"FBC" (space) message & send to 7575

آئیں بائیں شائیں

ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ ویسا ہی ہو‘ جیسا ہم چاہتے ہیں‘ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم وہ کہہ بھی سکیں‘ جو کہنا چاہتے ہیں‘ بیان کرنا چاہتے ہیں‘اپنے اندر کی آواز کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ 31اکتوبر سے اب تک جو کچھ دیکھا اور اس دیکھے کو‘ جس طرح سے محسوس کیا‘اُسے ڈھنگ سے بتانے کی ہمت نہیں ہوپارہی۔ بس اتنا ہی ہے کہ ایک سال پہلے کی یاد تازہ ہوگئی ۔ایک ہی طرح کے حالات ‘ ایک ہی طرح کی گفتگو اور پھر ایک ہی طرح کا ڈر‘کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘کہیں ویسا نہ ہوجائے۔رقت کا غلبہ بھی رہا کہ محبت رسول ﷺ ہی تو ہمارے ایمان کی اساس ہے۔حضور اکرم ﷺ کی ذات بابرکت پر کامل ایمان ہی تو ہمارے لیے دنیا اور آخرت کا سہارا ہے۔ اس محبت میں سرخرو نہ ہوسکے ‘تو بھلا ہمارا کوئی ٹھکانہ باقی رہ جائے گا؟جو بھی صورت حال پیدا ہوئی ‘ اُس حوالے سے حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھی بار بار ذہن میں آتا رہا کہ '' روز قیامت ترازو میں کوئی شے حسن خلق سے زیادہ بھاری نہیں ہوگی‘‘۔یہ وسوسے بھی ذہن میں کلبلاتے رہے کہ کہیں راستے بند ہونے سے خلق خدا کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہورہی؟پھر دھیان آتا کہ احتجاج سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو تو پھر کوئی بات بھی نہیں سنتا‘شاید اسی لیے اپنی آواز ارباب اختیار کے کانوں تک پہنچانے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑ جاتا ہے‘ جس سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ خیالات کے ڈانڈے افغان جہاد سے بھی ملتے رہے اور اُس انتہاپسندانہ سوچ سے بھی‘ جو اس جہاد کے نتیجے میں پنپی اور پھر اُس نے مضبوطی سے اپنے قدم جما لیے۔ گاہے بگاہے اس پودے کو آبیاری بھی کی جاتی رہی ۔خیالات کے اسی گرداب میں ڈوبتے اُبھرتے متضاد آرا کے باعث بھی ذہن منقسم ہوتا رہا۔ سڑکوں پر آنے والے اپنے موقف کو لے کر ڈٹ گئے‘ تودوسری طرف سے یہ کہا گیا کہ جب افراد ریاست کی رٹ پر اثرانداز ہونا شروع کردیں ‘تو اُن کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ۔حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر کارروائی کا عندیہ دیابھی گیا‘ لیکن ریاست سے نہ ٹکرانے کا پیغام اپنا اثر نہ دکھاسکا۔سیاست اور ووٹ بینک کے چکر میں ملک کے خلاف کام نہ کرنے کی تنبیہ بھی رائیگاں گئی اور بات اُسی طرح ختم ہوئی جیسے ایک سال پہلے ختم ہوئی تھی۔ دھرنوں کے لیے کنٹینرز دینے کی پیشکش کرنے والے آخر وہیں آئے‘ جہاں سابقہ حکومت کو آنا پڑا تھا۔ فرق صرف اتنا رہا کہ ایک سال قبل بغلیں بجانے والے اس مرتبہ پہلے والوں کی طرح ہی معاملہ خیرخیریت سے طے ہونے کی دعائیں کرتے رہے ؛حالانکہ اُنہیں اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تھی‘ تو مقتدر قوتیں بھی اُن کے ساتھ ایک پیج پر تھیں۔بہرحال حالات کے معمول پر آنے پر شکر ادا کرنا چاہیے‘ لیکن اگر یہ تمام معاملات صورت حال کے خطرناک نہج پر پہنچ جانے سے پہلے حل ہوجاتے‘ تو زیادہ احسن بات ہوتی؛اگر ایک سال پہلے کوئی دوسری مثال قائم ہونے دی جاتی‘ تو شاید آج بھی ویسا ہی ہوتا‘ لیکن جو تب ہوا وہی اب ہوا۔ پورا ملک تین روز تک بند رہنے کے بعد ایک معاہدے کے بعد کھل تو چکا ہے‘ لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ صورت حال بہت جلد دوبارہ پیدا نہیں ہوگی۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہی ہے کہ جب گزشتہ سال ایسی صورت حال پیدا ہوئی‘ تو تب چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان آنا تھا اور اب کے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان چین کے دورے پر تھے۔اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وزیراعظم کے دورہ چین پر اس صورت حال کے اثرات محسوس نہ کیے گئے ہوں۔ملکی معیشت کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے سرگرداں‘وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایسے وقت میں ہوا ‘جب ایک طرف ملک میں کشیدگی کی سی صورت حال تھی ‘ وہیں سی پیک کے حوالے سے بھی متعدد سوالات اُٹھائے جارہے تھے۔اس کا تذکرہ چین کے روزنامہ گلوبل ٹائمز نے اپنی 28اکتوبر کی اشاعت میں بھی کیا کہ چین کے منصوبوں اور نئے اقدامات پر بے جا سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔چینی روزنامے کو یہ سب لکھنے کی ضرورت شاید اس لیے بھی پیش آئی کہ موجودہ حکومت کے ایک مشیر کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ حکومت سی پیک منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے سی پیک پر بری کارکردگی دکھائی اورمعاملات طے کرتے وقت متعدد پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا۔ان حالات میں وزیراعظم کے دورہ چین سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جارہی تھیں‘ لیکن ملک کو درپیش مالی مسائل کے حل کی اُمید وزیراعظم کو چین لے گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ کی طرح سعودی عرب سے بھی کچھ امداد ملی‘ گویا کچھ دال دلیہ تو ہوا ہے‘ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمیشہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا رہتا کیوں ہے؟شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو‘جب آسمان بے یقینی کے بادلوں سے صاف دکھائی دے‘ جب ملک کو نازک حالات کا سامنا نہ ہو۔ایک کے بعد ایک مسئلہ سراُٹھائے کھڑا ہوتا ہے‘گویا مسائل کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ ہے‘ جو کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔دنیا بھی ہنستی ہی ہو گی کہ طویل عرصے سے ہمارے ہاتھ میں اُسے کشکول ہی دکھائی دیتا ہے۔اس پر یہ دعوے کہ فلاں کے ساتھ تعلقات برابری کی سطح پر استوار کیے جائیں گے‘ ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘وغیرہ وغیرہ‘یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ملک ہمیں امداد دے اور ہم اُس کے مفادات کو دھیان میں نہ رکھیں اور یہ سب بہترین ملکی مفاد کے نام پر ہی کیا جاتا ہے۔3نومبر بھی تو ابھی ابھی گزری ہے ‘جس روز آج سے 11سال قبل قوم کے ایک مسیحا نے ملک کے بہترین مفاد میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔60سے زائد ججز کو اُن کے گھروں پر نظربند کیا ‘ زبانوں پر تالے لگا دئیے ۔ اس سے پہلے بھی بہترین ملکی مفاد میں ہی ہم افغان جنگ میں کودے تھے ‘ ایسا کودے تھے کہ آج تک اُس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔پورا نظام درہم برھم ہوکر رہ گیا اور دوسروں کی جنگ ہمارے ملک میں گھس آئی ‘جو کسی نہ کسی صورت آج بھی لڑی جارہی ہے۔
اندرونی معاملات تو دگرگوں ہیں ہی‘ بیرونی دنیا سے بھی کوئی خیر کی خبر سننے میں نہیں آرہی اور شاید وہ تب تک سننے میں نہیں آئے گی جب تک ہم اپنے اندرونی حالات ٹھیک نہیں کرتے۔یہ بات طے ہے کہ ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے معاشرے میں رواداری کو فروغ دینا ہوگا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ہم ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہوگئے تو پھر دوسرے بھی ہمیں قبول کرلیں گے۔اس کے لیے سیاست میں کچھ عرصے سے در آنے والی گالی گلوچ کے کلچر سے بھی جان چھڑانا ہوگی۔کیا ضرورت ہے کہ دانت پیس پیس کر ایک دوسرے کے لتے لیے جائیں۔کیا یہ ضروری ہے کہ منہ کھولتے ہی بے یقینی پھیلنے لگے۔آج ایک بات کی جائے اور دوسرے روز یوٹرن لے لیا جائے۔سیاسی یوٹرن تو ایک طرف رہے ‘ بیوروکریسی کو بھی شش وپنج میں ڈال دیا جائے کہ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے۔آنے سے پہلے الزام عائد کیا جائے کہ پٹرول کے مہنگے ہونے کی وجہ اِس پر عائد بے جا ٹیکسز ہیں‘وہ بے جا ٹیکسز آج بھی لاگو ہیں اور پٹرول بھی مہنگا ہوتا چلا جارہا ہے۔اقتدار میں آنے کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آنے کے لیے یہ پلان بتایا جائے کہ برسراقتدار آتے ہی دوسو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کو روکا جائے گا۔پچاس بڑے بدعنوانوں کو پکڑ کر جیل میں ڈالا جائے گا۔یہ کہا جانا کہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینا رشوت کی ایک شکل ہے۔ حکمرانوں کو حاصل بے جا پروٹوکول کا بھی بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا۔اقتدار مل گیا‘لیکن دوسو ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی نہ پچاس بڑے بدعنوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی دئیے۔اراکین اسمبلی کو بھی فنڈز دئیے جانے کا ڈول ڈال دیا گیا۔پروٹوکول کا سلسلہ بھی ویسے ہی جاری ہے‘ تو پھر بدلا کیا؟ایوان وزیراعظم بھینسوں سے خالی کرالنے یا پھر سندھ اور لاہور کے گورنر ہاوسز عوام کے لیے کھول دینے کو ہی تبدیلی سمجھ لیا گیا ہے۔یہ تمام حالات بلاشبہ نئی حکومت کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔حکمرانوں کو یہ بات ہرصورت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مہنگائی اور مسائل کے مارے عوام نے اُنہیں بڑی اُمیدوں اور آسوں سے منتخب کیا ہے۔ خود تحریک انصاف نے بھی تبدیلی کے لیے 22سال تک کوشش اور جدوجہد کی ہے ۔خدارا ‘تبدیلی کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے مت دیں۔عوام کی اُمیدوں کو مت توڑیں‘ اُن کا یقین ڈانواں ڈول نہ کریں ‘مبادا وہ سوچنے لگیں کہ ہمارے سیاست دان صرف آئیں بائیں شائیںہی کرتے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں