"FBC" (space) message & send to 7575

دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کروچھاؤں میں

آجا کے شاید رونا دھونا ہی باقی رہ گیا ہے‘قالین کو جہاں سے بھی اُٹھایا جائے نیچے سے گند ہی نکلتا ہے ۔کچھ تو منہ کے راستے ہمارے معدوں میں پہنچ جاتا ہے اور کچھ ہماری روحوں تک کو پراگندہ کردینے کا باعث بن جاتا ہے‘قصہ ختم نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے۔ترمذی شریف کی حدیث نمبر 1315رسول اکرمﷺ غلے ایک ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہیں‘غلے کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو ہاتھ تر ہوگیا‘ فرمایا کیا معاملہ ہے‘غلے کے مالک نے جواب دیا کہ حضور بارش کے باعث غلہ پانی سے تر ہوگیا ہے۔سبحان اللہ ‘آپ ﷺ نے کہا کہ تو گیلے غلے کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں کردیتا کہ خریدار بخوبی غلے کے ڈھیر کی حالت کے بارے جان سکیں۔پھر فرمایا جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ لیکن ہم نے تو ملاوٹ کو آرٹ بنا دیا ہے۔
لُک لُک کے سودے کرنا ایں‘بن محنت بوجھے بھرنا ایں
سعداں نوں توں چور بناویں ‘ اللہ کولوں توں نہ ڈردا ایں
کہا جاسکتا ہے کہ سمجھ نہیں آئی پنجابی میں کیا لکھا ہے ‘لیکن اُردو ترجمہ پڑھ کر جان بھی لیں ‘تو پھر بھی عمل کون سے تبدیل ہونے ہیں '' چھپ چھپ کر سودے کرتے ہو‘بغیر محنت کے جیبیں بھرتے ہو‘ایمانداروں کو غلط راستے پر لگاتے ہوئے اور اللہ سے نہیں ڈرتے ہو‘‘۔کسی بھی حالت میں کیسے بھی بینک بیلنس میں اضافہ ہونا چاہیے ۔ چاہے‘ اس کے لیے گندے انڈوں سے بنا سفوف معروف برانڈز کے بسکٹس میں ملا کر ہی دوسروں کو کیوں نہ کھلانا پڑے۔ایک ہفتے کے دوران صرف 3شہروں سے 30لاکھ گندے انڈوں کا پکڑے جانا ‘وہ انڈے جنہوں نے مختلف شکلیں دھار کر ہماری غذا کا حصہ بننا تھا اورپھر شاید ایک مرتبہ پھر ایسا ہوتاکہ گندے انڈوں کا سفوف تیار کرنے والی فیکٹری پکڑی جاتی اور ایک انتہائی معروف عالم صاحب کا فون آجاتا کہ اس مرتبہ ان کو چھوڑ دیں ‘ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔یہ سفوف بنانے والی فیکٹری دوبارہ بھی پکڑی گئی ‘لیکن خوش قسمتی سے عالم دین صاحب کے فون نہ آیا اور فیکٹری مالک کو بھاری جرمانہ ادا کرتے ہی بنی۔یہ سب آنکھوں کے سامنے ہونے کے باعث ‘ آئیں بائیں شائیں کرنے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ شاید بتانے والا غلط بتا رہا ہو۔
جیبیں بھرنی چاہئیں‘ چاہے اس کے لیے ذبح کیے جانے والے جانوروں کی باقیات سے ہی تیل تیار کرکے مارکیٹ میں کیوں فروخت نہ کرنا پڑے۔وہ تیل جسے بعض صورتوں میں کوکنگ آئل قرار دے کر بھی فروخت کردیا جاتا ہے۔باقی شہروں کی بات تو ایک طرف یہ لاہور کے قریب کرول گھاٹی کا علاقہ اس کام کے لیے ایسا معروف ہے گویا یہ نوگو ایریا ہو۔بڑے بڑے احاطوں میں لگی بڑی بڑی بھٹیوں پر پڑے ‘ بڑے بڑے کڑاہوںمیں اُبلتی ہوئی جانوروں کی باقیات اور اِن سے تیار ہوتا تیل نہ جانے کب سے مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے۔درجنوں مرتبہ چھاپے پڑے ‘لیکن کچھ دنوں بعد صورت حال پھر معمول پر آگئی۔اب کون مانے گا کہ یہ سب کچھ ذمہ داران کی نظروں سے اوجھل ہے۔پیسہ کمانے کا کوئی اور ذریعہ ہاتھ نہ لگے‘ تو پرانی اور ضائع شدہ دالوں کو ہی ٹیکسٹائل کے رنگ دے کر نیا بنا دینا ‘ فن ہی تو ہے۔آہستہ آہستہ اب اِس فن میں بھی یکتائی حاصل ہورہی ہے۔کوئی دوسرا بتائے تو یقین نہ آئے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ‘لیکن جب آنکھوں سے یہ سب ہوتا دیکھ لیا جائے تو شک کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے۔دودھ کی کیا پوچھتے ہیں جو ہرچھوٹے بڑے کی غذا کا اہم جز ہے ‘لیکن آئے روز ملاوٹ شدہ دودھ پکڑے جانے کی خبریں دل دہلائے دیتی ہیں۔ملاوٹ بھی صرف پانی کی نہیں کہ پانی ملائے جانے کی باتیں تو پرانی ہوچکیں ۔اب تو جدید دور ہے تو ملاوٹ کے جدید طریقے ہی استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کے دودھ میں کھاد ملا لیں‘ اسے گاڑھاکرنے کے لیے ‘سرف ملا لیں ‘اس میں جھاگ پیدا کرنے کے لیے اور چکنائی کی بڑھوتی کے لیے گھی کی ملاوٹ کرلیں۔
اب تو اس فن میں بھی ایسی یکتائی حاصل کرلی گئی ہے کہ گاؤں میں بھینس ایک بھی نہیں اور وہاں سے ہرروز تین سے چار ہزار لیٹردودھ مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہو۔یہ دودھ ہمارے معدوں میں پہنچ کر کیا ستم ڈھاتا ہوگا‘تم ہی بتاؤبھلا ہم بتلائیں کیا۔جب انتہائی مہنگے داموں فروخت ہونے والی تلی ہوئی مچھلی کو اس حالت میں پڑا دیکھ لیا جائے کہ اُبکائیاں آنے لگیں ‘ جب مختلف رنگوں کی چٹنیاں ڈال کر کھائے جانے والے سموسوں کی تیاری میں پاؤں کا آزادانہ استعمال ہوتا دیکھ لیا جائے ‘تو دل برا کیوں نہیں ہوگا۔ 
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا 
اب شاید دل کے نگرکا لوٹا جانا زیادہ شدت سے اس لیے محسوس ہورہا ہے ۔چیزیں روز روشن کی طرح طشت از بام ہورہی ہیں۔ہاں بس اس بات سے ذرا ڈھارس بندھتی ہے کہ سب جگہ ایسا نہیں ہے۔ 
بقول ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عثمان کے‘چیزیں ابھی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں پہنچیں‘اگر 50جگہوں پر چھاپہ مارا جائے تو 10کے قریب جگہوں پرسے ملاوٹ شدہ اشیائے خورونوش ملتی ہیں ۔ان باتوں سے دل کو ڈھارس تو ملتی ہے‘ لیکن یہ سوچ پھر بھی درآتی ہے کہ جب واضح طور پر یہ کہہ دیاگیا کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں تو پھر اس دھندے کو چھوڑنے میں کیا امر مانع رہ جاتا ہے۔اس دھندے کو روکنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کو انتہائی طاقتور بھی بنایا گیا ہے کہ یہ کسی بھی جگہ کو 120دنوں کے لیے سیل کرسکتی ہے‘دس لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کرسکتی ہے‘ لیکن پھر بھی زیادہ پیسے کمانے کی ہوس ‘ ہوس پرستوں کو پیچھے ہٹنے سے روکتی ہے۔اگر قانون کے ہاتھ ہوس پرستوں کی گردن تک نہیں بھی پہنچ پاتے تو کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل سے نہیں نوازا کہ ہماری حرکتیں کیا ستم ڈھا سکتی ہیں؟کیا ہم نہیں جانتے کہ غلط کام کی اگر دنیا میں نہیں تو وہاں تو ہرصورت سزا ملے گی‘ جہاں ایک روز ہم نے جاناہے‘ وہاں جہاں صرف عملوں کا حساب ہونا ہے‘ وہاں جہاں کسی نے ہماری ذات نہیں پوچھنی ۔
جانتے ہیں ‘ ہم سب کچھ جانتے ہیں لیکن مجبور ہیں ‘بدعنوانی کے اُن جراثیموں سے جو ہم میں سے بہتوں کے خون میں رچ بس چکے ہیں۔خون میں رچ بس جانے والے بدعنوانی کے یہی جراثیم تو ہیں جو آگے چل کر اتنے مضبوط ہوجاتے ہیں کہ پھر گھروں کے درودیوار سے بھی نوٹ ‘بارش کے قطروں کی طرح گرتے ہیں۔یہی جراثیم تو ہیں جو وقت کے ساتھ اتنے طاقتور ہوجاتے ہیں کہ ہماری روحیں توان کے چنگل میں جکڑی جاتی ہیں۔پھر چاہے لاکھ جان چھڑانے کی کوشش کی جائے یہ کمبخت پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔اور ملاوٹ کیا صرف کھانے پینے کی اشیا میں ہی ہوتی ہے؟نہیں پھر بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہے جاتے‘ آگے تلک جاتی ہے کہ ملاوٹ چاہے اشیائے خورونوش میں ہو ‘ رشتوں میں ہو یا پھر ہمارے رویوں میں‘ یہ جس بھی جگہ ہوگی سب کچھ گھن کی طرح کھا جائے گی ‘بالکل ویسے ہی جیسے یہ ہمارے معاشرے کو چاٹتی چلی جارہی ہے۔ہرطرف ایک ہنگام برپا ہے ‘ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ جیسے تیسے بس بینک بیلنس میں اضافہ ہوجائے۔ چاہے‘ وہ ملاوٹ زدہ ہی کیوں ناں ہو؟
کسی ایک کا کیا ذکر کیا جائے میں بھی تو اسی دوڑ کا حصہ ہوں تبھی تو میں اور میرے جیسے بہت سے گیلا غلہ ڈھیر کے نیچے رکھتے ہیں‘ کوشش کرتے ہیں کہ معاملات کا علم دوسروں کو نہ ہونے پائے اور اپنا کام بن جائے۔تبھی تو نیندیں اُڑ چکیں تو سکون غارت ہوچکا گو یہ سوچ پھر بھی کہیں جڑ نہیں پکڑتی کہ اب بس بہت ہوگیا۔ایسے میں ایک دو کی مثال بھی کہاں ہمارے دل میں گھر کرسکتی ہے ۔سونامی سے تباہ شدہ جاپان میں تربوز بیچنے والا مثال پیش ہے۔خریدنے والے نے نرخ پوچھے تو ایک طرف رکھے گئے تربوزوں کے نرخ زیادہ اور دوسری طرف کے تربوزوں کے نرخ کم بتائے گئے۔کم زیادہ نرخوں کی وجہ پوچھی گئی تو بتایا ‘ کم نرخوں والے تربوز کل کے اور زیادہ نرخوں والے آج کے ہیں‘لیکن دیکھنے میں تو تربوزوں کے معیار میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا ‘کسی کو کیا پتا چل سکتا ہے کہ کون سے تربوز کل اور کون سے آج کے ہیں۔ اس کا جواب تھا‘ مجھے تو معلوم ہے کسی کو معلوم ہویا نہ ہو۔وہی دن اور رات‘ وہی روایتی باتیں‘ وہی دوسروں کی مثالیں اور وہی اپنا چلن۔وہی دوسروں کو نصیحت خود کو میاں فصیحت ثابت کرنے والا رویہ جو بدلا نہ بدلنے کی اُمید نظرآرہی ہے۔ پر اُمید کادامن بھی تو ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاسکتا ‘اسے تو بہرحال تھامے ہی رکھنا ہوگا ۔
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کروچھاؤں میں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں