"FBC" (space) message & send to 7575

اعتماد اور اخلاقیات کی کٹتی ہوئی فصل

اعتماد کی فصل ہے کہ تیزی سے کٹتی ہی چلی جارہی ہے۔آئے روز ایسی ایسی شخصیات زیربحث آرہی ہیں کہ اعتماد ڈانواڈول ہونے لگتا ہے۔اس میں ایک اور اضافہ پی ٹی وی کے سابق چیئرمین عطاالحق قاسمی کی صورت میں ہوا ہے۔کئی نسلوں کے آئیڈیل اور شگفتہ مزاج شخصیت ‘جن کی صحبت میں بیٹھیں تو وقت کا اندازہ ہی نہ ہوپائے۔لہجے کی شگفتگی ایسی کہ دل کو چھو جائے۔لکھنے پر ایسا ملکہ کہ جو بھی لکھیں رنگ بھر دیں۔ایسی شخصیت ‘جن کی تحریریں پڑھ پڑھ کرنہ جانے کتنوں نے لکھنا اور بولنا سیکھا۔وہ پی ٹی وی کے چیئرمین مقرر ہوئے‘ تو یہ اُمید بھی پیدا ہوئی کہ اب اس قومی ادارے کے حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے‘ لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے‘ اُس نے دل بوجھل سا کردیا ہے۔سپریم کورٹ نے بطور چیئرمین پی ٹی وی نا صرف اُن کی تقرری غیرقانونی قرار دے دی‘ بلکہ تقریباً 20کروڑ روپے کے واجبات بھی اُن سے دوماہ میں واپس لینے کا حکم دیا ہے۔اس رقم کا50فیصد خود عطاالحق قاسمی صاحب اور 20,20فیصد پرویز رشید اور اسحاق ڈار صاحب کو ادا کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔اُن پر یہ الزام بھی ہے کہ اُنہوں چیئرمین پی ٹی وی ہوتے ہوئے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کے اختیارات بھی استعمال کیے۔اس پر قاسمی صاحب کا تو یہی کہنا ہے کہ حکومت نے طویل عرصے سے ادارے کا منیجنگ ڈائریکٹر تعینات کرنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی ۔ اس لیے مجبورا اُنہیں ایم ڈی کے اختیارات استعمال کرنا پڑے۔ مراعات حاصل کرنے کے حوالے سے بھی اُن کا اپنا موقف ہے‘ لیکن عدالت کا فیصلہ تو بہرحال قبول کیے بنا کوئی چارہ نہیں۔
عطاالحق قاسمی صاحب نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق استعمال کرنے کا عندیہ تو دیا ہے‘ لیکن دل ناداں کا کیا جائے ‘جو بہت کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں ہورہا۔دل چاہتا ہے کہ جب وہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں تو فیصلہ ان کے حق میں آئے‘ ان پر لگے تمام الزامات غلط ثابت ہوجائیں۔ یہ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کا عکس ہوتے ہیں‘ جنہیں لوگ اپنا آئیدیل مانتے ہیں؛اگر یہ بھی ہرطرف اُڑنے والی گرد میں اٹے گئے ‘تو پھر باقی اور کیا رہ جائے گا؟دل ڈرتا ہے کہ اگر وہ اپیل میںبھی اپنے خلاف الزامات غلط ثابت نہ کرسکے تو کیا ہوگا؟بہت کچھ کرچی کرچی ہوکر رہ جائے گا اور شاید ایک مرتبہ پھر یہ تاثر مضبوط ہوجائے کہ حکومتیں ‘ اپنوں کو نوازنے کے لیے پی ٹی وی میں عہدے بانٹتی ہیں۔
ایسی بہت سی مثالیں موجود بھی ہیں کہ حکومتوں نے اپنے منظور نظر افراد کو اس ادارے کی چیئرمینی بخشی۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ اُن کے کام کو آسان کرنے کے لیے متعدد مواقع پر ادارے کو بغیرایم ڈی کے ہی چلایا جاتا رہا ‘تاکہ اُن کے راستے میں کوئی رکاؤٹ پیدا نہ ہوجائے ۔ایسا ایک سے زائد مواقع پر ہوچکا ہے۔اندازہ لگا لیجئے کہ اب بھی 2016ء کے بعدکہیں جا کر ادارے کو ارشد خان کی صورت میں مستقل ایم ڈی نصیب ہوا ہے‘یعنی ادارہ دوسال تک ایم ڈی کے بغیر ہی رینگتا رہا۔جب کبھی اس عہدے پر کسی کو فائز کرنے کی ضرورت ناگزیرہوگئی‘ تو قائم مقام ایم ڈی لگا کر کام چلا لیا۔صورت حال میں تبدیلی کے بعد غالب گمان تو یہی ہے کہ دوسال کے بعد تعینات ہونے والے ایم ڈی اس شاندار ادارے کی ہلی ہوئی بنیادوں کو دوبارہ سے مضبوط بنا دیں گے‘ کیونکہ وہ دومرتبہ پہلے بھی یہ بھاری پتھر اُٹھا چکے ہیں۔اس کے کچھ اثرات تو ظاہر بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں‘ جس کا اندازہ ہمیں پی ٹی وی کے لاہور سینٹر میں طویل عرصے بعد جا کر ہوا بھی ۔ وہاںماضی کی نسبت معاملات کسی قدر بہتر دکھائی دے رہے تھے۔یہاں ایک بڑی شکایت فنکاروں کو بروقت معاوضوں کا نہ ملنا ہوا کرتی تھی‘ لیکن حیرت انگیزطور پر اب کے وہاں جن بھی فنکاروں سے ملاقات ہوئی ‘و ہ کافی مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔اللہ کرے کہ بہتری کا یہ عمل جاری رہے‘ ورنہ تو بہت کم ہی کہیں سے خیر کی خبر آتی ہے۔بس صبح شام‘صبر ‘ اخلاص اور اخلاقیات کے درس ہی سننے کوملتے ہیں‘ لیکن مجال ہے ‘جو ان کا بھی رتی برابر اثر ہوتا ہو۔سچائی کی افادیت بیان کرتے کرتے گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ جھوٹ کی برائیاں گنواتے گنواتے اپن تن من دھن داؤپر لگا دیا جاتا ہے‘ لیکن معلوم نہیں سننے والوں پر اِس کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔پیار محبت کی تحریریں ہرجگہ پڑھنے کو ملتی ہیں‘ لیکن شاید ہی انہیں اب درخوراعتنا سمجھا جاتا ہو۔کچھ ایسا ہی چلن عام ہوچکا ہے کہ بس ایک ہم ہی سچے رہ گئے باقی تو ساری دنیا جھوٹی ہے ؛حالانکہ سنتے تو ہمیشہ سے یہی آئے ہیں کہ بقول شاعر؎
برے بندے نوں میں لبن ٹریا‘پر برا لبا نہ کوئی
جد میں اندر جھاٹی پائی تے میرے توں برا نہ کوئی
کیسی بے یقینی ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔جہاں سے بھی پرت سرکائی جائے نااُمیدی ہی سامنے آتی ہے۔اُمید کا دامن ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔غریب روٹی کے حصول اور امیر روٹی ہضم کرنے کے لیے بھاگ رہا ہے۔دکھاؤے کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے اور کرتا ہی چلا جارہا ہے۔جھوٹ بھی کچھ ایسی مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ چکا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو عدالتوں میں بیٹھ کراِس کے حوالے سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔ اغواء برائے تاوان کے ایک کیس میں سزائے موت کے دوقیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے‘ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ ‘ایک انگریز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ دنیا کے ہرکونے میں مرنے والا سچ بولتا ہے‘ لیکن پنجاب میں مرنے والا مرتے مرتے بھی جھوٹ بول کر دوچار لوگوں کو پھنسا جاتا ہے۔اُنہوں نے جھوٹ کے اِس کاروبار پر مزید روشنی بھی ڈالی‘کہتے ہیں‘ٹرائل کورٹ سے ملزم کو پھانسی ملتی ہے‘ ہائیکورٹ اُسے عمر قید میں تبدیل کردیتی ہے اور سپریم کورٹ میں آکر ملزم بری ہوجاتا ہے‘ پنجاب کے ہرمقدمے میں یہی ہورہا ہے‘ معلوم نہیں کہ اِن لوگوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈر کیوں نہیں لگتا‘ کیا صرف سپریم کورٹ کے ججوں نے اللہ کو جواب دینا ہے‘ اگر ماتحت عدالتوں نے یہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر اِنہیں بند کردیں‘ اب جھوٹے گواہوں کو بھی پکڑا جائے گااور جب دوچار جھوٹوں کو سزا ہوگی تو کافی کچھ بہتر ہوجائے گا۔جھوٹ کے حوالے سے انگریز جج کے فیصلے کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔
کوئی 80‘90 سال پہلے کی بات ہے‘ جب برصغیر میں انگریز کا طوطی بول رہا تھا۔گجرات کے ایک گاؤں میں بسترمرگ پر پڑے ایک شخص(نام مصلحتاً نہیں لکھا گیا) کے بچنے کی کوئی اُمید باقی رہی ‘نہ وہ ہلنے جلنے کے قابل رہا تو اُس کی چارپائی کاٹ دی گئی۔ اب بس اس بات کا انتظار تھا کہ وہ کب زندگی کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ ایک روز اُس نے اپنے بیٹوں کو بلا کرکہا کہ میں نے مر تو جانا ہی ہے‘ بندوق اُٹھاؤاور مجھے قتل کرکے الزام مخالفین پر لگا دو۔باپ کے زور دینے پر بیٹوں نے ایسا ہی کیا اور مخالفین ‘پولیس کی پکڑ میں آگئے۔ وہ تو اُن کی خوش قسمتی رہی کہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ مخالفین اُس روز گاؤں میں موجود ہی نہیں تھے تو اُ ن کی جان بخشی ہوگئی۔اس بات کو اتنی دہائیاں گزرگئیں‘ لیکن یہ واقعہ آج بھی پوری طرح سے اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں‘ کیونکہ جھوٹ کا کاروبار آج بھی پور ی طرح سے چمک دمک رہا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ جھوٹوںکو سزا ملنی ہی چاہیے لیکن مقدمات کے حوالے سے عملا صورت حال کچھ دیگر پہلوؤں کی اصلاح کرنے کی بھی متقاضی ہے۔عموماً یہ ہوتا ہے کہ ڈر کے مارے عینی شاہدین کہیں بھی گواہی دینے سے گریز کرتے ہیں۔اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک بار اس گورکھ دھندے کی لپیٹ میں آگئے ‘تو شاید کئی سال تک اُن کی جان نہیں چھوٹے گی۔پہلے پولیس کے پاس اور پھر عدالتوں کے چکر پہ چکر‘کام کاج کا حرج اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ الگ۔ان حالات میں جھوٹے گواہوں کو کھڑا کیا جاتا ہے‘ جن میں سے کچھ تو تعلق داری اور کچھ پیسوں کے باعث جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں۔عینی شاہدین کے تحفظ کو یقینی بنادیا جائے تو جھوٹی گواہیوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔بات پی ٹی وی سے نکلی اور کہاں جا نکلی ‘ شاید اس لیے کہ جب یہ سب کچھ نظروں کے سامنے ہوتا ہے‘ تو دل دکھتا ہے۔بس ‘جی یہ چاہتا ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے دائرے میں رہے‘ اخلاقیات اور اعتماد کی فصل کٹنے سے بج جائے ‘ وغیرہ وغیرہ کہ خواہشات پر تو کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔بقول شاعر؎
دے مجھے توفیق رکھوں حوصلہ ہرحال میں
آندھیوں کے سامنے دیوار و در بھی دے مجھے
اعتماد کی فصل ہے کہ تیزی سے کٹتی ہی چلی جارہی ہے۔ آئے روز ایسی ایسی شخصیات زیربحث آرہی ہیں کہ اعتماد ڈانواڈول ہونے لگتا ہے۔ بس ‘جی یہ چاہتا ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے دائرے میں رہے‘ اخلاقیات اور اعتماد کی فصل کٹنے سے بج جائے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں