یونیورسٹی قائم کی تھی جس کے آثار آج بھی یہاں ملتے ہیں۔اِس یونیورسٹی کو ٹیکسلا کی بدھ یونیورسٹی کی ہمعصر مانا جاتا ہے۔اِن آثار کی ہمسائیگی میں ایک خوب صورت مسجد بھی اپنی چکا چوند دکھاتی ہے ‘گویا اِس مقام پر تین مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی دیکھنے کوملتی ہے۔کٹاس راج میں گھومتے گھومتے اپنا وجود تو کہیں محسوس ہی نہیں ہورہا تھا صرف تاریخ کے صفحات تھے جو ایک کے بعد ایک‘ پلٹتے چلے جارہے تھے۔اچانک کچھ افراد کے زور زور سے بولنے کے باعث حقیقت کی دنیا میں واپسی ہوگئی۔دیکھا تو بہت سے ہندؤ دکھائی دئیے جن میں بھارت سے آنے والے یاتری بھی شامل تھے۔اپنے ایک مقدس ترین مقام پر پہنچ کر اِن ہندؤ افراد کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ہمسایہ ملک سے آنے والے زیادہ پرجوش دکھائی دے رہے تھے کہ آخرہندو عقیدے کے مطابق اُنہوں نے شیودیوتا کے آنسوؤں سے بننے والی جھیل دیکھ ہی لی تھی۔ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ جب اُن کے بھگوان شیو کی بیوی ستی مر گئی تو وہ اپنی بیوی کے دکھ میں بہت رویا۔اِس دوران اُس کا ایک آنسوبھارت میں پشکرکے مقام اور دوسرا کٹک شیل میں گِرا۔کٹک شیل بعد میںکثرت استعمال سے کٹاس راج بن گیا۔دیگر تعمیرات ایک طرف رہیں‘ لیکن اِس مقام پر واقع تقریبا 30فٹ گہری جھیل ہی سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔یہاں آئے مہمانوں سے گپ شپ کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ہندوؤں کی زیادہ تعداد جھیل دیکھنے اور اِس کا پانی ساتھ لے جانے کے لیے یہاں کا رخ کرتی ہے۔شام ڈھلے وہاں سے اِس خواہش کے ساتھ واپسی ہوئی کہ موقع ملا تودوبارہ بھی یہاں کا وزٹ ضرور کیا جائے گا۔ یہ موقع کچھ عرصے کے بعد پھر ہاتھ لگا۔اِس اُمید کے ساتھ کٹاس راج کا رخ کیا کہ اب وہاں سب کچھ پہلے سے بہتر حالت میں ہوگا ۔ اِس اُمید کی وجہ یہ تھی کہ 2005ء میں اِس جگہ کی بحالی کے لیے جو منصوبہ شروع کیا گیا تھا وہ 2014ء میں مکمل ہوچکا تھا۔مگر کیا دیکھتا ہوں کہ پانچ سال کے دوران یہاں پہنچنے والے راستے پر بہت سی نئی فیکٹریاں وجود میں آچکی ہیں۔فضا میں اِن فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کی تہہ مزید دبیز ہوچکی تھی ‘جسے چیر کر کٹاس راج پہنچے توایک جھٹکا سا لگا۔ وہ جگہ جہاں صرف کچھ سال پہلے ایک مقناطیسی کشش محسوس ہورہی تھی‘ وہ تو اُجڑے دیا ر کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔فیکٹریوں سے نکلنے والا وہ دھواں جو پانچ سال پہلے تک اِس کی حدود میں داخل نہیں ہوتا تھا‘ اب بادلوں کی جگہ اُس دھویں نے لے رکھی تھی۔اِس طلسم کدے کے عین بیچوں بیچ واقع جھیل کاپانی تہہ سے جا لگا تھا۔کچھ سال پہلے جو احساسات رگ و پے پر چھا رہے تھے اب اُن کا دوردورتک کوئی نشان نہیں تھا۔یہ صورتحال مایوس کردینے والی تھی ۔ اتنا ضرور تھا کہ عمارتوں کی حالت پہلے کی نسبت کافی بہتر نظرآئی‘ صفائی ستھرائی کے بھی اچھے انتظامات نظرآئے لیکن سوچیں در آرہی تھیں کہ فضا میں پھیلے ہوئے دھویں کی دبیز تہہ اگراِسی طرح برقرار رہتی ہے تویہ آثار کب تک اُس کا مقابلہ کرسکیں گے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں موجود جھیل کو کیا ہوگیا ہے۔اِس کا پانی کون پی گیا‘ جو تقریبا جھیل کے تہہ کے ساتھ جا لگا ہے۔تان اِس علاقے میں لگائی جانے والی سیمنٹ فیکٹریوں پر جا کر ٹوٹی۔ اِن فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں نے تو اپنے پر پھیلائے ہی تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں بھاری مقدار میں استعمال ہونے والے پانی کے باعث مختلف چشموں کے اشتراک سے وجود میں آنے والے گنیا نالہ بھی خشک ہوچکا تھا۔کٹاس راج کی جھیل میں بھی پانی اِسی گنیا نالے سے آتا تھا۔پانی میں کمی آئی تو کٹاس راج کے آنسو بھی خشک ہونے لگے۔اِن فیکٹریوں کے یہاں لگائے جانے پر مقامی افراد نے شدید احتجاج بھی کیا تھا ‘لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ دل بوجھل سا ہورہا تھا کہ ہزاروں سال پرانی تاریخ کے آثار اپنی موت آپ مررہے تھے ۔
اِس تمام صورتحال پر وہاں سے واپسی تو بوجھل دل کے ساتھ ہوئی ‘ لیکن 2017ء کے بعد سے یہ بوجھ کسی قدر کم ہوتا محسوس ہورہا تھا جس میں اب مزید کمی آئی ہے۔ اِس کی وجہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی طرف سے اِس تمام صورتحال کا ازخود نوٹس لیا جانا اور اب اِس کیس کو نمٹا دیا جانا ہے۔کیس کی ابتدائی سماعتوںمیں چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ ہندو بھی اِس ملک کے شہری ہیں اور یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔اُن کی طرف سے یہ بھی قرار دیا گیا کہ یہ صرف ہندوؤں کی عباد ت گاہ ہی نہیںبلکہ ملک کا قومی ورثہ بھی ہے‘ جس کے ساتھ افسوسناک سلوک کیا جارہا ہے۔صورتحال سے قریبی آگاہی کے لیے انہوں نے کٹاس راج کا دورہ بھی کیا۔سپریم کورٹ کی طرف سے لیے جانے والے ازخود نوٹس کیس کی آخری سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب نے واضح طور پر قرار دیا کہ ایک کلومیٹر کے دائرے میں فیکٹریاں لگا کر علاقے کو برباد کر دیا گیا ہے۔ معزز عدالت کی طرف سے حکم دیا گیا کہ جب تک سیمنٹ فیکٹریاں پانی کے متبادل ذرائع کا انتظامات نہیں کرتیں‘ تب تک اُن سے پانی کے نرخ وصول کیے جائیں۔یہ فیکٹریاں ماحولیات اور مفاد عامہ کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے لگائی گئیں۔پنجاب حکومت کو بھی کہا گیا کہ وہ پانی کی زیرزمین سطح کو بہتر بنانے کے لیے 20روز کے اندر رپوٹ پیش کرے۔سیمنٹ فیکٹریوں کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ پانی کے متبادل ذرائع کا انتظام ہونے تک دوارب روپے کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہیں۔اِن کی طرف سے ایک چھوٹا ڈیم تعمیر کرنے کی پیشکش بھی کی گئی تاکہ کٹاس راج جھیل کے لیے پانی کی فراہمی متاثر نہ ہو‘جس کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا گیا ہے۔ لیکن یہ صورتحال ہمیں بھی بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ کیسے قوانین کو نظرانداز کرکے من مانی کی جاتی ہے۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ اِن حالات کے پیدا ہونے میں متعلقہ محکموں کے ذمہ داران قصور وار نہیں ہیں تو شاید ہی کوئی اِس استدلال کو تسلیم کرے۔کٹاس راج پر آنے والا یہ نازک وقت شاید ہماری سوچ کا بھی عکاس ہے۔ہم کہ جنہیں تاریخ سے خداواسطے کا بیر ہے ‘یہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ تاریخ ‘ ایک امانت ہوتی ہے‘ جسے اُسی طرح آنے والی نسلوں تک منتقل ہونا چاہیے جیسا کہ وہ ہم تک پہنچی۔یہاں ایک مرتبہ پھر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا واجب ہے ‘ کہ وہ اگر نوٹس نہ لیتے تو شاید کٹاس راج کے آنسو ہمیشہ کے لیے خشک ہوجاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں